میاں نواز شریف کو ڈرا دھمکا کر استعفیٰ لینے میں ایک بار
پھر سب ناکام ہو گئے۔اس لئے عدلیہ سے انہیں مجبوراً نا اہل کیا گیا۔
1999میں جنرل محمود بھی ایسا نہ کر سکے تو سپریم کورٹ کا سہارا لینے کے
بارے میں غور کیا گیا۔ستمبر 2014میں جب سینئر سیاستدان اور پی ٹی آئی کے
صدر جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہل کرانے
کا فارمولہ تیار کیا گیا ہے تو کسی نے یقین نہ کیا۔ مگر آج تین سال بعد وہی
ہوا جو بات جاوید ہاشمی صاحب نے عمران خان سے منسوب کی تھی۔کیوں کہ سب
جانتے ہیں کہ نواز شریف سے استعفے پر دستخط کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن
ثابت ہوا ہے۔ نواز شریف کی ناہلی میں جنرل (ر)پرویز مشرف یا جنرل(ر)شجاع
پاشا کا کیا کردار ہے ، کوئی اس پر روشنی نہیں ڈال سکتا۔ مگر ہاشمی صاحب نے
نواز شریف، خواجہ آصف اور چوہدری نثار کو برطرف کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
عمران خان کے 126دن ک دھرنے کا بھی یہی مقصد تھا۔ پی ٹی آئی کارکنوں کو
ہدایت تھی کہ وہ نواز شریف کو گھسیٹ کر وزیراعظم ہاؤس سے باہر نکالیں گے
اور علامہ طاہر القادری کے کارکن پارلیمنٹ میں داخل ہو کر کھلبلی مچائیں گے۔
گو کہ نواز شریف کو بھارت یا مودی نواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مگر یہ
درست نہیں۔ نواز شریف نے پہلے موٹر وے اور اب اقتصادی راہداری منصوبے سے
امریکہ اور بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ جب کہ ایٹمی پروگرام پر بھی
کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ پاکستان اب آسانی کے ساتھ وسط ایشیا تک پہنچ سکتا
ہے۔ گواد ر پر امریکہ اور بھارت کی نظریں لگی تھیں۔ لیکن دونوں کو مایوسی
ہوئی۔ یہاں اب بھارت اور امریکہ کا سب سے بڑا دشمن چین کام کر رہا ہے۔ جس
پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے بارے میں یہ تاثر کہ
وہ ایسٹ انڈیا کمپنی بن سکتا ہے، پائیدار نہیں۔ کیوں کہ تاریخ تب سے ڈیڑھ
صدی کا سفر طے کر چکی ہے۔ امریکی ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازشیں تیار کرتے
رہے۔ یہ دھوکہ اور غلط فہمی نصف صدی تک قائم رہی کہ امریکہ اسلام آباد کا
شاید سٹریٹجک اور فطری اتحادی ہے۔ مگر کم ہی عرصہ میں واشنگٹن نے دہلی کے
ساتھ رومانس شروع کیا جیسے ان کا جنموں کا ساتھ ہو۔ بھارت اور مودی
ڈاکٹرائن یہ سمجھ نہ سکے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں۔ مودی بھی امریکیوں کو
فریب دینے میں مصروف ہیں۔ کیوں کہ ان کا سارا نظام مکاری اور فریب پر کھڑا
ہے۔ کوئی ان کے گارڈ فادر چانکیا کا فلسفہ پڑھے تو اس کے تمام طبق روشن ہو
جائیں۔ امریکی بھی پاکستان کو مہرے کے طور پر استعمال کرنے پر یقین رکھتے
ہیں۔ ہمارے سفیر اور دورے کرنے والے جیسے ان کے پے رول پر آ جاتے ہیں۔
امریکہ میں جو فوجی افسران ٹریننگ پر گئے۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کیا
چاہتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات کیا ہے۔ حسین حقانی کی مثال سب کے سامنے ہے۔
