جنگِ آزادیِ ہند میں علماے اسلام نے بے مثال قربانیاں
انجام دیں۔چمنِ ہند کی نکہتیں ان ہی کا صدقہ ہے۔مگر اسے تاریخ کی ستم ظریفی
کہیے یا ’’تاریخ گری‘‘ کی بد ترین مثال کہ جن علما و قائدین نے انگریزی
مظالم اور حکومت کے خلاف عَلمِ جہاد بلند کیا،قید و بند کی صعوبتیں برداشت
کیں،اپنے مال و متاع کو ناموس و استخلاصِ وطن کی خاطر لْٹا دیا،اْن کی
خدمات اور قربانیوں کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظر انداز کر دیا
گیا۔اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان علما وقائدین کی جگہ کچھ نام نہاد
اور انگریزوں کے زر خرید غلاموں کو جنگِ آزادی کے قائدین کی حیثیت سے پیش
کیا جانے لگا۔لیکن اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔حق و صداقت کی کرنوں سے انصاف پسند
ذہن و فکرروشنی پا رہے ہیں․․․․․․․ذیل میں ان ہی فراموش کردہ علما و قائدین
کے کارناموں کا مختصر ذکر کیا جا رہاہے۔
٭مولاناوہاج الدین مرادآبادی:
مولاناوہاج الدین عرف مولوی منومرادآبادی(شہادت ۱۲۷۴ھ/۱۸۵۸ء)خلف مولوی جمیل
الدین بن مولوی وجیہ الدین بن مفتی شیر محمدشہر مرادآبادکے بڑے عالم اور
رئیس تھے۔شجاع وبلنداخلاق اور ہم دردوغمگسارتھے۔دینی جذبہ اور قوم پروری
میں بے مثال تھے۔ حکام شہر آپ کوعزت واحترام کی نظرسے دیکھتے تھے۔عوام
وخواص میں آپ یکساں مقبول تھے۔عربی وفارسی واردوکے علاوہ انگریزی زبان پر
بھی آپ کوقدرت تھی۔انقلاب ۱۸۵۷ء میں آپ نے مرادآبادمیں نمایاں کردار
اداکیا۔۱۹؍مئی ۱۸۵۷ء کومرادآباد جیل خانہ پر آپ نے ایک ہجوم کے ساتھ حملہ
کیااور سارے قیدیوں کوآزادکرالیا۔مسٹر جان کرافٹ ولسن یہ خبر سنتے ہی روپوش
ہوگیاتھا۔
مولاناوہاج الدین نے رام پور کادورہ کرکے وہاں بھی جہاد اور حریت کی روح
پھونکنے کاسرفروشانہ اقدام کیاکیوں کہ نواب رام پوریوسف علی خاں انگریزوں
کے وفادار تھے۔ریاست رام پور کی منجمد فضا میں حرکت پیداکر نابہت ہی مشکل
کام تھا۔مگر فدائے قوم مولوی وہاج الدین کی یہ قوم پروری،حب الوطنی اور
شجاعت تھی کہ سرہتھیلی پررکھ کراپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خطرات کی اس وادی
میں کودپڑے۔وہ بے خوف وخطرہوکررام پور خاص اور گردونواح کے قصبوں اور
دیہاتوں میں جلسے کرتے،پمفلٹ پڑھ کرسناتے اور اس طرح اپنے سپوتوں کو بیدار
کرکے جنگ آزادی کی تحریک میں شمولیت کی دعوت دیتے۔
مرزاناظم بخت کے بیٹے اور فرخ سیر بادشاہ کے نواسے شہزادہ فیروزشاہ جب مراد
آباد پہنچاتو آپ اس کے دست راست بن گئے۔مولاناسید کفایت علی کافی ؔ اور
مولاناوہاج الدین نے مل جل کرمرادآباد میں انقلاب برپاکردیا۔شہزادہ فیروز
شاہ کی سرپرستی میں ان حضرات نے نواب کی فوج اور انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ
کیا۔انقلاب کی ناکامی کے بعد ایک مخبر کی غداری سے مولاناوہاج الدین کے گھر
