آج کے اس پرفتن دور اور خزاں رسیدہ معاشرہ میں زبان کا
بیہودہ استعمال حد سے تجاوز کر چکا ہے۔بلکہ اس عفریت نے آج کل ایک وے کا آف
ٹاکنگ، بولنے کے سٹائل، انداز اور کلچر کا سا روپ دھار لیا ہے۔ آج معاشرہ
میں باتوں باتوں میں ہزاروں گالیاں بکنے کا رواج عام ہے۔ لوگ باتوں باتوں
میں ایک دوسرے کو طرح طرح کی گالیاں بکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آمنے سامنے
بیٹھے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی فحش، بیہودہ وواحیات الفاظ
استعمال کرتے ہیں مگر کوئی اس کو برا محسوس نہیں کرتا، اور نہ گناہ تصور
کیاجاتا ہے بلکہ ایسے بیہودہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ان کے چہروں پر
بھنی بھنی مسکراہٹ اور خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ نہ ہی کسی فریق کی جانب سے
اسے برا محسوس کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس پرکسی غم و غصہ کا اظہار کیا
جاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج یہ مسئلہ ایک بہت بڑی معاشرتی ناسور کے طور پر سر اٹھائے
کھڑا ہے۔ہم اخلاقی اطوار سے حد سے گرگئے ہیں۔ ہم مسلمان ، دنیا کو اخلاقیات
کا درس دینے والے آج اخلاقی لحاظ سے غیر مسلم اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے
ہیں۔ مغربی و عیسائی ریاستیں اخلاقیات کی معراج کو چھو رہی ہیں۔ آج دنیا
میں اخلاقی اعتبار سے بہتر ممالک کا شمار کرنا شروع کریں توپہلے سو ممالک
کی فہرست میں آپ کو کسی مسلمان ملک کا ذکر تک نہیں ملے گا۔شرم اور غیرت میں
ڈوب مرنے کا مقام ہے۔کیا یہ صورت حال ہمارے دین و مذہب، خدا و رسول ﷺ کیلئے
بھی شرمندگی و ندامت کا باعث نہیں؟
عصرحاضر میں جو اقوام عروج و ترقی میں سب سے آگے ہیں ، وہ مسلمہ اخلاقی
اقدار کی پابندی میں بھی مثالی رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں گویا کہ اچھا اخلاق
ہی دنیا میں ترقی و سربلندی کا ضامن ہے۔ دنیا میں چار سو نظر دوڑا کر دیکھ
لیں جن اقوام نے ترقی کی ہے وہاں اخلاقیات بھی اپنے عروج پر ہیں اور جہاں
ترقی آپ کو نظر نہ آئے وہ یقیناًاخلاقی اعتبار سے ابتر ہوں گے۔ ہم جیسی
اقوام جو ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں ، وہ اخلاقی اقدار کی پابندی کے
معاملے میں بھی بدترین انحطاط کا شکار ہیں۔ہمارے معاشرہ میں جس کو کھولو یا
پرکھنے کیلئے چھیڑو تو وہ حد سے گرا بد اخلاق و بدتمیز ہی نکلے گا۔آج قوم
کی بے حسی و بے غیرتی کا یہ عالم ہے کہ تین عظیم انتہائی مقدس و محترم
رشتوں کی عفت و عصمت کوفحش گوئی، گالی گلوچ کا محور بنا لیا گیا ہے۔ آج کی
اس رسم گالی گلوچ پر غور کیا جائے توزیادہ تر تین طرح کی بیہودگی سننے کو
ملتی ہے ۔ضمیر و اخلاق یہ بکواس لکھنے کی اجازت تو نہیں دیتا مگر معاشرہ کی
اصلاح اور لغو بات کی پہچان کرانا مقصود ہے ۔ ہر خاص و عام اس سے بخوب
شناسائی تو رکھتا ہے مگر کسی کو اس کے خلاف قوت مزاحمت نصیب نہیں
ہوئی۔معذرت کے ساتھ آپ لوگوں کی یادہانی کیلئے وہ لغو کلمات تحریر کرنے لگا
ہوں۔ پہلی بکواس جو ہمارے خزاں رسیدہ معاشرہ میں سر عام سننے کو ملتی ہے وہ
ایک مقدس رشتے بہن سے متعلق ہے۔ معاذ اللہ (بہن چود، بہن یاوا)، اسی طرح
دوسری بکواس اتنہائی مقدس و عظیم رشتے ماں سے متعلق ہے استغفر اللہ (ماں
چود، ماں یاوا) اور اسی طرح تیسری لعنت اتنہائی محترم رشتے بیٹی سے متعلق(
دھئی چود، دھئی یاوا، اسی طرح کُڑی چود، کُڑی یاوا وغیرہ وغیرہ) ۔ یعنی
بھائی کا تعلق بہن کے ساتھ جوڑنا، بیٹے کا تعلق ماں کے ساتھ، باپ کا تعلق
بیٹی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے ، معاذ اللہ، استغفر اللہ ۔ اس طرح کی اور بھی
بہت لغویات (گالی گلوچ) سننے کو ملتی ہیں جن کا تعلق ان تینوں مقدس و محترم
رشتوں سے ہے۔ حد درجہ کی بے حیائی و بے غیرتی اور کمینگی کی انتہاء ہے جس
کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتاوہ آج ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور
حد درجہ کی کمینگی تو یہ ہے کہ کوئی اسے لغو بات، بد اخلاقی اور گناہ تصور
ہی نہیں کرتا۔ بڑے مزے سے ایک دوسرے کے منہ پر بک رہے اور ہنس رہے ہوتے
ہیں۔ یہ مذاق ہو رہا ہے یا کمینے پن کی انتہاء کا مظاہرہ؟آپ کسی جگہ کھڑے
آپس میں باتیں کرتے دو چار لوگوں کے پاس سے گذریں تو آپ کو کوئی اچھی بات
سنائی دے نہ دے یہ لغو کلمات ضرور سننے کو ملیں گے۔ لوگ ایسے بولتے ہیں
