انتخابات میں کیا ہوگا؟

لیجیے جناب! وہ فیصلہ آگیا جس کی توقع تھی اور نوازشریف تاحیات سیاست کے لیے نااہل قرار پائے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے آنے والا یہ فیصلہ مہینوں چلنے والی کارروائی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کارروائی کے دوران ایک جنگ عدالت کے اندر جاری تھی اور دوسری طرف عدلیہ کی عمارت کے باہر گھمسان کا رن پڑا تھا۔ عدالت میں فریقین کے وکلاء اپنے اپنے دلائل دینے اور اپنے اپنے موکل کے موقف کو صحیح قرار دینے کی کوششوں میں مصروف تھے، گواہیاں ہورہی تھیں، کاغذات کے پلندے پیش کیے جارہے تھے اور منصفین کے ریمارکس مستقبل کی تصویر کشی کر رہے تھے، تو عدل کے ایوان کے باہر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے راہ نما ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی، الزامات لگانے، گالیاں دینے، دھمکیاں دینے، اپنی اور اپنی اپنی قیادت کی صفائی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مگن تھے۔ پاناماکیس کی ہر سماعت کے بعد عدالت کے باہر فریق سیاسی جماعتوں کے وکلاء اور راہ نما اپنا اپنا اسٹیج لگاتے اور اپنا اپنا موقف پوری شدومد کے ساتھ بیان کرتے۔ اس سب کے ساتھ میڈیا پر بھی طوفان اُٹھا ہوا تھا۔ الیکٹرانک چینلز اور اخبارات کے صفحات پر تجزیے کیے جارہے تھے، پیش گوئیاں ہورہی تھیں، فریق جماعتوں کے راہ نما اپنے مخالف قائدین کو بُرابھلا کہہ رہے تھے تو بعض اینکرز، صحافی اور تجزیہ کار بھی صحافتی اخلاقیات، ضمیر کے تقاضے اور اخلاقی اقدار کو پس پُشت ڈال کر اپنے اپنے پسندیدہ فریق کی حمایت میں جھوٹ کی آمیزش سے رائے عامہ ہم وار کرنے اور سخت الفاظ استعمال کرنے میں مصروف تھے۔ جہاں جائے، جس محفل کا رخ کیجیے، جس سے ملیے، ایک ہی ذکر تھا کہ پاناما کیس کا کیا فیصلہ آئے گا؟ وزیراعظم کا کیا ہوگا وغیرہ۔ غرض یہ کہ پاناما کیس نہ صرف ملک کی سیاست کا محور بن گیا تھا بل کہ ہمارے روزانہ کی گفتگو کا اہم ترین موضوع بھی یہی مقدمہ بن چکا تھا۔

پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد بھی یہ فیصلہ ہماری سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے اور نہ جانے کب تک یہی صورت حال رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاناما کیس اور اس کا کچھ روز قبل سنایا جانے والا فیصلہ تاریخی نوعیت کا حامل اور دوررس نتائج اور اثرات رکھتا ہے۔ یہ اثرات آئندہ عام انتخابات، یعنی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں نمایاں طور پر سامنے آئیں گے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکم راں جماعت مسلم لیگ ن اس عدالتی فیصلے سے اپنے اختلاف کا اظہار کرنے اور اپنی ساری برہمی اور شکست خوردگی کے ساتھ نئے حالات سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے راہ نما شاہد خاقان عباسی کو ملک کے آئندہ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے لیے امیدوار نام زد کردیا ہے، جو منتخب ہونے کی صورت میں یہ منصب عارضی طور پر سنھبالیں گے۔ بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ضمنی الیکشن میں جتوا کر قومی اسمبلی کا رکن بنوایا جائے گا اور پھر انھیں وزیراعظم کے عہدے پر فائز کروایا جائے گا۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن اور نوازشریف کے مخالفین کام یابی کا جشن منانے اور شادیانے بجانے میں مصروف ہیں۔ کرکٹ کی اصطلاحات میں سیاسی گفتگو کرنے والے عمران خان کی خوشی کا عالم دیکھنے کا ہے، جنھوں نے اس کیس کے مدعی کی حیثیت سے اہم ترین وکٹ گرادی ہے، جسے گرانے کے لیے وہ کب سے باؤلنگ کرا رہے اور باؤنسر پھینک رہے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور پارٹی کے راہ نماؤں، کارکنوں اور ہم دردوں کی طرح نوازشریف کے ایک اور مخالف شیخ رشید، اس مقدمے کے فریقین میں شامل جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین، راہ نماؤں اور وابستگان کی خوشی بھی دیدنی ہے۔ ہر کوئی جیت کا کریڈٹ لینے کے لیے کوشاں ہے۔ سب کو اس فیصلے میں اپنے لیے امکانات کا ایک جہان نظر آرہا ہے اور کوئی فائدہ نہ بھی ہو تو یہ خوشی ان کے لیے کیا کم ہے کہ دشمن کا نقصان تو ہوا۔