میاں نواز شریف نے1991 میں عابدہ حسین کو امریکہ میں سفیر تعینات کیا۔وہ
اپنی کتاب ’’A gilded life: Power Failure‘‘(اے گلڈڈ لائف، پاور فیلئر)میں
لکھتی ہیں کہ اگست 1992میں جنرل آصف نواز جنجوعہ نے آرمی چیف کے طور پر
امریکہ کا دورہ کیا۔ پینٹاگون میں ڈک چینی نے جنرل نواز کو تنہائی میں
بتایا کہ اگر آپ پاکستان کا ایٹمی پروگران رول بیک کرتے ہیں تو امریکہ نواز
شریف کی برطرفی کی صورت میں مارشل لاء پر خاموش رہے گا۔ اس کا یہی مطلب تھا
کہ نواز شریف امریکہ کی بات تسلیم کرنے پر بالکل آمادہ نہ تھے۔ جنوری
1993میں جنرل نواز حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گئے۔ جنرل فرخ خان کی
سینارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل عبد الوحید کاکڑ کو جنرل نوازکی جگہ
آرمی چیف بنایا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان تھے۔ مگر جو بات ڈک چینی نے جنرل
نواز کو بتائی تھی ۔ اس پر عمل جنرل کاکڑ کے زمانے میں غلام اسحاق خان نے
کیا۔ یہ اپریل1993کا واقعہ ہے۔ صرف آٹھ ماہ میں ڈک چینی کی خواہش پوری ہو
گئی۔ یہاں عمران خان کی خواہش تین سال بعد پوری ہوئی۔ ماسٹر مائینڈ کون بنا۔
کردار کون تھے۔ مگر نواز شریف کو عمران خان کی خواہش کے مطابق سپریم کورٹ
نے نا اہل کیا۔ یہی انکشاف جاوید ہاشمی نے کیا تو عمران خان نے انہیں ذہنی
مریض قرار دیا تھا۔ مگر ہاشمی صاحب نے عمران خان کے منصوبے میں شامل ہونے
کے بجائے پی ٹی آئی سے تعلق توڑ دینے میں ہی بہتری سمجھی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس کی زد میں صرف
ایک شریس خاندان آگیا۔ شریف خاندان کو کیا سزا ملی۔ گزشتہ چار سال میں ملک
نے بلا شبہ ترقی کی۔ میاں نواز شریف سے لاکھ اختلافات ، مگر ان کے دور
حکومت میں ملک نے ترقی کی ہے۔ یہی ترقی پاکستان کے دشمنوں کو راس نہیں آتی۔
امریکہ اور بھارت مل کر آج اقتصادی راہداری کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ وہ
اس کے لئے مہروں کو استعمال کریں گے۔ نواز شریف کوجس سپریم کورٹ نے نا اہل
قرار دیا ہے، اس کا فل کورٹ ہی فیصلہ پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ مگر نواز
شریف کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان کے خلاف کسی کرپشن یا اختیارات
کے غلط استعمال کا کوئی بھی کیس ثابت نہ ہو سکا۔ باپ نے بیٹے کی کمپنی سے
دو لاکھ روپے تقریباًتنخواہ وصول نہ کی، یہی نواز شریف کا جرم بن گیا۔
پانامہ کا کیس اقامہ تک پہنچ کر ختم ہو گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کی
نگرانی میں احتساب عدالت باقی کیس کی شنوائی کرے گی۔ انصاف کہاں سے ملے گا،
یہ سوالیہ نشان ہے۔ شریف خاندان نشانہ بن گیا، با قی سب کو چھوڑ دیا گیا۔
کرپشن کے خلاف پاکستان میں یہ نئی طرز کی جنگ ہے۔ جس میں سمجھوتہ نہ کرنے
والے سزاوار ٹھہرے اور چاپلوس یا مہرے بچ گئے۔ یہ سکرپٹ کہا لکھی گئی اور
کس نے لکھی ،کبھی اس کا انکشاف بھی کوئی مخدوم جاوید ہاشمی ضرور کرے گا۔ |