ڈرو ! اُس وقت سے

یوں تو کپتان مقبول رہنماء ہیں اور ایک عالم ،خصوصاََ نوجوان طبقہ اُن کا گرویدہ بھی لیکن ہمیں اُن میں سیاستدانوں والی کوئی بات دور دور تک نظر نہیں آتی ۔گزری اتوار اُنہوں نے اسلام آباد میں یومِ تشکر منایا ۔یہ یومِ تشکر میاں نوازشریف کی نا اہلی پر ترتیب دیا گیا ۔ ہم نے ایسا ’’تشکر‘‘ زندگی میں پہلی بار دیکھا جس میں شکرانے کے نوافل ادا کرنے کی بجائے ’’ناچ گانے‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا اور لوگ موسیقی پر والہانہ رقص کر رہے تھے ۔ ہمیں عمران خاں کا اکتوبر 2011ء کا مینارِ پاکستان کے سائے تلے وہ جلسہ یاد ہے جس میں خلقِ خُدا نے بھرپور شرکت کی ۔عمران خاں جب سٹیج پر آئے تو لوگوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا ۔ تھوڑی دیر بعد ہی مغرب کی اذان ہوئی تو کپتان نے سٹیج پر ہی نماز ادا کی۔یہ اُن کی پہلی اور شاید آخری نماز تھی جو اُنہوں نے جلسۂ عام میں اداکی۔ 126 روزہ دھرنے کے دوران بھی وہ بار بار کنٹینر پر جلوہ گر ہوتے رہے لیکن نمازوں کے اوقات میں وہ کنٹینر پر ٹہلتے رہتے یا پھر نغموں کی دھن پر سَر دھنتے۔ خیر یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے جو اُن کے اور ربّ ِ لَم یزل کے درمیان ہے لیکن جب یومِ تشکر کا کہہ کر میوزیکل کنسرٹ اور آتش بازی کا اہتمام کیا جائے تو تکلیف تو بہرحال ہوتی ہے ۔

یومِ تشکر پر کپتان کا غرور وتکبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا ۔اُنہوں نے انتہائی رعونت سے کہا کہ اب میاں شہباز شریف ، شاہد خاقان عباسی اورمولانا فضل الرحمٰن کی باری ہے ،وہ اُن کا بھی پیچھا کریں گے ۔ اپنی تقریر کے خاتمے پر وہ جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے ’’ اِس کے بعد آصف زرداری کی باری ہے، ! میں اُس کا بھی پیچھا کروں گا‘‘۔ ایک طرف تو کپتان آصف زرداری کا پیچھا کرنے کی باتیں کر رہے تھے اور دوسری طرف لال حویلی والے کو وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار نامزد کرکے شاہ محمود قریشی کو کہہ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی سے شیخ رشید کے لیے حمایت کی بھیک مانگو۔ اِسے کپتان کا یو ٹرن تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ انتہائی احمقانہ حرکت ضرور تھی ۔ ظاہر ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے’’ کو چیئرمین ‘‘کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں تو پھر پیپلزپارٹی سے اپنے نا مزد اُمیدوار کے لیے ووٹ مانگنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔

اُدھر جب شیخ رشید بھی وزیرِاعظم کا الیکشن لڑنے کے لیے فوراََ تیار ہو گئے تو ہمیں اپنا بھانجا یاد آگیا،جس نے بڑی مشکل سے بی اے پاس کیا ۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان دے رہا ہے ۔ ہم نے اُس سے پوچھا کہ بی اے تو تم نے ’’گوڈے لگا کر‘‘ پاس کیا ہے اور اب سی ایس ایس۔۔۔۔؟۔ اُس نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا ’’میں دراصل لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے بھی سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا‘‘۔ شیخ رشید کا معاملہ بھی ہمارے بھانجے جیسا ہی ہے ۔ وہ بھی شاید دنیا کو بتانا چاہتے ہوں گے کہ اُنہوں نے بھی وزارتِ عظمیٰ کا الیکشن لڑا ، کیا ہوا جو اُنہیں کل ووٹوں کا 10 فیصد بھی نہیں ملا۔ ویسے شیخ رشید کے الیکشن لڑنے میں کچھ قصور ہمارے سپیکر ایاز صادق کا بھی ہے ۔ گزشتہ چار سالوں میں شیخ صاحب نے بڑا زور مارا لیکن ایاز صادق صاحب نے کبھی پارلیمنٹ کا مائیک اُن کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جس کا شیخ صاحب جا وبے جا گلہ بھی کرتے رہے ۔ اب اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ وزارتِ عظمیٰ کا الیکشن لڑنے کے بعد اُنہیں کم از کم پارلیمنٹ سے خطاب کرنے کا موقع تو مِل جائے گا۔ یہاں بھی شیخ صاحب کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘ ہو گیا ۔ پی ٹی وی نے نو منتخب وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے نوید قمر کی تقریر یں تو ’’لائیو‘‘ دکھائیں لیکن جوں ہی شیخ صاحب کی باری آئی تو پی ٹی وی نے اپنا رُخِ روشن کسی اور طرف موڑ لیا ۔اب شیخ صاحب کی حالت کچھ یوں ہوگئی کہ
قسمت کی خوبی دیکھیئے، ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

