جرم کے سدِ باب کے لیے ایک اور جرم کرنا ۔ گناہ کے جواب
میں سزا کی بجائے ایک اور گناہ ، ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہوتا چلا جا
رہا ہے ۔ہمارے معاشرے میں یہ ایک عجیب و غریب روایت بن چکی ہے کہ جرم کی
سزا کے طور پر ایک اور جرم جنم لیتا ہے ۔اس کا منہ بولتا ثبوت ملتان کے
علاقے مظفر آباد میں ہونے والا انسانیت سوز واقعہ ہے ۔ملتان میں چالیس
افراد پنچائیت نے ایک بارہ سالہ لڑکی کے ریپ کے ملزم کی بہن کو بھی بدلے
میں ریپ کا نشانہ بنانے کا حکم سنایا گیا ۔ اس حکم کی تکمیل کے لیے ملزم کی
بہن کو پنچایت کے سامنے لایا گیا اور اس کی آبرو ریزی کی گئی۔
اس معاملے پرنہ صرف پاکستان میں بلکہ انٹرنیشل میڈیا میں بھی مذمت کی گئی
اور پنچائیت کے قانون کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس قسم کے فیصلے تو
یقینا از خود ایک جرم ہیں ۔ اس جرم کی پاداش میں نہ صرف مجرم بلکہ پوری
پنچائیت کو سزا دی جانی چاہیے جو اس انسانیت سوز عمل کا حصہ بنے ۔
باکستان کے حوالے سے ایسی خبر گوگل کے نیوز سٹلر کے ذریعے موصول ہونے پر
میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ کیا یہ ہیں وہ مسلمان جو عورتوں کی عزت کی
حفاظت کی خاطر دیبل کی بندرگاہ کو راجہ داہر کے اثر سے نکالنے کے لیے
سربکفن ہو کر جنگ کا اعلان کرتے ہیں ؟ یہ ہیں اسلام کے وہ پیرو کار جن کا
مذہب عورت کو وہ مقام دیتا ہے جو کسی اور مذہب نے نہیں دیا ؟۔ یہ درندگی کی
ایک اعلی ٰ ترین مثال ہے کہ بجائے مجرم کو سزا دینے کے اس کی بہن کو اس کے
جرم کی وہ سزا دی جاتی ہے جو کسی طور قابل قبول نہیں ہے ۔
پنچائیت میں موجود کسی ایک شخص کے دل میں بھی اس احساس نے جنم نہیں لیا کہ
یہ بھی تو بیٹی ہے اور اسلام تو عورت کو یہاں تک حق دیتا ہے کہ جنگ میں
دشمن کی عورتوں کے ساتھ بھی بھلائی کی جائے ۔انھیں اﷲ کے عذاب سے بھی خوف
نہیں آیاکہ اگر وہ غفور و رحیم جلال میں آتا ہے تو اس کے قہر سے کون ہے جو
بچا سکے ۔ نہ ہی کسی نے یہ سوچا کہ ایک باعصمت لڑکی کی بے آبروئی کی اجازت
نہ تو کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کا قانون ۔ مبادا کہ کسی جرم کی
یہ سزا دی جائے ۔
اس تمام واقعہ کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے میں پنچائیت کے بارے میں
بتاتی چلوں ۔ پنچائیت ایک ایسا سسٹم ہے جو کہ گاؤں کے سرکردہ افراد ، عمر
رسیدہ او ر بااثر افراد پر مشتمل ہوتی ہے جس میں پنچوں کی تعداد پانچ سے
چالیس تک ہو سکتی ہے ۔یہ سسٹم طویل عرصے سے ملک کے طول و عرض میں رائج ہے ۔
جس کا بنیادی مقصد عوام کو زمینی سطح پر انصاف کی فراہمی ہے ۔ گاؤں کے
مسائل کو زمینی سطح پر حل کیا جاتا ہے ۔ عموما پنچ اسلام کے قوانین کے بارے
میں خاطرخواہ تعلیم رکھتے ہیں ۔ پہلے پہل تو یہ سسٹم اچھے طریقے سے چلتا
رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ہر شعبہ میں معاشرہ تنزلی کا شکار ہو
ا وہاں انصاف کی فراہمی زمینی سطح پر ناممکن ہوتی چلی گئی خصوصا عورتوں کی
تذلیل کے واقعات زبان ِ زد عام ہوتے چلے گئے ۔
اب آئیے ! اس واقعہ کی جانب ! قصور وار ایک مرد تھا ۔اس کے جرم کی سزا اس
کو دی جانی چاہیے تھی نہ کہ اس کی بہن کو ۔وہ سترہ سالہ نوجوان لڑکی جو سرِ
