قارئین محترم! یقین جانیں یہ میں نہیں کہہ رہا اور نہ ہی
یہ میری خواہش ہے۔ نواز شریف میرے ’دل مریض ‘بھائی ہیں۔ دل کے مریضوں کے
ساتھ ہاتھ ہولا رکھنا چاہیے ورنہ کبھی کبھی کوئی تیر ایسا نشانے پر جا لگتا
ہے کہ مریض یہ گیا اور وہ گیا۔ اپنے کالم کا جو عنوان رکھا ہے یہ میرے
الفاظ نہیں ، میں تو ’نواز شریف اورپاناما کیس ‘، ’جے آئی ٹی‘، ’فیصلہ
محفوظ نواز شریف غیر محفوظ‘ قسم کے کالم پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ آج میں فیس
بک پر نظر دوڑا رہارہا تھا کہ اچانک معروف شاعر اور کالم نگار ڈاکٹر محمد
اجمل نیازی کا کالم سامنے آگیا۔ ڈاکٹر صاحب ’’بے نیازیاں‘‘ کے عنوان سے
کالم لکھتے ہیں ۔ اس کالم کا عنوان تھا ’’جو کہنا ہے کہہ دیجئے، کل تک بات
بدل جائے گی‘‘۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے یہ خبر اپنے اس کالم کے توسط سے دی کہ
دیواروں پر لکھا جاچکا ہے کہ’’ نواز شریف کو جانے دو اور شہباز شریف کو آنے
دو‘‘۔ جانے ، نہ جانے کی باتوں کو شروع ہوئے کوئی سوا سال ہوچکایعنی جب سے
پاناما لیکس کی منہ دکھائی ہوئی ہے آنے اور جانے کی باتیں شروع ہوچکی ہیں۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کا یہ کالم دراصل چودھری نثار کے بارے میں ہے جنہیں وہ
بہت پسند بھی کرتے ہیں ۔ جو بات ڈاکٹر صاحب نے کہی اس میں وزن ہے ، سچائی
ہے، صاف گوئی ہے یعنی اگر فیصلہ آگیا پھر چودھری صاحب اپنا پنڈورا بکس کھول
کر بیٹھ گئے اور اپنی پارٹی کی کالی بھیڑوں کو برا بھلا کہا اور ان پر تمام
الزام تھوپ دیا توان کی بات میں وقعت نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی یہ
رائے ہے کہ جو کچھ کرنا ہے ابھی کر لیجئے اور کہہ ڈالیے۔ کل تک بات بدل
جائے گی۔ باتیں ڈاکٹر اجمل نیازی نے تمام ہی اچھی کی ہیں اور وہ اپنی جگہ
سو فیصد درست بھی ہیں یعنی ان کا یہ کہنا کہ چودھری نثار نون لیگ کے قیام
سے ہی میاں نواز شریف کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کو زیادہ پسندکرتے
ہیں،پسند ضرور کرتے ہیں لیکن سیاسی لیڈر کے طور پر تو نواز شریف کے ہی
مریدین میں شامل ہیں۔شہباز شریف سے ان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ وہ جب بھی
روٹھتے ہیں شہباز شریف ہی انہیں منا لیتے ہیں۔ سو شل میڈیا پر کسی نے کیا
خوب مزاق کیا کہ’ چودھری نثار اصل میں اُس وقت سے میاں براداران سے ناراض
ہے جب سے دونوں بھائیوں نے تو سر پر مصنوعی بال لگوالیے اور چودھری نثار کو
پوچھا تک نہیں‘۔ خیریہ ایک مزاق ہے اور اسے مزاق ہی رہنا چاہیے۔ اس کی ایک
وجہ چودھری نثار کا وگ استعمال کرنا ہے۔ بات ڈاکٹر اجمل نیازی کی کررہا تھا
انہوں نے اپنے کالم میں چند اشعار بھی بہت خوب لکھے ہیں جن سے موجودہ صورت
حال کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ فیضؔ احمد فیض کا یہ شعر دیکھئے
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
ایک شعر مرزا اسد اللہ خان غالب ؔ کا بھی انہوں نے لکھا یہ بھی فٹ بیٹھتا
ہے ہمارے وزیر اعظم پر فٹ بیٹھتا ہے ۔اس لیے کہ وہ پاناما لیکس کے فیصلے سے
بے پروا ، بے فکر مری جاکر قدرت کے مناظر کے مزے لے رہے ہیں، بیرونِ ممالک
کے دورے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد میں ہرگز نہیں کر رہے ہیں۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگر نہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
چودھری نثار کے بارے میں بلا شبہ یہ رائے موجود ہے کہ وہ نون لیگ میں معقول
اور مثبت سیاسی بصیرت رکھنے والے،سچ کو سچ، غلط کو غلط کہنے میں ہچکچاہٹ
محسو س نہیں کرتے۔ اس حوالے سے سے ان کا سابقہ سیاسی ریکارڈ بھی گواہ ہے ۔
وہ نون لیگ میں ہمیشہ وزیر رہے ، اہم وزارت ہمیشہ ان کے پاس رہی، انہوں نے
عمران کی بھی مخالفت کی، زرداری کی بھی مخالفت کی۔ لیکن شائستگی ، تہذیب
اور تمیز کے دائرے میں رہ کر۔ نہال ہاشمی، طلال چودھری،عابد شیر علی، سعد
رفیق، طارق فضل چودھری، حنیف عباسی ، دانیال عزیز اور دیگر چند کی طرح بد
کلامی، بیہودگی ، بد زبانی کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ پاناما کیس کا فیصلہ
آیا ، کیا ردِ عمل تھا درباری وزراء کا ، ان کے مقابلے میں کیا کردار تھا
چودھری نثار کا۔ جے آئی ٹی بنی ، اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئی ،
پھر عدالت نے وکیلوں کو سنا ۔ عدالت کے باہر یہی نون لیگی جن کے نام اوپر
درج کیے مائیک پر آنے کے لیے کس طرح مضطرب ، بے چین و بے قرار، آپے سے باہر
دکھائی دیاکرتے تھے۔مریم نواز کی پیشی ہوئی عدالت کے باہر مریم نواز
پروٹوکول میں اپنی کار سے اتریں، میڈیا نے دکھایا کہ اس وقت حنیف عباسی کی
حالت کیا تھی، کس طرح لوگوں کو چیرتا ہوا کیمرے کے سامنے آموجود ہوا، کیا
مقصد تھا یہی کہ میری پکی والی حاضری لگ جائے۔ پھر کس طرح کی زبان اور کیا
لب و لہجہ درباری وزراء کا ہوا کرتاتھا۔ چودھری نثار تو ایک دن بھی عدالت
میں نواز شریف کو دکھانے کے لیے نہیں گے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں گئے ۔
کیوں؟ اس لیے کہ وہ اس قسم کے سیاست دان نہیں۔ سیاست میں شائستگی ، تہذیب ،
تحمل اور برداشت کے قائل ہیں۔ ان کی بہادری اور صاف گوئی ضیاء الحق کے دور
اقتدار میں دیکھی جاچکی ہے جب وہ کابینہ کے رکن تھے۔ اس وقت بھی درباری
وزراء کا یہی طرز عمل تھا ۔ اس وقت درباری وزراء ضیاء الحق نے انتخابات سے
فرار کا مشورہ دیا اور صدارتی نظام کی بات کی تاکہ ضیاء الحق بر سرِ اقتدار
رہے اور ان کی وزارت قائم و دائم رہے، چودھری نثار نے درباری وزرا ء کے
برخلاف ضیاء الحق کوصاف صاف اوردو ٹوک الفاظ میں بتا یا کہ وہ عوام میں
مقبول نہیں انتخابات ہوئے تو انہیں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی۔
1985میں چودھری نثار نے اس وقت جب جونیجو کی کرسی ڈگ مگاتی نظر آئی،پھر
برطرفی ہوئی کئی وزیر فارغ ہوئے لیکن چودھری صاحب کا بینہ کے رکن رہے ،
نواز شریف صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور چودھری صاحب نے جونیجو کے
مقابلے میں نواز شریف کو اپنا رہنما بنایا اور نوازیے ہوگئے۔ وہ لاکھ شہباز
شریف کو دوست رکھتے ہوں لیکن ان کا لیڈر تو نواز شریف ہی رہا اور اب بھی
ہے۔ البتہ وہ اکثر و بیشتر کسی نہ کسی معاملے پر روٹھ جایا کرتے ہیں ،
روٹھنا ان کی ادا ہے۔ پھر کسی نہ کسی کے منانے پر مان بھی جاتے ہیں۔ اب بھی
کچھ ایسا ہی عمل جاری ہے۔ انہیں راضی کرنے کے لیے کئی نون لیگئے دوڑ دھوپ
میں مصروف ہیں۔ چودھری صاحب کی جانب سے ان کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ جب
تک انہیں یعنی چودھری صاحب کو اس بات کی وضاحت نہ کردی جائے کہ انہیں نون
لیگ کے اجلاسوں میں مدعو کرنا کیوں بند کردیا گیا۔ یعنی جب جے آئی ٹی کا
فیصلہ آیا اور کرسی ڈگ مگانے لگی ، تو نون لیگی سر جوڑ کے بیٹھے اس میں
چودھری نثار نے اپنی عادت کے مطابق باتیں کیں اس کے بعد سے انہیں پارٹی کے
اجلاسوں میں شریک نہیں کیا جارہا۔
