وہ ہو گیا جس کی کسی کو اُمید نہیں تھا۔ پہلی بار نواز
شریف احتساب اور انصاف کی پکڑ میں آ گیا۔ جلاوطنی میں بھی اﷲ نے انہیں ذلیل
و رُسوا کیا تھا۔ انہوں نے خانہ خدا میں بیٹھ کر اپنے گناہوں کی اُوپری دل
سے معافی مانگ کر نعوذ باﷲ، رب کو چکر دینے کی کوشش کی۔ اور رب نے انہیں
ایسا چکر دیا کہ ان کی بیس بائیس سال پُرانی کرپشن پکڑی گئی۔ موجودہ دور کی
کرپشن کا کھاتہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ خیر، ابھی تو صرف پکڑ میں آیا ہے،
آگے جا کر ٹرائل کی چکی میں اس کی اچھی خاصی پِسائی ہونے والی ہے۔ نواز
شریف اگر سمجھداری سے کام لے کر آج سے چند ماہ پہلے ہی وزارت عظمیٰ سے
استعفیٰ دے دیتا تو پانامہ کیس کے گرداب میں سے نکلنے کا کوئی باعزت راستہ
مِل سکتا تھا اور دُوسرے یہ کہ اُس کے اپنے بچوں میں سے کسی کے وزیر اعظم
بننے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی تھی۔مگر اُس کی شاہانہ ہٹ دھرمی اُس کے سارے
بچوں، یہاں تک کہ سمدھی اور داماد کو بھی لے ڈُوبی۔ عزت تو گئی سو گئی، اب
اُسے اپنی جان بچانے کے لیے بادلِ نخواستہ زمامِ اقتدار اپنے سوتیلے بھائی
کو سونپنا پڑ رہی ہے، اور وہ بھی اس بھائی کو جس نے پانامہ کیس میں نواز
شریف کی سیاسی نیّا ڈبونے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چھوٹے بھائی نے جے آئی
ٹی کو خفیہ ذرائع سے نواز شریف اور اُس کے بچوں کے خفیہ اثاثوں اور سیاہ
کارناموں کی ایسی ایسی تفصیلات فراہم کیں کہ جن تک جے آئی ٹی کی اگلے سو
سالوں میں بھی رسائی نہیں ہو سکتی تھی۔ مریم اورنگزیب نے جس گھر کے بھیدی
کے لنکا ڈھانے کا ذکر کیاتھا، وہ شخصیت یہی موصوف ہیں۔ عمران خان اور شیخ
رشید کو زیادہ خو ش ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب تو شہباز شریف کی بچھائی
بساط پر بھولے پن میں اُسی طرح چلے ہیں، جیسا وہ چاہتا تھا۔ عمران خان کی
سمجھ میں اس وقت بات آئے گی جب عنقریب اُسے میچ ہاتھ سے نکلنے کا پچھتاوا
ہو گا۔اور یہ میچ جیتتے بھی کیسے، جبکہ سب شہباز شریف کی بنائی پچ پر اُس
کی کنڈیشنز اور مرضی کے مطابق کھیلے ہیں۔باقی رہا چودھری نثار، تو اُسے بھی
شہباز شریف نے نواز شریف پر پریشر بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ چودھری نثار
نے ڈان لیکس کے معاملے پر حقائق منظرِ عام پر لانے کی دھونس دھمکی سے نواز
شریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ مگراس گیم میں حاصل کچھ نہیں کیا، بلکہ
جو کچھ اس کے پاس تھا، اُس سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ اس وقت پُوری مسلم لیگ
نواز پر سوگ کی سی کیفیت برپا ہے مگر شہباز شریف کے گھر پر چوری چوری
مٹھائیاں بانٹی اور کھلائی جا رہی ہیں۔
باعثِ شرم بات ہے کہ نام نہاد دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت کو اتنی
بڑی پارلیمنٹ میں سے کوئی بھی اچھی شہرت والااور ایماندار ممبر وزارتِ
عظمیٰ کے لیے دستیاب نہیں ہے۔تادمِ تحریر یہ اطلاعات گرم ہیں کہ پنجاب کی
وزارتِ اعلیٰ کے لیے قرعہ فال مجتبیٰ شجاع الرحمن کے نام نکل گیا ہے۔ ماشاء
اﷲ سے یہ موصوف بھی این آر او کی بدولت معافی شدہ ہیں۔ مسلم لیگ نواز نے
کبھی اپنی فیملی سے باہر کسی کو اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان نہیں کیا اور
اگر کبھی اس کی نوبت آ جائے تو کسی مشکوک شہرت کے حامل شخص کے حصّے میں ہی
یہ عزت افزائی آتی ہے کیونکہ وہ احتساب کے خوف سے شریفوں کے حکم سے بال
برابر بھی سرتابی کی جرأت نہیں رکھتا اور ایک وفادار اور پالتو غلام ثابت
ہوتا ہے۔ ایسا معاملہ ہی عبوری دور کے لیے نامزد شاہد خاقان عباسی کا ہے۔
