اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمان الرحیم
اللہ رب العزّت نے انسان کو پیدا کیا اس کی ہر ضرورت کا بندوبست فرمایا اس
کی ہدایت کے لیے آسمان سے وحی کے ذریعے کتابیں نازل فرمائیں اور انبیاء کو
مبعوث فرمایا اورساتھ ہی حکم دیا اتبعو ما انزل الیکم من ربکم ولا تتّبعو
من دونہ اولیا جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس
کی پیروی کرو اس کے علاوہ دوسرے اولیا کی پیروی مت کرو اس کی قرآن مجید میں
کئی جگہ تاکید کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے
چلنا ہے جیسا کہ فرمایا قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی ------------- اے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبّت کرنا چاہتے
ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبّت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے
گا اور اللہ غفور الرحیم ہے تو پیروی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ کرنا جن جن باتوں یا کاموں کا حکم دیتے ہیں فرماں
برداری کرنا تعمیل کرنا اسے اطاعت کہتے ہیں قل اطیعو اللہ والرّسول -----
کہہ دیجیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم
مانو وان تولّوفان اللہ لا یحب الکافرین ----اور اگر وہ منہ موڑتے ہیں اللہ
کی اطاعت سے نبی کی اطاعت سے تو پھر اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا
مطلب کیا نکلا کہ جو شخص اللہ کی اطاعت سے نبی کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے
درحقیقت وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ کافر ہے اور کافروں سے اللہ تعالیٰ محبت
نہیں کرتا اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا یا ایّھا الذین اٰمنو لا تقدّمو
بین یدی اللہ ورسولہ --------- اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے
رسول سے آگے مت بڑھو پیچھے پیچھے چلنا ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرنا ہے
اور کسی بھی شخص کی بات اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہے تسلیم نہیں کرنا ہے
کیونکہ آسمان سے جو چیز اتری ہے وحی الٰہی وہ یا قرآن مجید ہے یا رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور حدیث ہے محترم قارئین ہر کام کرتے وقت دو
باتیں ذہن میں رکھیں اگر وہ دونوں سوالوں کے جواب آپ کے پاس موجود ہیں درست
موجود ہیں تو آپ کامیاب ہیں اگر ان دو سوالوں کے جواب آپ کے پاس درست موجود
نہیں ہیں تو آپ ناکام ہیں وہ دو سوال یہ ہیں کہ اے بندے جو تو یہ کام کر
رہا ہے کیوں کر رہا ہے کس لیے کر رہا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تو جو یہ
کام کر رہا ہے تو کس طرح کر رہا ہے یعنی کس طریقے پر کر رہا ہے پہلے سوال
کا جواب اگر یہ ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں اپنے رب کی رضا کے لیے کر رہا
ہوں صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کر رہا ہوں تو ایک سوال کا جواب
ٹھیک ہو گیا قل انّ صلوٰتی ونسکی ومحیایی ومماتی للہ رب العالمین اے پیغمبر
صلی اللہ علہ وسلم کہہ دیجیے کہ میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا
اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی بات کا مجھے
اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل درجے کا اللہ کا فرماں بردار
ہوں اور سب سے پہلے میں اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوں وہ جو کچھ کہے گا میں
کروں گا ہمیں اپنے ہر عمل کے وقت دیکھنا چاہیے کہ اس میں کسی دوسرے کی