پررمضان المبارک کے مقدس مہینے میں عصر ومغرب کے درمیان انگریزوں نے
۱۲۷۴ھ/۱۸۵۸ء میں ایک روز دھاوابول دیااور گھر کے اندر ہی گولی مارکرآپ کو
شہید کردیا۔
٭مولانارضاعلی خاں بریلوی :
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری برکاتی رحمۃ اﷲ علیہ کے حقیقی
دادامولانارضاعلی خاں بریلوی (متولد ۱۲۲۴ھ/۱۸۰۹ء متوفی جمادی الاولیٰ
۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء)کا سلسلۂ نسب قندھار سے آکر ہندوستان میں رہائش پذیر ہونے والے
آباواجداد سے ملتاہے۔آپ کا سلسلۂ اجازت و خلافت اور سندِ حدیث مولاناخلیل
الرحمن کے واسطہ سے بحرالعلوم حضرت علامہ محمد عبدالعلی فرنگی محلی
لکھنوی(متوفی ۱۲۲۵ھ/۱۸۱۰ء)تک متصل ہے۔متحدہ ہندوستان میں رائج و مشہور
’’خطبات علمی‘‘آپ ہی کے تحریرکردہ ہیں جوآپ کے ایک عزیرشاگردمولانامحمد حسن
علمی کے نام سے شائع ہوکر ہندوستان کے شہرشہر میں مقبول ہوئے۔آپ نے جنگ
آزادی میں قولاً فعلاً عملاً ہر طرح سے حصہ لیا اور شجاعت و بہادری کے انمٹ
نقوش چھوڑے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے ۔ عمر
بھر انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے ، آپ ایک بہترین جنگجو اور سپاہی تھے ۔
لارڈ ہیسٹنگ آپ کے نام سے سخت ناراض تھا اور جنرل ہڈسن جیسے برطانوی جنرل
نے تو آپ کے سر پر پانچ سو روپئے کا انعام رکھ دیا تھا یہ اور بات ہے کہ وہ
لوگ اپنے ناپاک منصوبہ میں عمر بھر ناکام رہے
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
مولانارضاعلی خاں بریلوی حریت پسند تھے۔انگریزی اقتدار کو بالکل پسند نہیں
کرتے تھے۔علمائے اہل سنّت نے انگریزوں کے خلاف جہاد کافتویٰ
دیاتومولانارضاعلی خاں بریلوی نے بھی فتوائے جہاد کی حمایت کی اور عوام کو
انگریزی حکومت کاتختہ پلٹنے کے لیے مستعد فرمایا۔مجاہدین کی ہرامکانی مدد
کی۔مولانابریلوی مجاہدین کو گھوڑے مہیاکیاکرتے تھے تاکہ مجاہدین شب خون
مارکرانگریزوں کو شکست دے سکیں۔مولانانے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں عملاًحصہ
لیا۔شجاعت وبہادری آپ کوورثہ میں ملی تھی۔جنگ آزادی میں فرنگی اقتدار کا
تختہ پلٹنے کے لیے مولانانے نمایاں کردار اداکیا۔مولاناکو انگریزاُن کی
مجاہدانہ سرگرمیوں کے سبب علامہ فضل حق خیرآبادی، امام بخش صہبائی اور احمد
اﷲ شاہ مدراسی کی صف کا مجاہدآزادی تسلیم کرتے تھے۔بریلی میں فتوائے جہاد
کی تشہیر کے بعد انگریزوں کے خلاف اقدام کرنے کے لیے جنرل بخت خاں روہیلہ
کو مجاہدین کی فوج کا کمانڈران چیف بنایاگیا۔مولانارضاعلی خاں بریلوی جہاد
کمیٹی کے سرپرست تھے۔جنرل بخت خاں روہیلہ اور خان بہادر خاں روہیلہ نبیرۂ
حافظ رحمت خاں روہیلہ کبھی بھی مولاناکی ہدایت کے بغیر کوئی اقدام نہیں
کرتے تھے۔