میاں صاحب کو سوچنا چاہیے کہ چودھری نثار شروع ہی سے ان کے ساتھ ہیں، وزیر
بھی رہے، اہم وزارت ہمیشہ ان کے پاس رہی۔ ان کے بارے میں کوئی مالی
باقاعدگی، کوئی اسکینڈل ، جائیدادیں، فلیٹس، آف شور کمپنیاں، بنک بیلنس
کیوں نہیں سامنے آیا۔ دوسرے جانب میاں صاحبان کو تو چھوڑیں اولاد چیز ہی
ایسی ہے کہ اس کے سامنے ماں باپ بے بس ہوجایا کرتے ہیں۔ زرا سمدھی جی کو تو
دیکھ لیں ۔ سمدھی جی پہلے بھی وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں انہوں نے سپریم
کورٹ میں جو ریکارڈ جمع کرایا اس کے مطابق وہ5 سالوں میں 9ملین سے 837 ملین
کے اثاثہ جات کے مالک ہوچکے ہیں۔ ایسی کونسی جادو کی جھڑی ان کے ہاتھ میں
ہے ملک و قوم کو قرضوں کی دلدل میں پھنساتے رہے خود امیر سے امیر بننے کی
دوڑ میں لگے رہے۔پوچھیں میاں صاحب ان سے کہ اتنے اثاثے کیسے بن گئے لیکن وہ
ایسا کیوں کریں گے انہیں کراراجواب جو ملے گا ۔ چودھری نثار نے تو کوئی
اثاثے نہیں بنائے۔ چودھری نثار یقیناًمیاں صاحب اور ان کے درباریوں کی سوچ
سے مختلف موقف رکھتے ہیں ۔ ان کی خاموشی یہی کہہ رہی ہے، انہوں نے پریس
کانفرنس کرنے کی بات کی ، پریس کانفرنس کا دن کچھ دیر قبل لاہور میں ارفع
کریم ٹاور کے پاس، فیروزپور روڈ پر خود کش دھماکہ ہوا جس میں 26لوگ شہید
ہوگئے جن میں9پولیس اہل کار شامل ہیں ، زخمیوں کی تعداد بھی بہت ہے۔ چودھری
نثار نے اس واقع کے باعث پریس کانفرنس میں سیاسی موضوع پر گفتگو ملتوی کردی
ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور کے واقع کے بعد میرے لیے ممکن نہیں کہ میں سیاسی
معاملات پر بات کروں ، بعد میں اس موضوع پر بات کی جاسکتی ہے‘۔ چوھری صاحب
کے حوالے سے بہت کچھ گردش میں ہے ۔ ان کی خاموشی سے متعد د قسم کی قیاس
آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ وہ نون لیگ کو خیر باد کہہ کر
اپنے پرانے دوست کپتان سے جا ملیں گے، کوئی کہتا ہے کہ وہ صرف اپنی وزارت
سے الگ ہوجائیں گے، کسی کا خیال ہے کہ چودھری صاحب اپنی پریس کانفرنس میں
درباری وزراء کے لتے لیں گے جنہوں نے تماشا لگا کر اخلاقیات کی تمام حدود
کراس کردیں اور معاملے کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں محترمہ
وزیر اطلاعات بھی شامل ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ’ ہر ایک کی اپنی اپنی
اخلاقیات ہوتی ہیں‘۔اداروں سے ٹکراؤ میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی، چودھری
اداروں سے ٹکراؤ کے حق میں نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے چودھری
نثار کو یہی مشورہ دیا ہے اور میری بھی یہی رائے ہے کہ چودھری صاحب کو جو
بھی فیصلہ کرنا ہے اسے فوری کرلینا چاہیے ۔ میں نے اپنے سابقہ کالم میں
لکھا تھا کہ چودھری صاحب تذبذب کی کیفیت میں نظر آتے ہیں انہیں اپنی اس
کیفیت کو دو ٹوک اور واضح کیفیت میں لے آنا چاہیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے
کہ میاں نواز شریف کسی بھی صورت اپنی کرسی اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کو
سونپنے کے موڈ میں ہر گز نظر نہیں بقول کسی سیانے کے کہ چودھری نثار کی
ہاتھ کی لکیروں میں پاکستان کا وزیر اعظم بننا نہیں تو پھر وہ کیسے اس کرسی
پر براجمان ہوں گے۔ ہماری سیاسی تاریخ ہی یہ ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ کوئی
اور نظر ہی نہیں آتا، اگرنظر پڑتی بھی ہے تو اولاد، بھائی اور عزیز رشتہ
داروں پر، ایسا ہوابھی ہے اور اس وقت بھی ہے۔ بھٹو خاندان کی مثال سامنے
ہے۔ |