ملاوٹ تو نہیں ہے کسی اور کو دکھانے کے لیے کہ کسی اور کو خوش کرنے کے لیے
بندہ عبادت کرے نہیں بلکہ اس کا ہر عمل اللہ کے لیے ہونا چاہیے اور قیامت
کے دن قبول بھی وہی ہوگا جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گا اور دوسرے سوال
کا جواب اگر یہ ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر
عمل کرتا ہوں کیوںکہ آپ نے زندگی میں پیش آنے والی ہر مشکل کا حل بیان فرما
دیا ہے ہر عبادت کا طریقہ بیان فرما دیا ہے جو اللہ نے عبادت کے جو طریقے
بیان فرمائے ہیں ان پر کیسے عمل کرنا ہے وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
سمجھا دیے ہیں اور کر کے دکھا دئے ہیں اس لیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
مطابق عمل کرے گا اللہ کی بارگاہ میں وہ ہی قابل قبول ہوگا اور دوسرے سوال
کا جواب بھی تب ہی درست ہوگا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے کر
کے دکھائے ہوئے طریقے پر عمل کرے گا ورنہ دوسرے سوال کا جواب بھی درست نہیں
ہوگا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس کا ملک میں سکہ چلتا ہے اس پر حکومت کی
مہر لگی ہوئی ہے تو ہی وہ سکّہ قابل قبول ہے جس پر ملک کی حکومت کی مہر ہی
نہیں لگی ہوئی ہے اور جعل سازی سے بنایا گیا ہے تو وہ سکّہ قابل قبول نہیں
ہوگا اسی طرح جس عمل پر مکّہ اور مدینہ کی مہر نہیں لگی ہوئی ہو گی وہ عمل
بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا کہ جو عمل رسول کا ہے اس کے مطابق جو
عمل ہے وہ قابل قبول ہے اس کے مقابلے میں چاہے خواہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا
عمل ہو یا عمر رضی اللہ عنہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہم کا عمل ہوگا جو رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں آ جائے گا وہ بھی قابل قبول نہیں ہے کسی
بھی بڑی سے بڑی شخصیت کا عمل ہوگا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل
کے مقابلے میں قابل قبول نہیں ہوگا صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے
مطابق عمل کرنا سب پر لازم ہے ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ حج جب ہم کرتے ہیں
اس وقت بھی تو پہلے جاکر عمرہ اداکرتے ہیں پھر احرام کھول دیتے ہیں پھر حج
کے دنوں میں نئے سرے سے احرام باندھ کر حج ادا کرتے ہیں ایک ہی سفر میں
دونوں فریضے ادا ہوگئے عمرہ بھی ادا ہوگیا حج بھی ادا ہوگیا کیونکہ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہی طریقہ بتایا تھا اب حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ یہ اکٹھّے ہی لوگ حج اور عمرہ ادا کرکے چلے
جاتے ہیں دوسرے دنوں میں حرم کے اندر وہ رونق نہیں ہوتی اس لیے انہوں نے
حکم دیا بھئی جس نے حج ادا کرنا ہے وہ حج ادا کرے عمرہ ادا نا کرے اسے حج
تمتع کہتے ہیں حج تمتع سے حضرت عمر نے لوگوں کو روک دیا تو حضرت عبداللہ بن
عمر جو حضرت عمر کے بیٹے تھے انہوں نے احرام باندھا اور احرام باندھتے ہوئے
کہا لبّیک بحج و عمرۃ -------- یا اللہ مین حج اور عمرہ دونوں کام کرنے کے
لیے حاضر ہوں میرا یہ احرام دونوں کاموں کے لیے ہےاس پر لوگوں نے کہا یہ آپ
کیا کر رہے ہیں آپ کے والد صاحب امیر المومنین ہیں انھوں منع کیا ہے کہ
اکٹّھے حج اور عمرے کا احرام باندھ رہے ہیں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
نے جواب دیا اور کیا خوبصورت جواب دیا کہ ایک طرف اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو اور ایک طرف میرے والد صاحب کا حکم ہو تو کس کے