٭مولانارحمت اﷲ کیرانوی :
پایۂ حرمین مولانارحمت اﷲ کیرانوی (متولد ۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ء۔متوفی ۱۳۰۸ھ/ ۸۹۱ء)
کبیرالاولیامخدوم جلال الدین پانی پتی (متوفی ۷۶۵ھ)کی اولاد میں سے ایک
بلند پایہ عالم دین ہیں۔جن کا سلسلہ نسب خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی
اﷲ عنہ سے ملتاہے۔ردِ نصرانیت کے باب میں مولانارحمت اﷲ کیرانوی کانام
ہندوستان میں معروف اور سرفہرست ہے۔اپنی پوری زندگی میں مولانارحمت اﷲ
کیرانوی نے سب سے نمایاں کام یہی کیاہے۔آپ کی دوسری عظیم الشان دینی وعلمی
خدمت’’ مدرسہ صولتیہ مکۂ مکرمہ‘‘ کی تاسیس ہے اور تیسرے مرحلے میں انگریزوں
کے خلاف آپ کی جدوجہد اور انقلاب ۱۸۵۷ء میں آپ کامخلصانہ کردار اور زمین
وجائداد کی قربانی ہے۔کیرانہ مظفر نگر (موجودہ مغربی یوپی)میں ابتدائی
تعلیم کے بعد مدرسہ حیات دہلی میں آپ نے تعلیم حاصل کی۔پھر لکھنؤ جاکر مفتی
سعداﷲ مرادآبادی (متوفی ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء ۔شاگردشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ومفتی
صدرالدین آزردہؔ دہلوی)سے چند اعلیٰ کتابوں کادرس لیا۔شاہ عبدالغنی مجددی
دہلوی (متوفی ۱۲۹۶ھ/دسمبر۱۸۷۸ء)سے حدیث نبوی سے کئی کتابیں
پڑھیں۔مولاناامام بخش صہبائی ؔ سے بھی کچھ تحصیل علم کیا۔شروع میں کئی سال
تک کیرانہ کی مسجد میں طلبہ کو پڑھایا ۔مشنری اسکولوں اور پادریوں کی
سرگرمیاں جب زیادہ بڑھنے لگیں اور انھوں نے اسلام پر اعتراضات کیے تو شاہ
عبدالغنی مجددی کے حکم پر ’’ازالۃ الاوھام‘‘کے نام سے آپ نے ایک ایک ضخیم
کتاب لکھی جس میں عیسائیوں بالخصوص پادری فنڈر کی لکھی ہوئی کتاب ’’میزان
الحق ‘‘کے سارے اعتراضات کااطمینان بخش جواب دیا۔
۱۲۷۰ھ/۱۸۵۴ء میں مولانارحمت اﷲ کیرانوی اور پادری فنڈر کے درمیان آگرہ میں
ایک تاریخی مناظرہ ہواجس میں پادری فنڈر کوآپ نے لاجواب کردیا۔اس مناظرہ کی
تفصیلات اسی وقت کتابوں میں شائع ہوگئیں۔اس مناظرہ میں مولانافیض احمد
بدایونی اور مولاناڈاکٹروزیر خاں اکبرآبادی آپ کے خصوصی معاون تھے۔انقلاب
۱۸۵۷ء شروع ہواتو آپ نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کی۔مولاناامداد صابری
دہلوی لکھتے ہیں’’اس زمانہ میں عصر کی نماز کے بعد مجاہدین کی تنظیم وتربیت
کے لیے کیرانہ کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر نقارہ کی آواز پرلوگوں کوجمع
کیاتھااور اعلان ہوتاتھاکہ ’’ملک خداکااور حکم مولوی رحمت اﷲ کا‘‘(آثار
رحمت، بحوالہ: ۱۸۵۷ء : پس منظروپیش منظر،ص۲۹۶)
مولاناکیرانوی کا دہلی کے علمی طبقے اور لال قلعہ کے شہزادوں پر اثر اور ان
سے تعلقات تھے اس لیے اس وقت بہادر شاہ ظفر اور دوسرے مجاہدین کے ساتھ
مولانارحمت اﷲ صاحب نے بھی جنگ آزادی کا نقشہ بنانے میں حصہ لیااور جنگ میں