اس سے قبل آنے والے سروے ثابت کرتے تھے کہ پاکستان میں لوگوں کی حمایت کا رخ تبدیل نہیں ہوا ہے اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور حمایت کی جو صورت حال گذشتہ عام انتخابات میں تھی وہی رجحان اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ تاہم اب صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے کیا امکانات رکھتا ہے؟ جو اب ہم سے زیادہ دور نہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت میں اضافہ کرے گا۔ بلاشبہہ عمران خان نے پاناما کے معاملے کو بیٹھنے نہ دیا اور اس حوالے سے عدالت میں اور عدالت کے باہر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ چناں چہ بعض تجزیوں کے مطابق امکان ہے کہ اب ان کا ووٹ بینک مضبوط ہوگا بل کہ اس میں اضافہ ہوگا، جس کے باعث وہ پنجاب میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکیں گے، تاہم یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کیا تحریک انصاف الیکشن کے بعد اس پوزیشن میں ہوگی کہ کسی اور جماعت کی مدد کے بغیر اپنی حکومت بنا سکے؟ عمران خان تبدیلی کی علامت کے طور پر سامنے آئے تھے، چناں چہ عوام کے ایک بہت بڑے حلقے خاص طور پر نوجوانوں نے ان کا خیرمقدم کیا تھا، مگر ان کا طرز تخاطب، ہر ادارے اور ہر مخالف کو مطعون کرنے کے رجحان اور اسی طرح کے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کے عمل نے جس طرح کے افراد کو وہ شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان کی حمایت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد کو ان سے مایوس کردیا ہے، جس کا ثبوت مختلف ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست ہے۔

دوسری طرف کیا مسلم لیگ ن کی عدالت میں شکست عام انتخابات میں بھی اس کی ہار کا باعث بن سکتی ہے؟ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ نوازشریف اور ان کی جماعت جس طرح اپنی مظلومیت کا پرچار کر رہے ہیں وہ یقیناً عوام کے جذبات پر اثرانداز ہوگی۔ عدالتی فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کو قبر میں اتار کر ان کی مقبولیت کم نہ کراسکا تھا تو زندہ اور متحرک نوازشریف اور ان کی جماعت کی مقبولیت پر کیسے اثر ڈال سکتا ہے۔ نوازشریف اور ان کے ہم نوا تو اُلٹا اس فیصلے سے اپنے بدعنوان نہ ہونے اور لوٹ کھسوٹ نہ کرنے کا ثبوت برآمد کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی اور ن لیگ کے حامی کس حد تک ان کا موقف تسلیم کرتے ہیں۔ ن لیگ کو جو چیز نقصان پہنچا سکتی ہے وہ خود شریف خاندان کے اندر پیدا ہونے والا اختلاف ہوسکتا ہے۔ شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کے بعد اگر ان کی گرفت اپنی جماعت پر مضبوط ہوگئی اور وہ اپنے روایتی طرزحکومت اور جذباتی اقدامات اور اداؤں کے باعث جماعت کے اندر اور عوام میں مقبول ہوگئے تو کیا دونوں بھائی جماعت کی قیادت کے لیے آمنے سامنے کھڑے ہوں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو ن لیگ کا مستقبل تقسیم کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ پاناماکیس کے دوران جس طرح شہبازشریف اور ان کے اہل خانہ اس معاملے سے الگ تھلگ نظر آئے اس نے دونوں بھائیوں کے درمیان دوری آنے کی باتوں کو فروغ دیا تھا، یہ محض افواہ ہے یا حقیقت، وقت ہی بتائے گا اور وہ وقت بہت تیزی سے قریب آرہا ہے۔اگلے کالم میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے مزید امکانات پر بات کی جائے گی ۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311880 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.