فلسطین دنیا کا سب سے پرانا اور تاریخی ملک ہے ،
فلسطین کو ابنیا ؑ کی نگری بھی کہا جاتا ہیں۔ کیوں کے سب سے زیادہ انبیا ء
کرام ؑ اس ارض پاک پر گزرے ہے دوسرا یہ کہ اس ہی نگری میں نبی محترم ﷺ نے
تمام انبیاء کرام ؑ کی جماعت بھی بیت المقدس میں کرائی تھی اور ہم مسلمانوں
کا پہلا قبلہ بیت المقدس بھی فلسطین میں ہی واقعہ ہے ۔ اس کے علاوہ فلسطین
کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب یعنی عیسائی اور
یہودیوں کے لئے بھی فلسطین مقدس ہے ۔ لیکن آج فلسطین لہو لہان ہے ، آج
فلسطین میں قتل و قتال کا بازار گرم ہے ۔ جمعہ21 جولائی کو بھی تین بیگناہ
فلسطینیوں کا قتل ہوا ۔
ہم مسلمانوں کہ قبلہ اوّل اور فلسطین کے لئے شہادتوں کا آغاز صدیوں پرانا
ہے ، جب یہود و نصارا نے فلسطین پر قبضہ کر نے کے لئے حملے شروع کئے
تھے۔اگر موجودہ دوصدیوں کے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فلسطینیوں پرمظالم،
ان کی جانوں اور ان کے مالوں پر یلغار کا سلسلہ پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوا
تھا، جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس میں تیزی آئی اور ایک ظالم شخص ہٹلرکے
ہاتھوں ذلت و رسوائی کے مارے یوروپ کے یہودی، ساری اقوام سفید کی ایک ناپاک
سازش کے تحت عالمِ عرب کے قلب و ’’انبیا ء کرام کی نگری فلسطین ‘‘میں لاکر
بیٹھا دیا۔ یہ ایک عجیب ظالمانہ مذاق تھا کہ یہودیوں کو ستایا ایک یوروپین
نے ، اس کا ساتھ بھی دیا ان ہی یوروپ کے ہی نازیوں نے اور بے گھر یہودیوں
کو یوروپ میں نہ بساکر فلسطین میں بسایا گیا! سن 1947کی بات ہے، جب اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا اور سن
1948کو دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز و ناپاک یہودی سلطنت اسرائیل قائم ہوئی۔
اسرائیل کے اس نجس وجود کی ساری زمیداری امریکہ اور یورپین ممالک کے ساتھ
کچھ اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہے جو فلسطینیوں کو اپنے
گھر سے بے گھر کرکے یہودیوں کو بسانے کی سازش کرتا درتا ہے۔ چونکہ ایہودی
ایک عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے گوشہ ہیں، جس کی سرحدیں پورے عالمِ عرب سے
باہر عجم تک پھیلی ہوئی ہو، اور جس کے اندر سعودی عرب بالخصوص ، خانہ کعبہ
اور مسجد النبیﷺ بھی شامل ہے، اس منصوبے کی تکمیل میں1967 کا سال یہودیوں
کے لئے بہت ہی اہم رہا ہے کیونکہ یہ وہ سال ہے جب سعودی عرب اور اسرائیل کی
جنگ ہوئی تھی، یہ وہ جنگ تھی جس کے بعد قبلہ اوّل پر یہودی مکمل طور پر
قابض ہوگئے تھے ۔ سن 1996 کو پہلی مرتبہ قبلہ اول کے دروازے مسلمانوں کے
لئے بند کئے گئے ۔ اس وقت ساری مسلم دنیا، عرب و عجم سب کے سب یہودیوں کی
اس درندگی پر تلملا اٹھے تھے۔ مگرآج ایک مرتبہ پھر مسجد اقصیٰ کے دروازے
بند کر دئے گئے ہیں۔
14 جولائی جمعہ کا وہ دن جب مسجد اقصیٰ کے فرش پر جو صدیوں سے مسلمانوں کے
سجدوں سیشاداب رہا ہے، وہ فرش جہاں کھڑے ہوکر نبی محترم حضرت محمدعربیﷺ نے
سارے انبیا ء کرام کی امامت کی تھی اور جو تمام ہی انبیاء کرام کے پاک
سجدوں کی گواہ ہے وہ بیگناہ فلسطینیوں کے خون کی سرخ و لال ہوگئی۔یہودی
فوجیوں نے جوتوں سمیت مسجد اقصیٰ میں گس کر بے گناہ فلسطینیوں پر لاٹھی
چارج کی اور فائرنگ بھی کی جس سے متعد فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے جن میں تین
نوجوان شہید ہوگئے تھے اور مسجد اقصیٰ کو نماز کے لئے بند کردیا گیا ، کہا
جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ، مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بھی
بے حد مقدس ہے، لیکن یہ بات سچ اس لئے نہیں لگتی کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی
پر ساری عیسائی دنیا خاموش رہتی ہے۔ اور رہے یہودی تو وہ اس کی توہین کرتے
رہتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے لئے تو یہ قبلہ اول بھی ہے اور امام الانبیاء
حضرت محمدﷺکی پیشانی مبارک کے سجدوں سے آباد مقام عبادت بھی۔ یعنی انتہائی
مقدس، لہٰذا مسلمان نہ یہاں نماز کانہ پڑھنا برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی اس
کی بے حرمتی۔
ارض مقدس قبلہ اول اور انبیا ء کرامؑ کی نگری کے باشندوں پر قابض اسرائیلی
حکومت اور یہودی آباد کاروں نے مظالم کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ انتہا