ہم عرض کر چکے کہ یومِ تشکر کے موقعے پر کپتان کے لہجے میں تکبر کی جھلک نمایاں تھی جو شاید ربّ ِ کردگار کو پسند نہیں آئی کیونکہ غرور وتکبر تو صرف رَبّ کی ذات کے لیے ہے جو خالق ومالکِ کائینات ہے ۔شاید اِسی لیے تحریکِ انصاف کی نمایاں رُکنِ قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے عین اُس وقت تحریکِ انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا جب پارلیمنٹ میں وزارتِ عظمیٰ کا انتخاب ہو رہا تھا ۔ پھر بقول کامران خاں، عائشہ گلا لئی نے باؤنسر پہ باؤنسر پھینکنا شروع کیے جن سے بنی گالہ کے در ودیوار لرزہ بر اندام ہو گئے ۔

عائشہ گلا لئی نے تحریکِ انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عمران خاں بَدکردار شخص ہے ۔ اُس نے کہا ’’اُس بَدکردار شخص کی وجہ سے پارٹی میں ماؤں اور بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ۔ بَد کردار شخص ملک کا وزیرِاعظم بنا تو پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہو گا۔ ایسے شخص پر آئین کا آرٹیکل 62/63 لاگو ہونا چاہیے ۔عمران خاں اپنے آپ کو پٹھان کہتا ہے حالانکہ وہ دو نمبر پٹھان ہے جو پارٹی میں مغربی کلچر کو فروغ دینا چاہتا ہے ۔تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی حرکتیں کافی عرصے تک برداشت کرتی رہی ۔ عمران خاں کا بلیک بَیری چیک کر لیں ،سب کچھ سامنے آ جاے گا، وہ خواتین کو بھی کہتے ہیں کہ بلیک بَیری رکھو ،اِس سے میسج ٹریس نہیں ہوتے ۔ اُن کے میسجز میں ایسے الفاظ تھے جو کسی کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ غیراخلاقی پیغامات بھجواتے رہے، جس سے دُکھ ہوا۔ میرا ایک پختون گھرانے سے تعلق ہے اِس لیے میرے نزدیک عہدوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ میرے لیے میری عزت اور غیرت مقدم ہے۔ عمران خاں دوسروں کو اسلام کا لیکچر دیتے ہیں جب کہ خود مغربی حرکتیں کرتے ہیں ۔ ہم پاکستانی ہیں لیکن وہ انگلینڈ کا کلچر لانے پر تُلے ہوئے ہیں ‘‘۔ عائشہ گلا لئی نے کہا کہ پارٹی میں عمران خاں کے ہاتھوں خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں ۔ میں سارے بھائیوں سے کہتی ہوں اور والدین سے بھی کہتی ہوں کہ آپ کی بہنوں ،بچیوں کی عزتیں اِس پارٹی میں محفوظ نہیں۔ عائشہ گلا لئی کے اِس دھماکے کے بعد ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یہ عمران خاں کا تکبر ہے جو اُس کے سامنے آ رہا ہے۔ عائشہ گلا لئی کی باتوں میں سچائی کہاں تک ہے ،یہ تو آنے والے دنوں میں کھُل ہی جائے گا لیکن یہ عین حقیقت ہے کہ کپتان کے دامن پر ایسے چھینٹے پہلے بھی پڑ چکے ہیں اِس لیے لوگوں کی غالب اکثریت نے اُس کے بیان کو سچ ہی جانا۔

عائشہ گلا لئی کے بیان کے فوراََ بعد تحریکِ انصاف کا میڈیا سیل متحرک ہوا اور دَر جوابِ آں غزل کے طور پر جو کچھ کہا گیا وہ اتنا بھونڈا تھا کہ اُس نے عائشہ گلا لئی کی بات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔ شیریں مزاری نے کہا ’’ عائشہ گلا لئی نے عام انتخابات کے لیے پشاور کی NA-1 کی نشست مانگی جو نہیں ملی تو اُس نے الزام تراشی شروع کر دی‘‘ ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا شیریں مزاری عقل سے پیدل ہیں یاپھر وہ لوگوں کو بیوقوف سمجھتی ہیں جنہیں اتنا بھی ادراک نہیں کہ عام انتخابات میں ابھی ایک سال باقی ہے اور ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے ٹکٹوں کی تقسیم کا اعلان نہیں کیاپھر پڑھی لکھی عائشہ گلا لئی ’’قبل اَز مرگ واویلا ‘‘کیوں کرتی۔ تحریکِ انصاف کی طرف سے یہ بھی کہاجارہاہے کہ عائشہ گلا لئی تحریکِ انصاف کے یومِ تشکر کے موقعے پر تقریر کرنا چاہتی تھی ،جس کی اجازت نہیں ملی اِس لیے اُس نے یہ ڈرامہ رچایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جواز بھی انتہائی نامعقول ہے کیونکہ ایک ذی شعور خاتون اتنی معمولی سی بات پر کبھی اتنی بڑی بات نہیں کر سکتی۔ بہرحال کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوا جس کی بنا پر عائشہ گلا لئی کو میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔کپتان یوں تو دوسرے سیاسی رہنماؤں کی باریاں لگاتے پھرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اب خود اُن کی باری بھی آگئی ہے۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643313 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More