آج اپنے مہربان دوستوں کی توجہ
کے لیے جناب علی ہجویری صاحب کی لاہور آمد کے بارے میں چند معلومات یہاں
بیان کرنا چاہتا ہوں امید ہے کی میری گزارشات کو کسی گستاخ کا نام نہیں دیا
جائے گا۔
سب سے پہلے آپ دوستوں کی معلومات کے لیے جناب علی ہجویری کی تاریخ وفات کے
بارے میں کچھ معلومات آپ کی معلومات کے لیے عرض کردوں۔ عام طور پر ان کی
تاریخ پیدایش 465 ھجری مشہور ہے مگر حدیقھ الاولیاء صفحہ نمبر 184 کے حاشیے
کے مطابق آپ 480 ھجری تک تو بقید حیات تھے۔
گنج بخش کا لقب آپ کو کیسے اور کب ملا اس بارے میں بھی دو روایتیں عرض کر
دوں ایک تو مشہور روایت کہ خواجہ معین الدین چشتی نے تصوف کے دستور کے
مطابق چلہ سے فارغ ہو کر آپ کے مزار پر کھڑے ہو کر وہ مشہور شعر پڑھا ( گنج
بخش فیض عالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) اور خواجہ مین الدین چشتی کی تاریخ وفات 633 بتایا
جاتا ہے۔ یعنی آپ کو یہ خطاب اس سے پہلے مل چکا تھا۔ مگر حدیقہ الاولیاء کے
صفحہ 182 کے حاشیے کے مطابق سب سے پہلے آپ کے لیے گنج بخش لکھا وہ محمد
عبرت لاہوری نے سن 1135 میں عبرت نامہ میں لکھا ہے۔ یہ دونوں میں نے صرف آپ
کی معلومات کے لیے تحریر کیں کیونکہ تواریخ میں ایسا اختلاف معمولی اخلاف
ہونا معمولی بات ہے۔
اب ذرا آپ کی لاھور آمد کے بارے میں کچھ عرض کردوں۔ تصوف اسلام صفحہ 35 ،
حدیقہ الاولیاء ص 186 اور 2008 میں چھپنے والی کتاب فاتح قلوب میں بھی یہ
روایت موجود ہے۔ حسین زنجانی اور علی ھجویری دونوں کے مرشد ایک ہی تھے یعنی
جناب حسن ختلی حنبدی ۔ اور حسن زنجانی جناب علی ھجویری سے پہلے ہی لاہور
میں موجود تھے۔ جب مرشد نے آپ کو لاھور جانے کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ
وہاں تو حسن زنجانی موجود ہیں مگر مرشد نے آپ کے وہاں جانے پر اصرار کیا ۔
آپ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ شیخ زنجانی کا جنازہ جا رہا ہے۔ دیکھا جناب
کرامت آپ کے پیر و مرشد کی کہ اپنے مرید کی تاریخ وفات کا پہلے سے پتہ چل
گیا اور ان کے متبادل کے طور پر عین انکی وفات کے موقع پر جناب علی ھجویری
کو بھیج دیا۔ مگر ذرا ٹھریے میری بات ابھی ادھوری ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے
عرض کر دوں کہ حسین زنجانی کی تاریخ وفات 600 ھجری ہے اور جناب علی ھجویری
کی تاریخ وفات 465 ھجری۔ اس حساب سے تو جناب علی ھجویری کو 600 ھجری تک
زندہ ہونا چاہیے یا پھر حسین زنجانی کو 465 ھجری سے پہلے وفات پانا چاہیے۔
اب حدیقہ الاولیا کے مصنف اقبال مجددی نے توجیہ پیش کی کہ ممکن ہے یہ حسین
زنجانی کوئی اور ہوں۔ مگر یہ توجیہ باطل ہے کیونکہ تصوف کی دنیا میں اس نام
کی کسی دوسری شخصیت کا ذکر نہیں ملتا۔
مجھے اپنے داتا کا گستاخ کہنے والوں سے مؤدبانہ گڑارش کرتا ہوں کہ آپ سب کے
پاس اس حکایت کی کیا حقیقت ہے۔ اگر یہ روایت سچ ہے تو اسے ثابت کیجیے اور
اگر میری تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت جھوٹ ہے تو برائے مہربانی
آپ بھی اس کا انکار کیجیے۔ |