حکم پر چلا جائے گا تو جب آدمی اس چیز کو مدّنطر رکھتا ہے تو تمام فرقے ختم
ہوجاتے ہیں فرقے اسی لیے ہیں کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو کہا جاتا ہے میرے
فلاں بزرگ کا اس کے بارے میں یہ موقف ہے وہ تو قرآن کا مطلب حدیث کا مطلب
ہم سے زیادہ جانتے ہیں بے شک ہمارے امام کا موقف اللہ کے حکم اور رسول کے
حکم کے خلاف ہے ہم نے تو اپنے بزرگ کی بات ماننی ہے اپنے امام کی بات کو
لینا ہے چراغ بے چارے کی بساط کیا ہے جب سورج طلوع ہو جائے پھر اس کو جلا
کر روشنی حاصل کی جائے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے آگے کسی
بھی بڑی بری سے شخصیت کی بات کو چھوڑ دینا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی بات کو ماننا ہے یہ کام تو وہ آدمی ہی کرے گا جو عقل سے خالی ہے سورج کے
سامنے چراغ جلانے کی کوشش کرنا کہ روشنی ہوگی
تو زندگی کے ہر مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی موجود
ہے لیکن تقریبان تقریبان ہر معاملے میں لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کی مخالفت کے راستے نکال لیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس
کے رسول نے فرمایا کہ اپنے دل کو پاک صاف کرو اور پاک صاف رکھو قد افلح من
تزکّیٰ ---- وہ شخص یقینن کامیاب ہوگیا جس نے پاکیزگی حاصل کر لی تزکیہ نفس
کر لیا اپنے آپ کو جو غلط عادتیں ہیں حرص ہے بخل ہے کنجوسی ہے اسی طرح
بزدلی ہے جھوٹ ہے دھوکہ ہے غرض ہر قسم کے گناہ سے جس نے اپنے آپ کو پاک کر
لیا وہ کامیاب ہے کچح کو لوگوں نے اس طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے اپنا
لیے اللہ نے طریقہ کیا بیان کیا
وذکرسم ربہ فصلّیٰ ----
کہ رب تعالیٰ کا ذکر کیا نمازیں پڑھیں تو یہ ہے نفس کو پاک کرنے کا طریقہ
کہ سب سے پہلے فرائض ادا کرنا ان کی پابندی کرنا اس کے ساتھ نوافل بھی ادا
کرے فرض نمازیں بھی پڑھے فرض روزے رکھے اس کے ساتھ نفل کر ہےروزے بھی رکھے
اسی طرح زکواۃ فرض بھی ادا کرے اور نفل صدقہ خیرات بھی کرے یہ ہے وہ طریقہ
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ
بھی وہ جو ہے نا دل کاپاس ہونا نفس کا تزکیہ ہونا یہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی صحبت سے حاصل ہوجاتا تھا اب چونکہ وہ صحبت نہیں رہی اس لیے
کچھ نیے طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن کے ساتھ انسان کی طبیعت ہر قسم کی
کثافتوں سے پاک ہوجائے لو یہ پہلا ہی قدم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے خلاف اٹھا ہے مطلب اس کا کیا نکلا کہ اللہ اور اسکے رسول نے
باقی تو سب کچھ بتا دیا ہے لیکن تزکیہ نفس کا طریقہ اللہ اور اس کے رسول نے
نہیں بتایا قارئین محترم یہ تو بہت بڑی گمراہی کی بات ہے اللہ نے قرآن میں
فرمایا
الیوم اکملت لکم دینکم ---
آج کے دن میں تمھارا دین تمھارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام
کردی اور تمھارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا دین کامل ہے حضرت امام
مالک رحمہاللہ نے فرمایا جو شخص دین میں کوئی نئی چیز نکالتا ہے درحقہقت وہ
یہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دین کو ناقص چھوڑ گئے ہیں وہ کمی اب
میں پوری کرتا ہوں یہ تو بہت ہی بری بات ہے بہت بڑی تہمت ہے اللہ اور اسکے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان پے یہ بہانہ بنا کر انھوں نے
مستقل ایک دین کی ابتدا کی جو اس دین سے بالکل الگ ہے جو اللہ اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نازل فرمایا نام وہ یہی لیتے ہیں جی قرآن مجید