شرکت فرمائی۔ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور مولانافیض احمد بدایونی کے
ساتھ دہلی کی جنگ آزادی میں شریک ہوئے۔
کتاب آثار رحمت،تاریخ عروج عہد انگلشیہ اور روزنامچہ عبداللطیف کے علاوہ
دیگر کتابوں میں مولاناکیرانوی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کاذکر ملتاہے۔ان
مجاہدانہ سرگرمیوں کے سبب انگریزوں نے آپ کے خلاف مقدمہ چلایااور اعلان
کیاکہ مولاناکیرانوی کو گرفتار کرکے انھیں انگریزوں کے حوالے کرنے والے شخص
کو ایک ہزار روپے کا انعام دیاجائے گا ۔ مگر آپ گرفتار نہ کیے جاسکے اور
کسی طرح آپ مکۂ مکرمہ پہنچ گئے۔کیرانہ میں آپ کی جائدادوملکیت ضبط کرکے
نیلام کر دی گئی۔اسی طرح پانی پت کی آپ کی موروثی جائداد بھی نیلام کردی
گئی۔مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے ۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء میں مدرسہ صولتیہ قائم کیااور درس
وتدریس میں مصروف ہوگئے۔حاجی امدادﷲ مہاجر مکی اور شیخ زینی دحلان شافعی
مکی نے وہاں آپ کو کافی سہارادیا۔سلطان ترکی کی دعوت پر کئی بار آپ نے
قسطنطنیہ کا سفرکیا۔انھیں کی خواہش پر آپ نے ردِ نصرانیت میں اپنی معرکۃ
الآرا کتاب ’’اظہارالحق‘‘مکہ مکرمہ میں لکھ کر پادریوں کا ناطقہ بند
کردیا۔۲۴؍رمضان۱۳۰۸ھ/ ۲۸۹۱ء میں مکہ مکرمہ میں آپ کا انتقال ہوااور جنت
المعلیٰ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
٭مولاناڈاکٹر وزیر علی خاں اکبرآبادی :
مولاناڈاکٹر وزیر علی خاں اکبرآبادی (متوفی ۱۱۸۹ھ/۱۸۷۳ء )بہار کے رہنے والے
تھے۔والد محمد نذیر خاں نے ابتدائی تعلیم کے بعد مرشدآباد (بنگال)میں
انگریزی تعلیم دلائی اور پھر انگلینڈ بھیج دیاجہاں محنت سے آپ نے ڈاکٹری کی
تعلیم حاصل کی،ساتھ ہی یونانی وعبرانی زبانیں سیکھیں اور انجیل وتوریت
وغیرہ کابھی گہرامطالعہ کیا۔ہندوستان واپسی کے بعد کلکتہ کے ایک اسپتال میں
حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے ،اس کے بعد آگرہ آئے۔یہاں اپنے کام
کے ساتھ مفتی انعام اﷲ گوپامؤی وکیل صدر سے ربط و ضبط ہوا۔اور جب
مولانااحمد اﷲ مدراسی نے مجلس علماآگرہ بناکراپنی سرگرمی شروع کی تو آپ ان
کے دست وبازوبن گئے۔
’’غدر کے چند علما‘‘میں مفتی انتظام اﷲ شہابی اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ:’’
ڈاکٹر وزیر خاں کو انگریز دشمنی اور حریت نوازی کا چسکا شاہ صاحب(احمد اﷲ
مدراسی ) کے فیض صحبت سے پڑا․․․․․․․․۱۸۵۴ء میں پادری فنڈر سے آگرہ میں تین
دن تک مناظرہ ہواجس میں آپ نے مولانارحمت اﷲ کیرانوی کے معاون تھے۔‘‘(چند
ممتاز علمائے انقلاب۱۸۵۷ء ، ص ۱۴۲ ۔۱۴۵)مزید لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر وزیر خاں
مردانہ وار نکل آئے۔آگرہ میں جوفوج فدائیوں کی آئی اس کی سرپرستی ڈاکٹر
