کبھی کبھی انسان ایسی صورت حال سے دوچارہوتاہے کہ اس کے
لیے آر یا پار والی بات بن جاتی ہے۔یہ حالت عموما اس وقت بنتی ہے ۔جب وہ
کسی ایسے مسئلے میں پھنس جائے جس کا اسے تجربہ نہ ہو۔اب چونکہ اس کے پاس
سابقہ تجربہ نہیں ہوتا۔اس لیے وہ اندھیرے میں تیر چلاتاہے۔کبھی اس کا تیر
نشانے پرلگ جاتاہے ۔او ر کبھی رائیگاں جاتاہے۔اگر تیر نشانے پر بیٹھے تو وہ
اس مصیبت سے باہر آجاتاہے۔ورنہ دوسری صور ت میں میں اس کے مصیبت دوچند ہونے
کے امکانات بن جاتے ہیں۔ایسی حالت جب کچھ اندازہ نہ ہو کہ نتیجہ کیا نکلے
گا۔اندھیرے میں تیر چلادینا جواء کہلاتاہے۔بعض اوقات قدرت کی کوئی آزمائش
اس طرح کے جوئے کی راہ دکھاتی ہے۔بعض اوقات انسان کے زیادہ سے زیادہ کے
مالک ہونے کی خواہش کے سبب ادھر لڑھک جاتاہے۔تاریخ نے پاکستانی قوم کوبعض
بے ایمان لوگوں کے ہاتھوں بار بار لٹنے کا ساماں کیا۔ کسی آدمی کے لیے قوم
نے اندازے لگائے اس پر اعتماد کیا او رپھر نقصان اٹھایا کبھی تبدیلی کے نام
پر دھوکہ کھایاکبھی مذہب کے نام پر اور کبھی جمہوریت کے نام پر ۔ اس کے
ساتھ ہمیشہ دھوکہ ہوا۔مگر وہ جو اء کھیلتی رہی۔اسے رہزن اور لٹیرے رنگ رنگ
کے بھیس بدل کر ملتے رہے۔اور وہ اعتبار کرتی رہی۔ قوم نے پورا یقین نہ
رکھنے کے باوجود لوگوں کو اپنا مکروہ کھیلنے کا موقع دیا۔یہ لوگ اپنا کرتب
دکھا کر اسے لوٹنے اور اپنی کامیابی کا جشن مناتے۔ان کا اصل چہرہ دیکھ کر
قوم بس یہی کہتی کہ یہ بندہ بھی ٹھگ نکلا۔اس کے بارے میں لگائے اندازے بھی
غلط نکلے۔قوم مگر جلد اعتبار کرنے کی بیماری کا شکارہے۔ ۔جلد ہی ایک اور
بھلامانس او رنیک صورت بندہ پھر سے قوم کی توجہ کا طالب ہوتاہے۔اور قوم ایک
بار پھر اس سے متعلق کہانیوں کی تمام تر آگہی کے باوجود اس کی باتوں پر
اعتماد کرلیتی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دور حاضر کے بھلے مانس او رنیک صورت بندے
ہیں۔قوم کی ایک واضح اکثریت جو بالخصوص کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔عمران خان
کو مسٹر کلین تصور کرتی ہے۔او ران کو وزیر اعظم بنانے کی تمنا رکھتی ہے۔خاں
صاحب دیر سے قوم کا خادم بننے کی راہ ہموار کرہے ہیں۔مگر اب تک منزل نہیں
مل پائی۔اپنے تئیں انہوں نے نواز شریف کا اقتدار ختم کرنے کی تما م تر کوشش
کرلی ہے۔مگر اقتدار اب بھی دو ر ہے۔اب جبکہ پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ
ہے۔خاں صاحب اس کے جلد از جلد سنائے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔انہوں نے
سپریم کورٹ کو بالواسطہ الفاظ میں فیصلہ جلد سنانے کی فرمائش بھی کردی
ہے۔اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کے فروغ ہوجانے
کے امکانات سے بھی آگاہ کردیاہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے تحریک انصاف کی نان سٹاپ گو نواز گو تحریک کو ناکام
بنانے کی بڑی بھاری قیمت چکائی ہے۔ان کی جتنی ذلت او ررسوائی تحریک انصاف
کے ہاتھوں کچھ لوگوں نے کروائی ہے۔اس کے بعد بھی وزیر اعظم کا اپنی جگہ
قائم رہنا حیر ان کن ہے۔وزیراعظم کا مزاج اس طرح کی صورت حال کے بالکل
برعکس ہے۔وہ بنیادی طور پر ایک شریف النفس ۔مذہبی اور سادہ طرز زندگی
اپنائے ہوئے ہیں۔ان کا خاندانی پس منطر ایسا ہے کہ وہ کئی پشتوں تک فکر
معاش سے آزادہیں۔انہیں اقتدار نہیں اقدا رکا فلسفہ بار بار عوامی عہدے کی
طر ف کھینچتا ہے۔وہ پاکستان کو ان قوتوں کے چنگل سے چھڑانا چاہتے ہیں۔جو
دھکے شاہی اور ناجائز طور پر مسلط ہوگئی ہیں۔جن کا کام تو کچھ تھا۔مگر
دلچسپی کسی او رطرف ہے۔نواز شریف کے خلا ف کبھی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری
اور کبھی عمران خاں کے روشن چہروں کو کھڑا کرنے والے یہ لوگ ملک کو اپنی
جاگیر سمجھ کر قوم کو غلام رکھنا چاہتے ہیں۔نوازشریف نے اتنی ذلت کے با
وجود محض ان لوگوں کی کمر توڑنے کے لیے میدان نہیں چھوڑا۔وزیر اعظم نے
پیپلز پارٹی کو بار بار جمہوریت کی مضبوطی کے لیے دعوت عمل دی۔مگر شاید اس
جماعت کے پاس سوائے شعبدہ بازیوں کے سوا کچھ نہیں ۔بھٹو مرحوم نے اس پارٹی
کو جو خمیر ہاتھ کی صفائی کے فلسفے پر بخشا تھا۔عشرے گزرنے کے بعد بھی اپنا
اثر دکھا رہاہے۔اس وقت جب کہ غیر جمہوری قوتیں جمہوریت کی رسوائی کا تماشہ
دیکھ رہی ہیں۔پی پی کی طرف سے وزیر اعظم کے استعفی کی تحریک چلائی جارہی
ہے۔پی پی قیادت اچھی طرح سمجھتی ہے کہ معاملات درحقیقت کیا ہیں۔یہ کیا کھیل
کھیلا جارہا ہے۔مگر اس جماعت کی پتھر کے دور کی سیاست رک نہیں رہی۔سندھ
اسمبلی سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفی کی قرارداد کی منظوری اب راج کرے
گی خلق خدا کے پی پی فلسفے کی حقیقت ہے۔
نوازشریف چاہتے تو غیر جمہوری قوتوں سے سمجھوتہ کرکے اپنے پانچ سال سکون سے
گزار لیتے ۔مگر ان کی جمہوریت کو ناقابل تسخیر بنانے کی تڑپ انہیں اس بے
سکونی او رذلالت کی طرف لے گئی جو پچھلے ساڑھے چار سالوں سے برداشت کررہے
ہیں۔وہ چاہتے تو پی پی کے اب تک بیسیوں لوگ جیلوں میں ہوتے۔مگر غیر جمہوری
قوتوں کو نشان عبر ت بنانے کی تمنا نے پی پی قیادت کو قدرے فری ہینڈ دیے
رکھا۔نواز شریف نے زرداری دور میں پی پی کے ساتھ غیر مشروط تعاون کا عزم
بھی اسی لیے کیا کہ دونوں بڑی جماعتیں جمہوریت کے قاتلوں کو تہس نہس کرنے
پر کاربند ہوسکیں۔بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔زرداری دور کے بعد لیگی قیادت
نے اپنے موجودہ دور حکومت میں بھی پی پی کو ساتھ ملانے کے لیے بیسیوں اشارے
دیے مگر یہ جماعت دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے باز نہیں رہی۔زرداری دور کے
بعد نوازشریف کے حالیہ دور میں بھی پی پی کا تعاون پانے سے متعلق لیگی
قیادت جو اء کھیلی او رایک بار پھر اسے ہار ملی۔
|