جی حدیث رسول یہ اللہ کا ذکرہے لیکن طریقے وہ انھوں نے بیان کیے ہیں جو نا
اللہ نے بتائے ہیں نا رسول نے بتائے ہیں نا دین میں ان کا کہیں ذکر ہے تو
سب سے پہلا کام وہ کیا کرتے ہیں کہ جی مرشد پکڑنا یہ بہت ضروری ہےاس کے لیے
وہ تلاش کرتے ہیں ایسا بزرگ جوکوئی نا کوئی کرامت دکھائے عجیب و غریب قسم
کے شعبدے دکھائے
تو ایسے شخص کی پھر وہ بیعت کر لیتے ہیںاور بیعت کیا ہوتی ہے بیعت یہ ہوتی
ہے کہ بھئی جو کچھ میں نے کہنا ہے تم نے اس پر عمل کرنا ہے خواہ وہ تمھیں
قران کے مطابق نظر آئے یا حدیث کے مطابق نظر آئے اور خواہ وہ قران و حدیث
کے خلاف نظر آئے کیوں کہ مرشد کو سب پتا ہوتا ہے کہ اس مریض کا کیا علاج
کرنا ہے اور اس کے لیے کیا ضروری ہے تو اس طرح پہلے قدم پر ہی وہ انسان کو
سیدھے راستے سے ہٹا دیتے ہیں
ہوتا کیا ہے کہ ایک ہی مرشد کا لڑ پکڑ لیتے ہیں اور اس طرح سے دین سے دور
ہو جاتے ہیں کیونکہ صحابہ کرام سے اس طرح سے مرشد پکڑ کر اس کی بیعت ہو
جانا اور ہر مرشد کا ایک چند مریدوں پر مشتمل گروہ بنا لینا ثابت نہیں ہے
کہیں بھی یہ بیان نہیں ہوا کہ چند لوگوں کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے
مرید بنایا ہو اور چند لوگوں کو عمر رضی اللہ عنہ نے مرید بنایا ہو اور چند
لوگوں کو عثمان رضی اللہ عنہ نے اور چند کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
مرشد بنایا ہو اور اپنی الگ الگ خانقاہیں بنا لی ہوں جیسا آج کل کے دور میں
لوگ کرتے ہیں اور پھر گدّی نشینیاں چلتی ہیں نہیں بلکہ سارے کے سارے صحابہ
کرام نے اکٹھے ہوکر اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور ملکوں کے ملک فتح کیے اور
اللہ کے دین کو نافذ کیا اور ظلم اور جہالت کا خاتمہ کیا اللہ کے علاوہ جن
جن ہستیوں کے بتّوں کو پوجا جاتا تھا ان کو پاش پاش کیا بت خانے مسمار کر
دِیے
لیکن ہمارے ملک پاکستان میں اور ہندوستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد
میں شرک کے اڈے موجود ہیں جہاں وہ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں جو زمانہ
جاہلیّت میں مشرکین مکّہ کیا کرتے تھے جن کا خاتمہ اسلام نے کیا اور کافروں
کی ہر فرمائش کو پیغمبر اسلام نے ٹھکرا دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم بعض
تمھاری رسمیں ادا کیا کریں اور بعض تم ہماری مذہبی رسمیں ادا کرو بلکہ اللہ
نے مجھے حکم دیا ہے کہ یکسو ہو کر اللہ کے دین پر چلنا ہے صرف اللہ کی
عبادت ہی کرنی ہے ہم کو اللہ نے منع فرمایا ہے کہ کافروں کے خداوں کی ہرگز
ہرگز عبادت نہیں کرنی اور یہ سمجھوتہ نہیں کرنا کہ تم ہمارے خداوں کو مان
لو ہم تمھارے رب کو مان لیں گے اور اسکے دین کو بھی مان لیں گے تو میری
قارئین سے درخواست ہے کہ آج بھی وہی قرآن اور وہی احادیث موجود ہیں جن پر
عمل کرکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے پوری دنیا پو غلبہ
حاصل کر لیا تھا تو آج بھی ان راہوں کو اپنا کر مسلمان پوری دنیا پر غلبہ
حاصل کر سکتے ہیں مگر ہمارے حکمران اللہ کے دین کو اللہ کی طرف سے نازل
کردہ سچّا دین نہیں مانتے ہیں اس لیے اللہ کے دین کی پرواہ نہیں کرتے نا
چہرے پر سنّت رسول سجاتے ہیں اور نا لباس اور رہن سہن سنّت کے مطابق بناتے
ہیں اور نا فیصلے اللہ کے دین کے مطابق کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے بارہا
قرآن میں فرمایا ہے کہ
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ تو کافر ہیں
القرآن |