صاحب نے کی۔انگریز قلعہ بند ہوگئے۔یہ مولوی فیض احمد بدایونی کو لے کر دہلی
پہنچے۔بہادر شاہ کا دربار جماہواتھا۔بریلی سے جنرل بخت خاں آچکے تھے۔’’وار
کونسل‘‘بنی ہوئی تھی․․․․․․․․․ڈاکٹر صاحب بھی اس میں داخل کر لیے گئے۔جنرل
بخت خاں لارڈ گورنرتھے۔انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ لیا۔مولوی فیض
احمد مرزا مغل کے پیش کار مقرر ہوئے۔جنرل صاحب نے انگریزی فوج کو جہاں
مقابلہ ہواشکست دی۔مرزا مغل ایک معرکہ میں منہ کی کھاآئے۔ادھرمرزاالٰہی بخش
نے مرزامغل کوگانٹھ لیاتھااور خوف زدہ کردیاتھاکہ جنرل روہیلہ ہے۔نواب غلام
قادر خاں روہیلہ کے خاندان سے ہے۔بہادر شاہ اور تمہارے پردے میں انگریزوں
کو نکال کر خود تخت نشین ہوناچاہتاہے۔مرزامغل کان کے کچے،دوست دشمن کو نہ
پہنچان سکے۔جنرل بخت خاں نے ایک مورچہ خود سنبھالا۔دوسرامورچہ کشمیری گیٹ
کامرزامغل کے سپردکیا۔مرزانے وقت پر ہمت ہاردی،جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے جاتی
رہی۔جنرل بخت خاں نے یہ رنگ دیکھ کر ڈاکٹر وزیر خاں سے کہا!اپنی فوج کو
علاحدہ کرلواور اپنے ہمنواجوہواس کو ساتھ لو،یہ مغل بچے انگریز سے
سازبازکرگئے۔نتیجہ یہ نظرآتاہے کہ ہم سب یہیں کھیت ہوکے رہ جائیں گے۔ مقبرہ
ہمایوں جاکربادشاہ کی خدمت میں جنرل بخت خاں باریاب ہوااورسب حال عرض کیا
اور کہاکہ آپ میرے ساتھ چلیے ۔مگر نواب زینت محل نے بادشاہ کواس کی ہمراہی
کے لیے آمادہ نہ ہونے دیا۔آخرش!جنرل صاحب دلّی سے روانہ ہوگئے۔ان کے جاتے
ہی مقبرۂ ہمایوں میں بہادرشاہ گرفتار کرلیے گئے۔‘‘(چند ممتاز علمائے
انقلاب۱۸۵۷ء ،ص۱۴۶)
دہلی میں پسپائی کے بعد جنرل بخت خاں روہیلہ ،ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی اور
مولانافیض احمد بدایونی وغیرہ اپنی فوج کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے۔وہاں
مولانااحمد اﷲ شاہ مدراسی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف مورچہ بندی
کی۔پھر سب کو لکھنؤ چھوڑ کر شاہجہاں پورجاناپڑا۔وہاں بھی جب ناکامی ہوئی تو
منتشرہوکراکثرحضرات نیپال چلے گئے۔ڈاکٹر وزیرخاں مکۂ مکرمہ پہنچے اور
مولاناکیرانوی کے ساتھ مکۂ مکرمہ ہی میں مقیم ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب مکۂ مکرمہ
میں چودہ سال تک بقید حیات رہے۔وہیں ۱۲۸۹ھ/۱۸۷۳ء میں آپ کاانتقال ہوااورجنت
المعلیٰ میں تدفین ہوئی۔
یوں توفراموش کردہ علمائے کرام کی فہرست کافی طویل ہے ،بخوف طوالت ان چار
مجاہدین پر مضمون ختم کیاجارہاہے ،تفصیلی معلومات کے لیے مولانا محمد
عبدالشاہد خاں شیروانی، علامہ یاسین اختر مصباحی ،پروفیسر محمد ایوب
قادری،مولاناخوشتر نورانی،مولانا عبدالمالک مصباحی اور راقم کی کتاب ’’ جنگ
آزادی ۱۸۵۷ء میں علما کا مجاہدانہ کردار‘‘کا مطالعہ کریں۔ |