عام بے آبرو ہوئی اس کا کیا قصور تھا ۔ اسے اس کی بے گناہی کی سزادی گئی ۔
اگر اسلام کو مدِ نظر رکھا جائے تو اسلام میں ہر جرم کی سزا الگ الگ متعین
ہے ۔ خصوصا زنا یا ریپ کے حوالے سے قرآن و حدیث کا حکم بے انتہا سخت ہے
۔اسلام میں زنا کرنے والے مرد کو اسی کوڑے سرِعام مارے جانے کا حکم ہے تاکہ
دوسروں کو نصیحت ہو اور وہ اس گناہ ِ عظیم سے دور رہیں ۔ معاشرے میں بہنوں
، بیٹیوں کی عزتیں محفوظ رہیں ۔اسلام ہر ایک کی عزت کا محافظ ہے چاہے وہ
اہل خانہ کسی مجرم ہی کے کیوں نہ ہوں ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں عورت
کو ایک اعلیٰ مقام عطاء کیا گیا اور اس کی عزت کی حفاظت پورے معاشرے پر
عائد کی گئی ۔یہاں تک کہ عورت کے حقوق کی وضاحت کے قرآن پاک میں دوسورتیں
(سورت النساء اور سورت النور ) نازل فرمائی گئیں تاکہ لوگ عورتوں کے حق کے
بارے میں آگاہی دی جاسکے ۔
اسلام کسی کی بھی بے آبروئی کی اجازت نہیں دیتا ۔ عزت کے بدلے عزت کا کوئی
قانون اسلام میں موجود نہیں ہے ۔
اب آئیے ملکی قانون کی جانب ! پاکستان کے آئین کے مطابق، زند کے مجرم کو دس
سے پچیس سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے ۔جس قسم کی سزا اس پنچایت میں دی گئی
اس قسم کی سزا کا کوئی وجود نہیں ۔
واضع رہے کہ پاکستان کے عوام خصوصا گاؤں دیہاتوں میں لوگ تھانے کچہری جانے
سے گبھراتے ہیں کیونکہ ان کا انصاف فراہم کرنے والے اداروں خصوصا پولیس کے
ادارے سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ طویل مقدموں سے بچ جائیں
اور انھیں جلد از جلد انصاف فراہم کیا جائے ۔ کیونکہ پاکستان میں رائج
انصاف کا طریقہ کار اتنا طویل ہے کہ کسی بے گناہ اور غریب کے لیے مقدمہ
بازی ازحد مشکل ہے ۔ مقدمات سالوں عدالت میں زیر ِ سماعت رہتے ہیں ایک کے
بعد دوسرا جج تبدیل ہوتا رہتا ہے اور سالوں مقدمے کی تاریخیں بھگتے رہنے کے
بعد عوام کو انصاف ملتا ہے ۔ اگر ملزم کے ہاتھ مضبوط ہوں تو وہ انصاف کی
زنجیروں سے بچ نکلتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ پنچائیتوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ
انھیں جلد از جلد انصاف مل سکے ۔
اس طرح کے فیصلوں سے بچنے اور عوام کی زندگیوں کو آسانی سے ہمکنار کرنے کے
لیے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے فعال ہوں ۔ پولیس کے
افسران کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو ۔ سب سے بڑھ کر قانون امیرو غریب ،
بااثر اور بے اثر افراد کے لیے یکساں ہو ۔ قانون کی گرفت سے کوئی بھی مجرم
بچ کے نہ نکلے ۔ ان اداروں کو سیاسی اثرو رسوخ سے پاک کیا جائے ۔ رشوت
ستانی کوروکا جانا بھی ایک ضروری امر ہے ۔ قانونی تقاضوں پر بھی نظرِ ثانی
کی ضرورت ہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ِ باری تعالی ٰ ہے
اے ایمان والو! انصافپر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو ۔خواہ (اس
میں )تمھارا یا تمھارے ماں باپ کا نقصان ہو ۔سورت النساء
حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں جہاں ملزموں کے ساتھ
رحم کا معاملہ کیا جائے ۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائی کو روکنے کے لیے انصاف کی بروقت فراہمی از حد
ضروری ہے ۔
|