پہلے ان کی مدد کے لیے قطر سے خط آیا تھا اور اب قطری ٹھیکوں کے سرخیل کے
حصّے میں یہ اعزاز آیا ہے۔ یہ صاحب بھی ایل این جی کی ڈیل میں اربوں روپے
کے مبینہ کِک بیکس کے باعث خاصی شہرت کے حامل ہیں۔ ان کے اثر و رسوخ کے
باعث ان کی ایئر لائن کا بزنس آسمانوں کو چھو رہا ہے جبکہ عوام کے ٹیکسز سے
چلنے والی پی آئی اے زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے۔نواز شریف کو پُوری اُمید
ہے کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے مختصر دورِ وزارتِ عظمیٰ میں یہ ان پر کسی
نووارد ابتلاء کے آگے سینہ سپر ہو جائے گا اور پھر اس کے بعد شہباز شریف
وزیر اعظم کا قلمدان سنبھال لے گا۔ آج کل ایک چٹکلہ سوشل میڈیا پر بہت گردش
میں ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں جانے کس کو ’خاتونِ
اول‘ کہلانے کا شرف نصیب ہوتا ہے۔
قارئین کے ذہنوں میں یہ سوال یقینا کلبلا رہا ہو گا کہ جب شہباز شریف نے
نواز شریف کا سارا سیاسی کیریئر لپیٹ کر رکھ دیا تو پھر اسے وزارتِ عظمیٰ
پر فائز کرنے کا کیا مقصد ہے۔ کیونکہ اس وقت نواز شریف کے سامنے اپنے سیاسی
کیریئر کی بقا کا مسئلہ نہیں بلکہ اُسے تو زندگی کے باقی ماندہ سالوں کو
کال کوٹھڑی میں بِتانے سے بچنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف اس حقیقت
سے باخبر ہے کہ نواز شریف اب سیاسی طور پر ختم ہو چکا ہے اور بالکل بے ضرر
ہوچکا ہے۔ اب تو مسئلہ مِل جُل کر آگے بڑھنے کا ہے۔ شہباز شریف کو اقتدار
میں آکر اپنی کرپشن کو منظرِ عام پر آنے سے روکنا ہے اور اسی دوران وہ نواز
شریف کو بچانے کے لیے بھی اپنی تمام تر سیاسی طاقت صرف کر دے گا۔ نواز شریف
کی ضرورت ایک ایسا وزیر اعظم ہے جو جوڑ توڑ اور جلاؤ گھیراؤکے تمام تر
ہتھکنڈوں کے استعمال میں یدِ طولی رکھتا ہو۔ جو دھونس دھاندلی کو اپنا کر
مخالفین کو خوفزدہ کرنے کی سیاست میں طاق ہو۔ اور وقت آنے پر گلو بٹوں کی
فوج سیاسی ابتری پیدا کرنے کے لیے کھڑی کر دے۔
جب سے پانامہ کیس کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا ہے تمام تجزیہ نگاروں نے
اپنے قیافوں اور سیاسی بصیرت سے ہٹ کر سوچنا شروع کر دیا ہے۔ خیال یہی ہے
کہ شہباز شریف کا پتّا بھی صاف ہونے والا ہے۔ جے آئی ٹی کے ہاتھ حدیبیہ
پیپر ملز معاملے میں بہت کارآمد ثبوت ہاتھ آ چکے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن اور سبزہ
زار جعلی پولیس مقابلوں کا کیس کھُل گیا تو شہباز شریف کے حصّے میں آنے
والی سزا کے مقابلے میں نواز شریف کو اپنی سزا غنیمت محسوس ہونے لگے گی۔
لگتا ہے کوئی معجزہ ہی شہباز شریف کو آنے والے کڑے دور سے بچا سکتا ہے۔صرف
نواز شریف اور اس کے بچے ہی نہیں، تمام تر آلِ شریف چور، کرپٹ، خائن اور
جھوٹی ثابت ہو چکی ہے۔ موجودہ اور سابقہ ادوار کے دوران شہباز شریف کے تمام
پراجیکٹس کرپشن کی گرد سے اٹے ہوئے ہیں۔ برخوردار حمزہ نے بھی خوب بدنامی
کمائی ہے۔ پیسے لے کر نوکریوں پر بھرتی، بیت الخلاؤں کی کمائی، پارٹی فنڈ،
قبضہ مافیا سے حصّہ وصولی، حتیٰ کہ دُکانداروں اور ریڑھی والوں تک سے جگّا
وصول کرنے میں برخوردار نے خوب پہچان بنائی ہے۔پولٹری فارمنگ میں بھی اس کی
مکمل اجارہ داری ہے۔ حمزہ کے بہت سے ’مسائل‘ ہیں۔ وہ اکثر اوقات کسی خاص
چیز کے زیر اثر ایسی کیفیت میں چلا جاتا ہے کہ اُسے خود پر بھی قابو نہیں
رہتا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کو گولی باری کا حکم بھی اسی خاص کیفیت کے
دوران دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ بہت سے قتل کے کیسز میں نامزد ہے۔ شہباز
