مشترکہ خاندانی نظام

مشترکہ خاندانی نظام یا جوائنٹ فیملی سسٹم ایک ہی گھر میں ایک سے زیادہ خاندانوں کے رہنے کے لئے اصطلاحاً استعمال ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مشترکہ خاندانی نظام کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ اس خطے پر انسانی قدموں کے براجمان ہونے کی ہے اور یہ نظام آج تک انتہائی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس نظام کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ جب ہم لفظ خاندان یا فیملی سنتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں جو کہ خاکہ ابھرتا ہے وہ مشترکہ خاندان کا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور والدین، میاں بیوی، ان کے بچے، بھائی ،بہن ، بھابھی اور دیور، ہم ان سب رشتوں کو ایک ہی فیملی کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ مغرب ، حتیٰ کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک خاندان صرف میاں بیوی اور ان کے بچوں کو سمجھا جاتا ہے۔ اور اس بات کا عملی مظاہرہ بھی ملتا ہے۔ جب کسی بچے یا بچی کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی اپنی فیملی بن جاتی ہے اور اس کا علیحدہ رہنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نظام ہمیں ہندؤں سے ورثہ میں ملا ہے اور اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ دوسری طرف بعض مذہبی لوگ مشترکہ خاندانی کے پروزور حمایتی نظر آتے ہیں۔ جس طرح اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اس طرح مشترکہ خاندانی نظام کے ناقدین اور اس کے حمایتی اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں اورمنفی بھی۔ جب ایک ہی گھر میں ایک سے زیادہ خاندان رہتے ہوں تو انہیں مالی طور پر اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک ہی پراپرٹی میں زیادہ خاندانوں کے رہنے سے جگہ کی قیمت یا کرائے کی بچت ہوتی ہے۔ ضروریات زندگی مثلاً علیحدہ فرنیچر، برتن، ضروریات زندگی اور اشیائے خورد و نوش کے خرچہ میں کمی آتی ہے۔ اکٹھے رہنے سے آپس میں پیار محبت قائم رہتا ہے اور ایک گھر کے افراد کام کاج میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں اور دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں۔ گھر کے بچوں کو تنہائی کا احساس نہیں ہوتا اور وہ والدین اور دادا دادی کی سنگت میں رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے لگتے ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ بزرگوں کی رہنمائی میں بچوں کی تربیت بہتر انداز میں ہوتی ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی اور افراتفری کے دور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مشترکہ خاندانی نظام ناکام ہوتا جا رہا ہے۔ اس نظام کے بہت سے نقائص سامنے آ رہے ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام میں درج ذیل مسائل پائے جا رہے ہیں۔

روز مرہ کے لڑائی جھگڑے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر فضول بحث کرنا۔ ذاتی زندگی کا بری طرح سے متاثر ہونا ۔ پرائیویسی کو دنیا بھر میں آج کل بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن اصل میں یہ ذاتی پرائیویسی ہی اخلاقی بیماریوں کی جڑ ہے۔ گھر کے اکثر معاملات اور فیصلے کسی ایک فرد کے ہاتھ میں ہونا اور تمام افراد کی رائے کو ضروری نہ سمجھا جاتا۔ گھر میں موجود دوسرے افراد کے غلط رویوں کا آپ کے بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہونا۔ گھر کے کام کاج کے حوالے سے تمام افرادکا برابر ذمہ داری نہ اٹھانا۔ اکثر گھر کے اخراجات کا بوجھ کسی ایک فرد کے اوپر زیادہ ہونا۔ اور سب سے بڑھ کر مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوئے عورت و مرد کے لئے پردہ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی جبکہ دین کی رہنمائی کے مطابق ایک عورت کا اپنے شوہر اور سُسر کے علاوہ شوہر کے خاندان کے تمام مردوں سے پردہ واجب ہے ۔ حدیث پاک میں دیور کو موت قرار دیاگیا ہے جبکہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہوئے بھائی اور دیور کے درمیان پردہ ناممکن حد تک مشکل ہے ۔

ان مسائل اور دین کی رہنمائی کو سامنے رکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام مکمل طور پر مسترد ہوجاتا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب اگرہم مغرب کی بات کریں تو وہاں خاندان کا ادارہ تقریبا دم توڑ چکا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کونسا خاندانی نظام اپنایا جائے اس کا جواب ہمیں چودہ سو سال پیچھے جاکر تاریخ اسلام اور دین کی فراہم کردہ رہنمائی کو سامنے رکھتے ہوئے ملتا ہے ۔اگر ہم اس بنیاد پر ایک خاندانی نظام تشکیل دیں تو چند رہنما اصول سامنے آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

اگر ہم آپﷺ کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو آپﷺ کی تمام ازواج مطہرات کا علیحدہ حجرہ تھا یعنی تمام ازواج مطہرات کو علیحدہ گھر کی چار دیواری مہیا کی گئی تھی۔یعنی ایک علیحدہ گھر جو چاہے ایک کمرہ اور کچن پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوکسی بھی عورت کا اپنے شوہر پربنیادی حق ہے ۔

دوسری جانب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں نظر دوڑائیں تو یہ روایت ملتی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری رمضان میں ایک دن حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیا دوسرے روزحضرت حسین رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیا جبکہ تیسرے روز اپنے داماد حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیاجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بھی علیحدہ اپنے گھروں میں رہتے تھے مگر ساتھ ہی وہ صلہ رحمی کے تحت رشتوں کو اعتدال کے ساتھ نبھاتے تھے ۔
یہاں خاندانی نظام کی دو ممکنہ صورتیں سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ شوہر ،بیوی اور بچے غیر شادی شدہ۔ ایک گھر میں رہیں یا شوہر ،بیوی ،بچے اور والدین ایک ہی گھر میں رہ سکتے ہیں ۔ دین کے لحاظ سے والدین کی خدمت کی ذمہ داری شوہر پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو اس کے والدین کا خیال رکھنے میں بھر پور مدد کرے اس سے رشتوں میں مضبوطی آتی ہے ۔ اور اگر والدین تمام بچوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اس کی یہ صورت نکلتی ہے کہ تمام بیٹے والدین کے قریب ہی گھر لیں یا کسی بڑے احاطے میں چھوٹے چھوٹے مکان بنا لیے جائیں تاکہ والدین کا خیال بھی رکھا جاسکے اور بیوی کے حقوق بھی پورے کیے جاسکیں۔ اس طرح سے پورا خاندان اکٹھا بھی رہ سکتا ہے اور ہرکوئی اپنی ذاتی زندگی سے بھی لطف اندوز ہوسکتا ہے اور بچوں کی تربیت میں بھی کوئی خلل نہیں آئے گا۔ان بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے خاندان کے افراد کی تعداد ، روایات اور اقدار کے مطابق ایک بہترین خاندان تشکیل دے سکتے ہیں ۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کی طرف رہنمائی کرتا ہے لہٰذا اپنے خاندانی نظام کے بارے میں رہنمائی بھی ہمیں اسلام سے ہی لینی چاہیے نہ کہ مغرب کے ٹوٹ بٹوٹ فیملی سسٹم سے۔

Sajid Habib Memon
About the Author: Sajid Habib Memon Read More Articles by Sajid Habib Memon: 19 Articles with 21776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.