قارئین کرام !جہاں تک تعلق ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی
طرف سے مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی مباہلے کے بارے میں
دستخطی تحریر دیکھنے کا تو یہ بھی مرزا غلام احمدقادیانی کا محض جھوٹ اور
دجل و ہ فریب ہے اسی بات کا جواب دیتے ہوئے مولانا امرتسری رحمۃاللہ علیہ
اپنے ایک مضمون بعنوان ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘میں لکھتے ہیں کہ
’’یہ اک مثل ہے کہ جب بلی تنگ آتی ہے تو ستون کو نوچنے لگتی ہے یہی حال آج
کل ہماری قادیانی پارٹی کا ہے جب سے اہلحدیث میں ان کا باقاعدہ تعاقب شروع
ہوا ہے کئی پہلوؤں سے انہوں نے اس مثل کو پورا کیا ہے مگر خدا کے فضل سے
ایک بھی نہیں چلا ۔اب ایک تازہ مکر نکالاہے 17اپریل کے الحکم میں ایک مضمون
نکلا ہے جس کا عنوان ’’اہلحدیث امرتسری سے استفسار‘‘ہم نیجب اس مضمون کو
دیکھا تو خیال ہوا کہ شاید کوئی معقول سوال ہوگا مگر افسوس کہ زنگ آلودہ
قادیانی مشین میں کسی معقول بات کا خیال ’’چیلوں کے گھونسلوں سے ماس کی
تلاش ‘‘کے برابرہوایا نامعقول جواب تو دینا ضروری ہے آپ لکھتے ہیں :
’’اہلحدیث امرتسری سے استفسار : قبل ازیں ہم نے ثناء اللہ امرتسری کی اخبار
اہلحدیث مؤرخہ 12جنوری 1906 ء کے سوال نمبر 44کے جوابات بغرض تحریر جواب
بجواب بھیج دیا تھا جن کو آج تک فاضل صاحب نے ہضم کر کے ڈکار تک نہ لیا ۔اب
ہم پھر امرتسری ٹھیکہ دار سے مطالبہ اس مضمون کے جواب کا کرتے ہیں اور دو
امور اور استفسار پیش کرتے ہیں ۔ دیکھیں کہ ایمانداری سے اس کا بھی کوئی
جواب دیتے ہیں یاحسب عادت خود دم سادھ لیتے ہیں۔
سنئے مرزاصاحب نے اعجازاحمدی کے صفحہ 14پر تحریر فرمایا تھا کہ :یہ میں نے
سنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ کی دستخطی تحریر میں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ
درخواست کرتا ہے کہ میں اس طور سے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہفریقین
یعنی میں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی
زندگی میں مر جائے ۔ ‘‘ انتہی بقدر الحاجہ صفحہ 14سطر8
پھر آگے چل کر اسی صفحہ پر تحریر فرمایاہے :
’’اور چونکہ مولوی ثنا ء اللہ صاحب اپنی تحریر کی رو سے ایسے چیلنج کے لئے
تیار بیٹھے معلوم ہوتے ہیں پس ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں کہ وہ ایسا چیلنج
دیں بلکہ ہماری طرف سے اون کو اجازت ہے کیونکہ ان کا چیلنج ہی فیصل؛ہ کے
لئے کافی ہے ۔‘‘
یہ مولوی ثناء اللہ اگر چاہیں تو بذات خود آزمالیں ان کو مولوی غلام دستگیر
سے کیا کام ۔
کیونکہ وہ خود کو اس کے لئے مستعدی بھی ظاہر کرتے ہیں۔‘‘صفحہ 15۔37 سطر
20میں یہ پیشگوئی بھی فرمادی ہے کہ ’’ میری اگر اس چیلنج پر وہ( ثناء اللہ
) مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو وہ (ثناء اللہ) پہلے مریں گے
۔‘‘
یہ عبارت صاف طور پر اپنا مدعا اور مطلب بیان کر رہی ہے کہ حضرت اقدس نے
لوگوں کی زبانی بھی سنا ہے کہ ثناء اللہ ایسے مباہلے کے لئے مستعد ہے اور
خود ثناء اللہ کی دستخطی تحریر بھی ملاحظہ فرمائی ہے کہ وہ ایسے مقابلہ کے
واسطے تیار ہے نیز یہ بھی ان سے صاف عیاں ہے کہ حضرت مرزاصاحب علیہ السلام
نے بڑی فراخ حوصلگی سے ایسے مقابلہ کو منظور فرما لیا ہے اور ثناء اللہ کو
اجازت بھی دے دی ہے کہ وہ ضرور ایسے میدان میں نکلے اور یہ بھی علی الاعلان
فرما دیا ہے کہ اگر ثناء اللہ اس چیلنج پر آمادہ ہو گیا تو ضرور پہلے
مرجائے گا۔ اب اس کا جواب بصورت اقرار مندرجہ ذیل ہونا چاہئے تھا کہ بے شک
میں (ثناء اللہ) اس مقابلے کے واسطے تیار ہوں اور اشتہار حسب تصریح مندرجہ
صفحہ 15اعجازش احمدی شائع کرتا ہوں۔‘‘
محترم قارئین! مولانا ثناء اللہ امرتسری الحکم اخبار کی مندرجہ بالا تحریر
درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
غنیمت ہے کہ جوجواب اہلحدیث کا اس غلط گوئی کا ہونا تھا وہ راقم مضمون