شریف کی حکمرانی تو برائے نام ہے۔ یہاں تک کہ وزاراء کی حیثیت بھی ربڑ سٹمپ
کی سی ہے۔ صوبائی وزیر بلاوجہ ہی واویلابرپا نہیں کرتے۔ حمزہ شہباز اور
سلمان شہباز نے تمام صوبائی کابینہ کے اختیارات سلب کر رکھے ہیں۔
ہاں تو ذکر سلمان شہباز کا شروع ہوا ہے تو اس پر تفصیل سے بات ہو جائے۔ کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آلِ شریفیہ کی موجودہ پود میں سے واحد شخص ہے جس کا
نام کسی سکینڈل میں نہیں ہے۔ نواز شریف پانامہ سکینڈل سے پہلے خود کو اور
اپنے بچوں کو دُنیا کی سمجھدار ترین مخلوق گردانتا تھا۔ آج یقینا وہ سلمان
شہباز سے سبق سیکھ چُکا ہو گا۔ کیونکہ نواز شریف چالیس سال کی کاروباری
سیاست میں اتنا کچھ نہیں سمیٹ سکا، جتنا اس باکمال پُوت نے چار سالوں میں
سمیٹ لیا ہے۔پنجاب میں شہباز شریف کے دور میں جتنے بھی سولر، تھرمل اور
رینٹل پاور کے پراجیکٹس لگائے گئے۔ ان تمام پراجیکٹس کے نتیجے میں سلمان
شہباز نے کئی سو ارب روپے کما لئے۔ حالانکہ یہ تمام پراجیکٹس ناکامی سے
دوچار ہوئے، مگر کیا مجال کہ میڈیا میں اس حوالے سے کوئی بڑا شور مچا ہو۔
مُلک میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے کوئی بھی نیشنل پالیسی برخوردار
سلمان کی مرضی کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتی۔بجلی کے تمام پیداواری منصوبوں
کی ڈیل کے وقت سلمان شہباز، میاں نواز شریف کے ہمراہ ہوتا تھا۔ اس کا ماڈل
ٹاؤن میں واقع دفتر بجلی کے منصوبوں کی ڈیلز طے کرنے کے لیے ہی استعمال
ہوتا ہے۔ رہے بیچارے خواجہ آصف اور عابد شیر علی، یہ تو اپنی مرضی سے ایک
میٹر بھی نہیں لگوا سکتے۔ اس کے علاوہ ڈیری فارمنگ اور کئی الم غلم کاروبار
بھی اسی ’غیر سیاسی‘ بچے کے سپرد ہیں۔ سلمان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں۔
کوئی ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر کی سیٹ نہیں۔مگر اس کا پنجاب کی
سیاست پر اثر ناقابلِ دید مگر انتہائی گہرا ہے۔ یہ شریف خاندان کا سب سے
ذہین ترین اور کایاں شخص ہے۔جانے اس کے پاس کونسی ایسی سلمانی ٹوپی ہے کہ
اس کی کرپشن کسی کو نظر نہیں آ رہی۔ شہباز شریف کو بھی اپنے اس ہونہار بچے
کی صلاحیتوں کا پُورا ادراک ہے، مگر وہ خود کو اس لیے وزیر اعظم کے عہدے پر
فائز کروا رہا ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے آفٹر شاکس سے باقی ماندہ شریف
خاندان کو بچا لے اور اگر سپریم کورٹ میں اس کی قربانی ہو جائے تو اس پر
عوام کے اندر مظلومیت کا ایسا بین ڈالا جائے کہ کس طرح عدالتی شب خون کے
ذریعے ایک کے بعد دُوسرے شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ اس وقت نواز لیگ
کی ساری سیاست آہ و زاری اور بین سیاپے کے گرد ہی گھوم رہی ہے اور یہی ان
کے لیے اپنی سیاست کو بچانے کا آخری راستہ بھی ہے۔ اوراب تو ویسے بھی ایک
وفاقی وزیر نے بیان داغ دیا ہے کہ ایک شریف کو فارغ کرنے کے بعد دُوسرے کو
فارغ کرو گے تو تیسرا لے آئیں گے، تیسرے کے بعد چوتھے کو لے آئیں گے۔ سو
سلمان شہباز مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر مضبوط اُمیدوار دکھائی دے رہا
ہے۔ یقینا ایسے شخص کو جس پر آج تک کوئی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہو اور
اس پر مستقبل قریب و بعید میں مالی بے ضابطگی یا قتل و غارت کا کوئی مقدمہ
بننے کا دُور دُور تک امکان نہ ہو، اور اس کی کرپشن سب کی نظروں سے اوجھل
ہو۔ ایسے ’لائق فائق‘ شخص کو شریف خاندان کی سیاست کی گدی سنبھالنے کے لیے
آگے لانا آل شریفیہ کی بقا کے لیے بہت ناگزیر ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭ |