میں ہوں جلاد مجھے تم جان لو پیارے

یک دوست ہیں ہمارے، کراچی میں رہتے ہیں، نام ہے انکا راشد اشرف، صاحب کتابوں کے کچھ ایسے رسیا ہیں کہ الصبح صدر کراچی میں اتوار کے اتوار لگنے والے کتب بازار میں بلا ناغہ جا پہنچتے ہیں اور اس سے پہلے کہ ان کی من پسند کتابیں کوئی اور اچک لےجائے خود ہی اچک لے آتے ہیں۔ بخدا ہم انہیں کسی طور ہرگز ہرگز اچکا نہیں گردانتے، اچکا تو ہماری چشم تصور میں ان کو وہ کتب فروش اپنے دل ہی دل میں کہتے ہونگے کہ جو بقول خود بھائی راشد کے ان سے جس کتاب کے چار سو روپے طلب کرتے ہیں اور وہ اپنے بھاؤ تاؤ سے محض سو روپوں میں ان سے اچکنے، معاف کیجئے گا، حاصل کرنے میں کامیاب ہو حاتے ہیں اور پھر بڑے ہی فخر کے ساتھ ان تمام کتابوں کے سرِورق اسکین کر کے اپنے فیس بک کے صفحے پر آوہزاں کرکے اپنے حاصل کردہ مال ِغنیمت کی اپنے حلقہ ِاحباب میں تشہیرکرتے ہیں۔ ابھی چند دنوں قبل ہی انکا اسی موصوع پر ایک بڑا ہی دلچسپ مضمون "کتابوں کا اتوار بازار" کے عنوان سے "ہماری ویب" پر شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔

گذشتہ اتوار جب موصوف کتب بازار پہنچے تو وہاں سے انہیں اپنے بچپن میں پڑھی ہوئی نامور مصنف جناب اے حمید کی تحریر کردہ سیریز "موت کا تعاقب" کی چند دیگر اقساط کے ہمراہ "وحشی جلاد" نامی قسط بھی حاصل ہوگئی اور جسب ِمعمول اسے بھی انہوں نے اپنے فیس بک کے صفحے پر آویزاں کردیا۔ ہماری طرح اسے دیگر دوست و احباب نے اسے دیکھا اور دیکھ کر اپنے بچپن کی حسین یادوں میں کھو گئے۔

ہمارے اور ان کے ایک مشترکہ دوست اسد ضیاء حسن جو کہ بریڈ فورڈ، برطانیہ میں مقیم ہیں اور ماشااللہ بہت ہی اچھے شاعر بھی ہیں، نے مذکورہ ناول کے عنواں کے حوالے سے تمام دوستوں سے ایک انوکھا سوال کر ڈالا:
س: جلاد کے ساتھ وحشی کا سابقہ کیا ضروری ہے؟؟؟

انکا یہ سوال پڑھ کر ہمیں اپنے طالب علمی کا دُور اور اپنی چھٹی جماعت کا اُردو کا پریڈ یاد آگیا اور ہم نے سوچا کہ یہ ہی سوال اگر ہمارے ارُدو کے استاد کرتے تو وہ کچھ یوں ہوتا:
س: جلاد کے ساتھ وحشی کا سابقہ کیا ضروری ہے؟؟؟

اپنے جواب کو مثالوں اور وضاحتوں سے ثابت کریں۔

حسن صاحب کے سوال کا ممکنہ جواب یہاں ہم سب کے مشترکہ کرم فرما ڈاکٹر احمد صفی (فرزندِ ارجمند ابن ِصفی مرحوم) کی تجویز و مشورے پر یہاں درج زیل ہے اور ہم اپنی اس ناچیز کوشیش کو صفی صاحب سمیت دیگر دونوں اصحاب اور محترمہ رابعہ احمد جنھوں نے ہماری فرمائش پر اس مضمون کا اسقدر برجستہ عنوان تحویر کیا، سے منسوب کرتے ہیں، پڑھئیے شاید آپکو پسند آئے۔:

ج: جلاد کے ساتھ وحشی کا سابقہ تفریق پیدا کرنے کی غرص سے شامل کیا گیا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں متفرق اور انواع و اقسام کے جلاد پائے جاتے ہیں، لہذا لفظ ِوحشی جلاد کی اس مخصوص قسم کو واضح اور دیگر جلادوں سے منفرد کرنے کیلئے شامل کیا گیا ہے۔ معاشرے میں موحود جلادوں کی چند اہم اور مشہور ترین اقسام مثالوں اور وضاحتوں کے ساتھ درج ذیل ہیں، جس سے جلاد کے ساتھ وحشی کے سابقے کے استعمال کی غرص و غایت مذید اجاگر ہو سکے گی۔

1۔ "حسین جلاد":
جلادوں کی یہ اقسام انتہائی قریب سے دیکھنے پر بھی بالکل بےضرر معلوم ہوتی ہے۔ دیکھنے میں بظاہر نازک اندام، پیکر شرم و حیاء اور سونے پہ سہاگہ یکسر نرم و شریں سخن۔ مگر انکی جلادی طبیعت کا اندارہ تو محض وہ ہی لگا سکتا ہے جو کبھی ان کے ہتھے چڑھا ہو۔ غالباْ اسی لیئے مرحوم استاد نصرت فتح علی خان فرما گئے تھے کہ:
"پر بلا آجائے لیکن حسن والوں سے اللہ بچائے"

جس بیدردی اور بےنیازی کے ساتھ جلادوں کا یہ طبقہ اپنے عاشق نامراد کے دل بسمل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے، کوئی شاطر سے شاطر، کہنہ مشق اور ماہر فن وحشی جلاد بھی ان کے فن ِبے مثال کی گرد کو چھو بھی نہیں سکتا اور اس پر طرہ یہ کہ:
"دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسکرا کر چل دیئے"

2- "سیاسی جلاد":
یوں تو جلادوں کی یہ قسم ملک بھر میں بلعموم اور صوبائی دارالحکومتوں میں بلخصوص انتہائی وافر مقدلر میں پائی جاتی ہے، البتہ وفاقی دارالحکومت میں اسقدر بہتات کے ساتھ ہے کہ اگر سڑک کے کنارے پڑھا ہوا کوئی پتھراٹھا لیا جائے تو اسکے نیچے سے بھی دو چار تو باآسانی نکل آتے ہیں۔ محکمہ انسدار بے رحمی انسانیات کے حالیہ اعلامیہ کے مطابق جلادوں کی جملہ معلوم و نامعلوم اقسام میں سے اس قسم کو سب سے مضر اور خطرناک قرار دیا گیا ہے، کیونکہ دیگر اقسام کے جلاد تو دو چار یا پھر ذیادہ سے ذیادہ درجن بھر انسانوں پر اپنی مشق جلادی آزماتےہیں لیکن یہ ایک ایسا بے قابو ٹڈی دل یے جو کے اپنے جلادی حربوں سے ملک کے ملک تہس و نہس اور تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے اور سب کچھ ہڑپ کرکے ڈکار تک نہیں مارتا۔

3-"ڈاکٹری جلاد":
جلادوں کی یہ قسم پر گلی و محلہ کے نکڑوں پر بکثرت پائی جاتی ہے اور ان جلادوں کی"حسین جلادوں" کے ساتھ یہ قدر مشترک ہے کہ لوگ باگ خود چلکر ان جلادوں کے پاس حاضر ہوکر انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیکر کہتے ہیں کہ: "آ بیل مجھے مار" اور کچھ انکے رُوبرو سر جھکا دیتے ہیں جیسے کہ رہے ہوں: "سر تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے"، ویسے سچ تو یہ ہے کہ اللہ دوست دشمن سب کو ہی ان کے جلادی حربوں سے محفوظ رکھے، نامعلوم کب، کہاں اور کسے اپنی میز جراہی پر لٹا کر خوابِ خرگوش میں مبتلا کردیں اور جب آنکھ کھلے تو معلوم ہو کہ دل، گردہ، جگر، تلی، پتہ یا کلیجہ بطور سوغات اڑالے گئے ہیں اور اگر اس حادثے سے جان بچ گئی تو اپنا کوئی آلہ جلادی، ہمارا مطلب ہے کہ آلہ جراہی یا خون چوسنے، پھر معذرت، خون پونچنے والا تولیہ اندر بھول کر ٹانکے لگا دیئے اور یہ لمبا چوڑا ہل بھی ہاتھوں میں تھما دیا کہ جسپر یہ ہی مصرعہ صارق آتا ہے کہ:
"نہ خدا ملا نہ وصال صنم"

اور خود ان جلادوں کا حال یہ ہے کہ بھلے ہی سے ان کے مریض جاں بلب کو افاقہ ہو نہ ہو، شفاء نہ ملے نہ ملے، انہیں اپنا محنتانہ صرور میسر آجاتا ہے، بقول فیص:
"جو ہارے تو بھی یہ بازی مات نہیں"۔

4۔ "مدرسی جلاد":
"لاتوں کے بھوت، باتوں سے نہیں مانتے" کے مقعولہ پر ایمان کامل رکھنے والی یہ قسم شہروں میں تو اب خال خال ہی نظر آتی ہیے، البتہ سرکاری اسکولوں اور دیہات و قصبات کے ٹاٹ اسکولوں اور مدرسوں و مکتبوں میں ان کی افزائش نسل اب بھی زوروں پر ہے۔ اپنے بدنام زمانہ "مولا بخش" نامی ہتھیار سے اس طبقے نے ملک و ملت کے نونہالان کو راہ راست پر لانے کا عظیم کار ِخیر اپنی توندوں، معاف کیجئے گا، کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ نیت دیکھی جائیگی نہ کہ عمل، اب یہ اور بات ہے کہ نیت تو انکی ہمیشہ نیک و صالح ہی ہوتی ہے اور اسکے پیچھے بھلائی اور فلاح کا مخلصانہ جذبہ ہی تو کارفرما ہوتا ہے لیکن اب اگر وہ معصوم انکے "مولا بخش" صاحب کا وار تک نہ سہ سکیں اور کبھی اپنے ہاتھوں تو کبھی اپنے پیروں کی ہڈیاں توڑوا بیٹھیں اور اپنے بدنوں پر جا بجا نیل پڑھوالیں تو بھلا اب اسمیں انکا کیا قصور ہے اور خدا لگتی کہیں تو سارا کا سارا قصور خود ان ناہنجاروں اور کمبختوں کے اپنے والدین کا ہے جو اپنے جگر کے لختوں کو متوازن غذا تک فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جو ان کی نازک و ناتواں ہڈیوں کو "مولا بخش" کی مار کے زیلی اثرات باالفاظ دیگر "سائیڈ ایفکٹس" سے محفوظ رکھ سکے۔ ان بیمارانِ ملت، زبان پھسلنے کی معذرت، ہمارا مطلب ہے کہ معمارانِ ملت کی اس بے لوث قومی خدمات کے اعتراف میں انہیں برقی و اشاعتی زرائع ِابلاغ کی جانب سے "جلاد" جیسے قطعاَ غیر پارلیمانی خطابات سے نوازا جاتا ہے جو کہ انکے قومی کردار کی سراسر توھین ہے۔

5۔قانونی جلاد":
اس قسم کو مزید دو زیلی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1-5۔ "کالی قمیض والے قانونی جلاد":
گو کہ مذکورہ قسم ہرگز جلادی مقاصد کے حصول کی خاطر معرض وجود میں نہ لائی گئی تھی لیکن وہ جو کسی سیانے نے کہا ہے نہ کہ: "خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے"۔ جلادوں کی زیر تزکرہ قسم "سیساسی جلادوں" کے زیراثر و زیرسایہ رہ رہ کر اب خود بھی ایسی اعلیٰ ترین جلادی صفات سے آراستہ و پیراستہ ہوچکی ہے کہ ان کے کان تک کترنے لگی ہے۔ مگر خیر انکی حد تو بات محض کانوں کے کترنے تک ہی پہنچ پائی ہے، البتہ عوام الناس کا حال بے حد سنگین و رنگین ہے اورحالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی سڑک پر ایک رہزن نے دو افراد کو پستول دکھا کر لوٹنے کی کوشش کی کہ اچانک سامنے سے ایک پولیس موبائل آتی نظر آئی جسے دیکھ کر دونوں کے چہروں پر رونق نمودار ہوئی۔ یہ دیکھ کر رہزن بولا: "ذیادہ خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، بہتری اسی میں ہے کہ میرے ہاتھوں ہی لٹ جاؤ کیونکہ میرے ہاتھوں سے تو وہ تمھیں بچالینگے لیکن پھر ان کے ہاتھوں سے تم لوگوں کو کون، کیسے اور کب تک بچائے گا اور میں تو تم کو اکیلا ہی لٹوں گا لیکن اس موبائل میں کم از کم پانچ چھے پولیس والے تو صرور ہی ہونگے"۔ یہ سنکر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اپنی جیبوں میں جو کچھ تھا نکال کر اسکے حوالے کردیا۔

2-5۔ "کالے کوٹ والے قانونی جلاد":
یہ تو ہمیں نہیں معلوم کہ چچا غالب کے دور میں جلادوں کی زیرتزکرہ قسم پائی جاتی تھی بھی کہ نہیں، البتہ موصوف انکی شان میں جو اعلیٰ شعر موزوں کر گئے، اسے پڑھکر محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی جلادوں کے اسی طبقے کے ستائے ہوئے تھے:
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اسکا آسماں کیوں ہو

شاید اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی سے دشمنی نکالنا مقصود ہو تو انہیں بہلا پھسلا کر کسی مقدمے بازی میں الجھا دیجیئے اور پھر خود گھر جا کر لمبی تان کر چین کی نیند سوجائیں، انشاء اللہ العزیز، جلادوں کا یہ طبقہ آپکا بدلہ اس سے کچھ یوں لیگا کہ نامی گرامی قصابوں کو بھی شرمادیگا کیونکہ وہ بیچارے تو اپنے زبیح کو خوب کھلا پلانے کے بعد اسے زمین پر لٹا کر تکبیر کہہ کر حلال کرتے ہیں اور پھر اسکی کھال اتارتے ہیں، لیکن یہ ظالم تو ساعلین کی کھال جیتے جی ہی انتہائی بیدردی کے ساتھ کھینچ لیتیے ہیں اور پھر تمام عمر کھال ہی کھینچتے ریتے ہیں۔

6۔ "کاروبارِی جلاد":
ہمارے معاشرے میں جنگ اور محبت کی طرح کاروبار میں بھی" سب جائز ہے" کا اصول کارفرما ہے اور اگر کسی کاروباری مِں جلادی فطرت و صفات بدرجہ اتم پائی جاتیں ہوں تو ایسا کاروبار دو آتشہ اور خود کاروباری "کریلا اور نیم چڑھا" کی عملی تفسیر بن جاتا ہے اور وہ جو فراز کہہ گئے ہیں نا کہ:
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملے

اب ان کاروباری جلادوں میں بلا کم و کاست وہ تمام قابل قدر ہستیاں شامل ہیں کہ جنکا غیر متزلزل ایمان حضرت علامہ کے ان کے اپنے ہی ترمیم شدہ اس شعر ہر ہے (روح اقبال سے معذرت کے ساتھ)، اب یہ معلوم کرنا آپ کی زمہ داری ہے کہ وہ ترمیم سترویں تھی کہ اٹھارویں:
پلٹ کر لوُٹنا، لوُٹ کر پلٹنا
کاروبار گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ان قابل قدر ہستیوں میں پانی میں دودھ ملانے، ہمارا مطلب ہے کہ دودہ میں پانی، مرچوں میں لال اینٹ کا برادہ، ثابت کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج، گھی میں گریس ملانے والے، زائد المعیاد اور نقلی دوائیں بیچنے والے، گوشت میں پانی بھرے انجیکشن لگا لگا کر وزن میں اضافہ کرنے والے، بیمار اور مردہ جانوروں کو کاٹ کر اسکا گوشت فروخت کرنے والے اور نہ جانے ایسے ہی کتنے عظیم کارھائے نمایاں کے خالق اور موجد شامل ہیں۔

7۔ "پیری فقیری جلاد":
کہتے ہیں کہ: "پیاسا کنواں کے پاس جاتا ہے" لیکن ان پیاسے جلادوں کے پاس عوام کے لبریز کنویں خود اپنی ناکیں رگڑتے جاتے ہیں۔ اب یہ جلاد کبھی 90 سالہ سنیاسی باوا تو کبھی بنگالی عامل بنکر کسی بےاولاد کو اولاد، سنگدل محبوب کو قدموں پر لاڈالنے، نافرمان اولاد کو مائل بہ فرمانبرداری، کاروباری کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی اور جن، بھوت، چڑیل اور بدروحوں کے سائے شرطیہ دور کردینے کا مژدہ سناتے نظر آتے ہیں۔ اب عوام کے مسائل بھلا کیا ہی حل ہونے تھے، ہاں ان بابوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں صرور ہوتا ہے۔

"8- "بی جمالو جلاد":
"ارے بہن رضیہ، کیا تم نے خالہ شبراتن کی بیٹی حسینہ کے تارہ ترین آنکھ مٹکے کا قصہ سنا جسکا چرچہ محلے بھر میں ہورہا ہے"۔ "کیا کہہ رہی ہو بہن"جمالو"، میرے تو فرشتوں تک کو کچھ خبر نہیں، اور زرہ دیکھو یہ حمیدہ، جمیلہ، کٹیلہ اور شجیلہ کتنی گھُنیاں ہیں، سارا دن میرے گھر میں گھسیں، مجھ سے زمانے بھر کے چٹخاریدار قصے و کہانیاں مزے لیکر سنتیں ہیں، ارے وہ سامنے والوں کی لڑکی نے جب پرلی گلی والوں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کرلی تھی، تو وہ میں ہی تو تھی کہ جس نے ان پھپھے کٹنیوں کو ساری کتھا حرف بجرف سنائی تھی اور یہ کل مُوہیاں سارا دن محلے کے ایک گھر سے دوسرے اور پھر تیسرے میں جا جا کر کن سوئیاں لیتں رہتیں ہیں اور ابھی یہ سب کی سب حرافائیں میرے یہاں سے گئیں ہیں، مجال ہے کہ مجھے ہوا بھی لگنے دی ہو، خاک ڈالوں انپر، ان سب کےکچے چٹھے تو میں تمھیں تفصیل سے بعد سناؤں گی پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ یہ خالہ شبراتن کی بیٹی حسینہ کا کیا قصہ ہے؟" بی جمالو آنکھیں مٹکاتی بولی: تم جاتو، مجھے کسی کے بارے میں کچھ کہنے کی قطعاً عادت نہیں ہے آخر اللہ کو منّہ بھی تو دیکھانا ہے، لیکن اب اگر تم اتنا ہی اصرار کررہی ہو تمھیں بتائے دیتی ہو مگر پہلے قسم دو کے میرا نام نہ لوگی" قسم لینے کے بعد جمالو نے خوب نمک مرچ لگا کر وہ قصہ سنایا اور رضیہ نے خوب چٹخارے لیکر سنا اور پھر جلدی جلدی بی جمالو کو رخصت کرکے انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے گھر کو تالا لگا کر محلے کی طرف نکل پڑی۔ یہ تارہ ترین چٹ پٹا قصّہ سن کر اسکے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے تھے اور اب انکا فوری علاج بھی تو کرنا لازم تھا اور ان مروڑوں کا واحد شافی علاج، ان مروڑوں کی محلے بھر کی عورتوں کے پیٹوں میں منتقلی کے سواء اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ لیکن ہم یہاں یہ بھی واضح کرنا اپنی اخلاقی زمہ داری سمجھتے ہیں کہ ایسے مروڑ ہمارے معاشرے میں صرف "بی جمالو" ہی کو نہیں اٹھا کرتے بلکہ بےشمار و لاتعداد " میاں جمال" بھی اس متعدی بیماری کا شکار ہیں اور گلہ و غیبت، افواہ سازی و افواہ بازی، سنی سنائی و بےپر کی خبریں اڑانا اور یہاں کی وہاں اور وہاں کی یہاں کرنے والے یہ جلاد ہی تو ہیں جو نہ جانے کتنے گھروں کا سکون اور کتنے معصوموں کی زندگیاں برباد کرکے انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔

9- ادبی جلاد":
آپ نے "دائرہِ اسلام" کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا، جی آپ درست سمجھے بالکل وہی والا کہ جہاں آپ نے کچھ "ایسی ویسی" حرکت کی وہاں آپ ہوئے "دائرہِ اسلام" سے خارج! اسی طرح جلادوں کا زیر نظر یہ طبقہ جو کہ بہ زعم خود ادب کا ٹھیکیددار، تھانیدار اور چوکیدار (اب یہ آپ کی منشاء ہے کہ جو بھی چاہیں خطاب ان کیلیئے منتخب کرلیں کیونکہ جلاب، ارے توبہ استغفار یہ ہم کیا کہہ گئے، دراصل ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارئیے، گلاب گلاب ہی رہتا ہے، مگر یاد رہے کہ اس گلاب میں رنگ و بو کم اور کانٹے ذیادہ ہیں)، بنکر اپنے ہی ازخود متعین شدہ ادبی دائرے میں کبھی کسی کو شامل کرتا ہے تو کبھی کسی کو مکمل فارغ خطی لکھ کر خارج کردیتا ہے۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ سب قارئین قیامت کی نظر رکھتے ہیں ( نا نا، بخدا آپ ہمیں غلط سمجھ رہے ہیں، ہم آپ سبکو "تاڑنے والے" کہنے اور سمجھنے کا گناہ ِعظیم بھلا کیسے کرسکتے ہیں اور اگر آپ میں سے چند ایک ایسے ہوں بھی تو یہ آپ کا اپنا زاتی فعل و کردار ہے، اب ہم کون ہوتے ہیں بھلا کچھ کہنے اور اعتراض کرنے والے) فوراَ سمجھ گئے کہ ہمارا اشارہ ادب کے ناقدین ہی کی جانب ہے جو کہ بڑی حد تک ادب کے حق میں بلا شرکتِ غیرے جلاد ثابت ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ "ساون میں اندھے کو ہری ہری سوجتی ہے" لیکن ہمارے ادب کے ان پیدائشی اندھوں کو محض "کھری کھری" سوجتی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ عقل کے ان اندھوں اور گانٹھ کے پوروں کو اپنی جو تنقید "کھری کھری" دیکھائی دیتی ہے وہ لکھنے اور خود ان کے پڑھنے والوں کو "جلی کٹی" سنائی دیتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب موصوف سالہاسال میدان ِادب میں کوئی قابل زکر کارنامہ سر انجام نہ دے سکے تو اغیار کی نگارشات پر ہلہ بول کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ تے ہیں اور خود تو سرزمین ِادب میں محض تنقید نگاری کے نرم و سہل سبزہ زار پر اٹکھلیوں اور خراماں خراماں چہل قدمیوں کے باوجود بھی خود کو تو "اپنے منّہ میاں مٹھو" نہایت ہی قدد آور ادبی شخصیت قرار دئیں (اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ ادبی شخصیت ہیں کہ محض ایک دبی ہوِئی شخصیت) لیکن اسکے برعکس اپنے قلب و روح کو شب و روز تخلیقی کرب کے پل ِصراط سے گزارنے والے نجانے کتنے ادبی "منصوروں" کو انکے مستانہ نعرہ ِ"انالحق" کے ناقابل ِمعافی جرم پر خود وہ اور انکے ہم پیالہ و ہم نوالہ تنقیدوں کے سنگ برسا برسا کر اپنے ہی خود ساختہ "ادبی دائرے" سے ہمیشہ ہمیشہ کیلیے جلاوطن کردیتے ہیں اور پھر تمام عمر اپنی ایڑی چوٹی (ایڑی اپنی اور چوٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ نہ پوچھئیے گا کہ چوٹی کس کی، کیونکہ عقلمندوں کیلئیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے) کا زور لگا کر انہیں اس"ادبی دائرے" سے خارج ہی رکھے جانے میں کوشاں رہتے ہیں اور ان کی گردنوں نہ جانے کتنے ادبی "منصوروں" کا خون ِناحق ہے

10۔ "وحشی جلاد":
اور لیجیئے صاحب، جگر تھام کے بیٹھئیے کہ اب میری باری آئی۔ جی ہاں یہ ہی وہ نامی گرامی جلاد ہے جو اس زیرِنظر تحریر کی وجہ ِ تسمیہ بنا۔ لیکن شاید آپ کو یہ پڑھکر حیرت ہوگی کہ جلادوں کی یہ مشہور ترین قسم تیزِی کے ساتھ معدومی کا شکار ہوتی جارہی ہےاور دنیا بھر میں سزائے ِموت کے متروک ہو جانے کے سبب غالباَ اب تیسری دنیا ہی وہ جگہ ہے جہاں یہ قسم کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ عالمی تنظیم برائے تحافظِ معدومیات کے انتہائی خفیہ مقام پر قائم عالمی صدر رفتر کی جاری کردہ رپورٹ میں عالمی برادری سے اپیل کی گئی ہے کہ جلادوں کی اس تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی قسم کو بچانے کیلیئے انہیں فوری طور پر عجائب گھروں میں منتقل کردیا جائے تاکہ انہیں ہماری آنے والی نسلوں کے مشاہدے کیلیئے محفوظ کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ اپنے نام کے برعکس جلادوں کی یہ قسم مندرجہ بالا دیگر تمام اقسام سے کہیں زیادہ بے ضرر پائی گئی ہے اور صرف اپنے فرائص ِ منصبی ہی کی انجام دہی کے سلسلے میں جلادی تقاصوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جبکہ یہ جلادوں کی وہ واحد قسم ہے کہ جسے آپ ان کے منّہ پر ہی جلاد یا وحشی کہہ سکتے ہیں لیکن اگر آپ اپنی جان کی امان چاہتے ہیں تو ان کے علاوہ اوپر بیان کردہ دیگر اقسام کے جلادوں کو کسی طور جلاد کہہ کر پکارنے کی کوشیش ہرگز نہ کریں، ایسا کرنے والا اپنے نقصان کا زمہ دار خود سمجھا جائیگا اور بچ رہنے کی صورت میں حوالہ پولیس کیا جائیگا۔

امید ہے کہ آپ سب پر روز ِروشن کی طرح یہ عیاں ہوگیا ہوگا کہ مصف نے جلاد کے ہمراہ وحشی کا سابقہ اسکو جلاوں کی دیگر اقسام سے یگانہ ثابت کرنے کیلیئے شامل کیا ہے۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.