پسند یہودی اب فلسطینیوں پر ظلم کی ایک نئی داستان قائم کر رہے ہیں۔ ساتھ
ہی ساتھ نئی بستیاں بسانے کیلئے مقامی مسلمانوں کو طرح طرح سے ہراساں کیا
جارتھا ہے۔ یہودیوں کے مظالم اور ان کی سرپرستی کرنے والی اسرائیلی پولیس
کے ظلم وستم سے تنگ فلسطینی نوجوان اگر اپنی تحفظ کیلئے چاقو بھی اُٹھائے
تو وہ دہشت گرد ٹہرائیگا اس کو گولی ماردی جائیگی،ایک عرصہ سے فلسطین کے
نوجوان اپنے اُپر کیئے گئے مظالم کا بدلہ صرف پتھر سے لے رہے ہیں۔ مٹھی بھر
یہودیوں کیلئے زبردست حفاظتی سیکوریٹی انتظامات ہیں، جب کہ مظلوم فلسطینیوں
پر یہودی آبادکار جب چاہے حملہ کردیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم عروج پر
ہے۔اسرائیل نے ان کو محصور کر رکھا ہے۔ ان کو کوئی بنیادی سہولتیں حاصل
نہیں ہیں۔ بے روزگاری انتہائی درجہ پر پہنچ گئی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے
مکانوں اور علاقوں سے نکالا جارہاہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ چھوٹے موٹے
الزامات میں بھی انہیں جیلوں میں بند کیاجارہاہے۔ بچوں اور خواتین کو بھی
بخشا نہیں جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی آئی تھی جن میں
فلسطینی خواتین اورنوجوان لڑکیوں کو حجاب ہٹانے سے انکار پر اسرائیلی پولیس
کی جانب سے گولی ماری جاتی ہیں۔ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی داستان بہت
پرانی ہے لیکن یہ ظلم اب حد سے پار ہوتھا جارہا ہیں۔۔
14 جولائی کا حملہ، تین نوجوانوں کی شہادت مسجد اقصیٰ کے دروازوں کا بند
کیا جانا، جس پر فلسطینیوں کا شدید احتجاج، 21 جولائی جمعہ کو یوم ِ غضب
اور یوم غضب پر صہیونی درندوں کے ہاتھوں مزید تین فلسطینی مسلمانوں کی
شہادت، امام مسجد اقصیٰ سیمت سیکڑوں نمازیوں کو زخمی کرنا اس پر ہی بس نہیں
اب انہونے دوبارہ غزہ پر بمباری کی دھمکی بھی دی ہے۔ یہ ایک پرانی سازش ہے
جو سن 1948میں بنائی گئی تھی جس کا متن بیت المقدس کو فلسطینیوں سے خالی
کرواکر وہاں یہودیوں کو آباد کرانے اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کے
قیام کرنا ہے۔فلسطین اور فلسطینی مسلمان سن 1947 سے ایک ایسی عجیب و غریب
صورتحال سے دوچار ہیں ،جہاں ایک جانب اسرائیل کے ظلم وجبر پر عالمی برادری
کی بے حسی کا نوحہ ہے تو دوسری جانب صبروبرداشت اور بہادری وجرآت کی ایک بے
مشال داستان بھی ہے۔
آج فلسطین کی مشرقی پٹی غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا
ہے۔ اس کی ناکہ بندیکو دس سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا ہے۔ وہاں کے 75فیصد
رہائشی غذائی قلت کے شکار ہیں۔غزہ اندھیرے میں ڈوب رہا ہے بیس بیس گھنٹے
لوڈ شیڈنگ ۔ بے روزگاری آسمان کو چھورہی ہے اور اسرائیلی فوجی اندھا دھند
گولیاں چلاتے گھوم رہے ہیں۔ غزہ اب تک تین جنگیں جھیل چکاآج بھی حالات جنگ
میں ۔ کون سا ظلم ہے جوا’ انبیاء کرامؑ‘ کی مقدسزمین یعنی فلسطین کے بے
گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا۔ اسرائیل کے غاصبانہ
قبضے کے خلاف نہتے فلسطینی پتھروں اور غلیلوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ارض
فلسطین کی آزادی کے لیے 64 برسوں میں لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں نے اپنی
جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔’’ لہو لہو ہے یہ نگری انبیاء کرام ؑکی‘‘
اور اس پر خاموشی اسلامی حکمران کی دنیا میں50سے زائد اسلامی ممالک ہیں
لیکن اس کے باوجود بھی کسی کو انبیا ء کرام ؑکی سرزمین فلسطین میں اسرائیل
کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ نجانے کیوں ایک ارب کے لگ بھگ مسلمان بھی بے حس
و بے بس ہوچکے ہیں۔خدا جانے کب فلسطین پہ چھائی ظلم کی شام صبح میں بدلے گی؟
خدا جانے کب کوئی عمر فاروق ؓ دوبارہ آئیگا ؟کب کوئی صلاح الدین ایوبی ؒ
فلسطین کو یہودیوں کے قبضے سے چڑانے آئیگا؟۔
’’انبیاء ؑ کرام کی نگری‘‘ کوآج بھی انتظار ہے کسی دور فاروقی کا ، لیکن
ہمارے موجودہ اسلامی حکمرانوں کو ایک دوسرے پر سبقت کا ، سعودی عرب کی کوشش
ہے کہ ایران اور قطر کو قابوں کروں تو ایران کی کوشش ہے کہ میں قابوں کروں
پورے مشرقی واسطیٰ کو ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ یا اﷲ ہم مسلمانوں پر اپنا خصوصی
کرم فرما اور اتفاق نصیب فرما:(آمین)
|