گذشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں چل رہی تھی، جس
میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کا بیان تھا کہ اسلام نے 'علم کو مومن کا گم
شدہ سرمایہ قرار دیا ہے ۔ جس میں انھوں وہ حدیث بھی مع ترجمہ اپنے انداز
میں پڑھی جس میں کہا گیا ہے کہ 'حکمت و علم مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے اور
کہا کہ علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں اﷲ کے
بعد سب سے زیادہ یعنی 800 مقامات پر 'علم 'کا ذکر آیا ہے ۔علم ' کو نور کہا
گیا ہے جس کا مطلب روشنی ہے ، اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی علم کو روشنی سے
تعبیر کیا گیا ہے ، جس طرح روشنی آنے کے ساتھ اندھیرا غائب ہو جاتا ہے ،
اسی طرح 'علم آنے کے ساتھ سماج میں پھیلی برائیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔ یہ
دیکھا گیا ہے کہ جیسے جیسے معاشرے میں 'علم ' آیا ہے ، بہت سی برائیاں دور
ہوتی چلی گئیں، علم ہر مذہب کا مرکزی نقطہ ہے ۔یہ تقریر انھوں نے مسلمانوں
کی تعلیم پر لکھی گئی کتاب 'ایجوکیشن آف مسلمس : اسلامک پرسپیکٹیو آف نالج
اینڈ ایجوکیشن انڈین کنٹیکسٹ ' کی رسمِ اجرا کے موقع پر ممتاز ماہرین،
تاریخ دانوں اور سفارتی نمائندوں کے سامنے کی ۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ تعلیم
پورے سارک خطے کی طاقت بن سکتی ہے ،اگر یہ خطہ جدیدیت کو نہیں اختیار کرے
گا تو وہ ترقی کے معاملے میں دنیا سے پیچھے رہ جائے گا، نیز کہا کہ یہ
ہندستانیوں کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ انھیں ایک ہی جگہ پر مختلف مذاہب
اور خیالات کو سمجھنے ، سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا موقع حاصل ہے ۔
وزیرِ اعظم کی تقریر میں حدیث کے الفاظ اور اس کا ترجمہ سن کر یقیناً بہت
سوں کو حیرت ہوئی، لیکن جس بھی وجہ سے ہو یہ ایک اچھی بات ہے کہ انھوں نے
مسلمانوں کی علم و حکمت کی قدردانی کا اعتراف کیا اور مان لیا کہ آج سے
پندرہ سو سال قبل ہی مسلمانوں کو علم و حکمت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ، کاش
وہ اب یہ اور مان لیں کہ آج بھی مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ایسے طالبِ
علموں کی ہے جو اس راہ کی دشوار گزار گھاٹیوں کو بہ رضا و رغبت طے کرنے کے
لیے تیار ہیں، لیکن انھیں اس کا موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا، نیز اگر وہ
واقعی مسلمانوں کے تئیں نیک جذبہ رکھتے ہیں تو اس کے تدارک کی کوشش بھی
کریں، تاکہ مسلمان نوجوان اپنی صلاحیتوں کا مظاہر کرنے میں کام یاب ہو
سکیں،بیان و تقریر کر لینا کوئی بہت بڑی بات نہیں۔
دراصل نریند ر مودی نے گجرات ودیا پیٹھ کے لوگو( logo) پر لکھی حدیث کا
حوالہ دے کر اپنی بات کو وزنی بنایا تھا،انھوں نے کاہا کہ گجرات ودیا پیٹھ
کو گاندھی جی نے 1920ء میں قائم کیا، جس پر سنسکرت کے ساتھ عربی میں بھی
ایک اہم بات لکھی ہوئی ہے جس کی طرف کم لوگوں کا دھیان جاتا ہے ۔ پھر انھوں
نے اس مشہور حدیث کا ذکر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ علم و حکمت مسلمانوں کا
گم شدہ سرمایہ ہے ، وہ اسے جہاں دیکھیں حاصل کر لیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
اس وقت اردو میں لکھے جا رہے مضمونِ ہٰذا میں اس حدیث کا درست مطلب اور اس
کی سند پر بھی مختصر گفتگو سپردِ قلم کر دی جائے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ
حدیث مضمون کے اعتبار سے تسلیم شدہ ہے ، البتہ اسے مشہور محدث علامہ سخاوی
ؒ(متوفی 902ھ) نے مسند قضاعی کے حوالے سے نقل کیا ہے اور صحابی کا واسطہ
ذکر نہیں فرمایا ہے ، نیز حدیث کی متداول اور معروف کتابوں میں سے ترمذی
میں یہ روایت اس طرح نقل کی گئی ہے ، ’ الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘ عقل
ودانش کی بات مؤمن کا گم شدہ مال ہے ۔اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن فضل
نامی راوی آئے ہیں جو ضعیف سمجھے گئے ہیں، لیکن احکام و ایمانیات کے علاوہ
دوسرے مضامین میں ایسی ضعیف حدیثوں کا بھی فی الجملہ اعتبار کیا جاتا ہے ،پس
یہ حدیثِ نبوی ہے اور اس میں اس اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ علم
کے معاملے میں کوئی تعصب نہیں چاہیے ، اور جہاں بھی کوئی اچھی بات مل جائے
اسے قبول کرلینا چاہیے ۔(کتاب الفتاویٰ)جب کہ علامہ ابن جوزی نے درجِ ذیل
الفاظ نقل کیے ہیں:الحکمۃ ضالۃ کل حکیم فاذا وجدھا فھو احق بھا۔دانائی ہر
حکیم کی گم شدہ چیز ہے ،جب وہ اسے پالیتا ہے تو وہی اس کا زیادہ مستحق ہوتا
ہے ۔(المتناھیۃ لابن الجوزی) |