نیخود ہی لکھ دیا آپ فرماتے ہیں :
’’(1) اور بصورت انکار یہ جواب ہوتا کہ میں نے آج تک کبھی ایسا ارادہ ظاہر
نہیں کیا نہ کسی کے سامنے یہ ذکر آیا مرزاصاحب نے کس سے سنا ہے اس کا نام
بتلاویں ورنہ یہ غلط بیانی تصور ہو گی ۔
( 2) میری کوئی تحریر دستخطی نہیں ہے جس میں میں نے ایسے مقابلہ کے واسطے
مستعدی دکھلائی ہواگر میری ایسی تحریر ہے تو مرزا صاحب پیش کریں ورنہ یہ
بھی جھوٹ سمجھا جائے گا ۔‘‘
قارئین ! اس کے بعد مولانا امرتسری رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
پس اس پر میرے بھی دستخط ہیں کہ یہ سب کچھ کارستانی تمہارے پیر مغاں کی ہے
۔ جس نے سب سے اوّل خدا پر افتراء کیا اس سے بعد اس کے رسولوں پر ان کے بعد
مولوی اسمعیل علیگڑھی اور مولوی غلام دستگیر مرحوم قصوری پر بہتان باندھا
ہے کہ وہ میرے ساتھ مباہلہ کر کے مر گئے ۔ جس کا ثبوت دینے پر حضرت کو پانچ
سو روپیہ کا انعام ملتا ہے اور مرزائیوں کو دو سو کا اشتہار ۔ لیکن افسوس
ہے کہ
چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند
اب یہ نیا شگوفہ میری ذات کے متعلق ہے پس اگر تم اپنے باپ کے سپوت اور پیر
کے مخلص مرید ہو تو میری تحریر حرف بحرف کرشن جی سے شائع کراؤ پھر ایک عام
مجمع میں جو تمہاری خاطر قادیاں کے قریب بٹالہ ہی میں کیا جائے گا اس تحریر
کا معائنہ ہو گا اس سے بعد جواب دوں گا لیکن یاد رکھو!ایسی تحریر تم کو
میری دستخطی نہ ملے گی بلکہ یہ سب کرشمے اسی دجال اکبر کے ہیں جس کی شان
میں بالکل صحیح ہے :
جفاجو ، سنگدل ، بے رحم ، کاذب
لقب جن کے ہیں اتنے وہ تمہی ہو
پس تمہارا پہلا فرض ہے کہ تم اپنے بوڑھے باپ کی اور اپنے پیر مغاں کی عزت
بچالو۔ ورنہ دنیا جان جائے گی کہ قادیانی مشین میں بجز اس کے کچھ نہیں :
جھوٹ کو سچ کر دکھانا کوئی ان سے سیکھے
(ہفت روزہ اہلحدیث امرتسر 4مئی 1906 ء)
محترم قارئین! مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ بالا
مضمون پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس طرحمرزاقادیانی نے کذب
بیانی کا مظاہرہ کیا اب آپ کو دکھاتا ہوں کہ ملک عبدالرحمن خادم نے بھی
مرزاقادیانی کی ادھوری تحریر پیش کرکے کس طرح بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے
چنانچہ مرزاقادیانی اپنی کتاب اعجاز احمدی میں لکھتا ہے کہ
’’پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب ایسے چیلنج کے لئے مستعد ہوں تو صرف تحریری
خط کافی نہ ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ چیلنج جو درحقیقت ایک مباہلہ کا مضمون ہے اس کو
لفظ بلفظ نمونہ مذکورہ کے مطابق لکھنا ہو گا جو اوپر میں نے لکھ دیا ہے ایک
لفظ کم یا زیادہ نہ کرنا ہو گا اور اگر کوئی خاص تبدیلی منظور ہو تو
پرائیویٹ خطوط کے ذریعے سے اس کا تصفیہ کرنا ہو گا اور پھر ایسے اشتہار
مباہلہ۰ پر کم سے کم پچاس معزز آدمیوں کے دستخط ثبت ہونے چاہئیں اورکم سے
کم اس مضمون کا سات سو اشتہار ملک میں شائع ہونا چاہئے اور بیس اشتہار
بذریعہ رجسٹری مجھے بھی بھیج دیں ۔
مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ میں انہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا اس کے
بالمقابل مباہلہ کروں ۔
(اعجاز احمدی صفحہ 15,16مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ123,124)
قارئین کرام !آپ نے مرزاقادیانی کی تحریر ملاحظہ فرما لی اب آپ مرزاقادیانی
کے نزدیک مباہلے کی تعریف بھی ملاحظہ فرما لیں چنانچہ کرشن قادیانی لکھتا
ہے
’’مباہلہ کے معنی لغت عرب کی روسے اور نیز شرعی اصطلاح کی رو سے یہ ہیں کہ
دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خداکی لعنت چاہیں ۔‘‘
(اربعین نمبر 2حاشیہ صفحہ29 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17حاشیہ صفحہ 377)
ناظرین! اب آپ خود فیصلہ کریں کے کون مباہلہ سے فرار ہوا اور کون نہیں ؟
continue
|