جیسے بہت ثواب کاکام ہے۔ یہ ثواب کمانے میں پاس بیٹھی خواتین حتیٰ کہ ماں ،
بہن، بیٹی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ حیاء، شرم اور غیرت کا جنازہ اٹھ چکا
ہے معاشرہ سے۔اگر پوچھا جائے کہ ایسی بکواس کیوں ؟ تو جواب ملتا یہ معاشرہ
کا رواج ہے، ہر خاص و عام بولتا ہے اس میں کوئی برائی و حرج ہی کیا۔
ماں، بہن، بیٹی۔یہی تین انتہائی عظیم مقدس و محترم رشتے تھے جنہیں اسلام نے
عزت دی اور ہم نے ان کی عفت و عصمت کو ایک بات کرنے کا سٹائل بنا لیا اور
ہنسی مذاق کا روپ دے دیا۔ اور حد درجہ کی بے غیرتی تو یہ کہ عوامی مراکز،
بسوں، ویگنوں وغیرہ میں خواتین، مائیں، بہنیں، بیٹیاں پاس بیٹھی ہوتی ہیں
اور لوگ بلا جھجک، ان کا حیاء و شرم محسوس کیے بغیر آپس میں ، موبائل فون
پر فحش گوئی کر رہے ہوتے ہیں، اور پاس بیٹھے کوئی بھی شخص اسے برا محسوس
نہیں کرتا۔حد تو یہ ہے کہ خود عورتوں کی زبانوں سے بھی ایسی گالیاں سننے کو
ملتی ہے۔ آج قوم میں حیاء سوزی اور غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا۔ ’’ جس شخص یا معاشرہ میں
شرم و حیاء نہ رہے تو وہ بڑی سے بڑی بیہودگی ، نافرمانی و فساد برپا کر
سکتا ہے۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں
’’ ہر مذہب کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف رہا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف
شرم و حیاء ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ ہے حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ بیٹی سب کی بیٹی ہے خواہ وہ
کسی یہودی ہی کی کیوں نہ ہو۔‘‘ جو کسی کی ماں ، بہن ، بیٹی پر زبان درازی
کرتے ہیں وہ حقیقت میں اپنی ہی ماں ، بہن، بیٹی کو عفت و عصمت کو اچھالتے
ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی اپنے ہی
والدین کو گالی دے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عرض کیا یا رسول
اللہ ﷺ! کیا کوئی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ہاں!
جب کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ کو گالی
دیتا ہے اور جب کوئی کسی کی ماں بہن کو گالی دیتا ہے تو وہ پلٹ کر اس کی
ماں بہن کو گالی دیتا ہے۔ (ترمذی شریف)
حضرت معرور رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوذر
غفاری رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملاقات کی اور دیکھا کہ وہ اور اس کا غلام
ایک جیسا جوڑا پہنے ہوئے تھے۔ تو میں نے اس کے بارے میں ان سے سوال کیاتو
حضرت ابو ذر رضی اللہ نے فرمایا کہ میں نے ایک شخص سے گالی گلوچ کی اور اس
کی ماں کو گالی دی۔تو حضور ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر! تو نے اس کی ماں کو گالی
دی؟ تم ایسے آدمی ہو کہ تمہارے اندر جہالت کی خصلت موجودہے ۔تمہارے لونڈی
غلام تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تمہارا ماتحت بنا
دیا ہے۔ تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو تو اسے چاہے جو خود کھائے اس کو
کھلائے، جو خود پہنے اس کو پہنائے اور تم خادموں کو ایسے بھاری تکلیف دہ
کام مت دو جو انہیں لاچار کر دے۔ اگر تم انہیں کوئی سخت کام دو تو اس کام
میں ان کی مدد کرو۔ (بخاری شریف ، باب المعاصی)
عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رفعہ قال! ساب المسلم کالمشرف علی
الھلکۃ۔ (طبرانی، جامع صغیر)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا ۔ ’’مسلمان کو گالی دینے والا اس آدمی کی طرح ہے جو ہلاکت وبربادی
کے قریب ہو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
’’آپس میں گالی گلوچ کرنے والے جو بھی کہیں اس کا گناہ ابتدا کرنے والے پر
ہے۔ (سنن ابو داؤد)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا۔ ’’مسلمان سے لڑنا کفر اور اس کو گالی دینا فاسق ہونے کی علامت ہے۔
(صحیح بخاری شریف)
زبان ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ رب العزت نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اگر غور
کیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے،بات کرنے کی ایسی مشین ہے جو پیدائش سے
لیکر مرتے دم تک انسان کاساتھ دیتی ہے چو نکہ اس مشین ، اس نعمت کو حاصل
کرنے میں ہم نے کوئی محنت اور مشقت نہیں کی، کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا، اس
لیے ہمیں اس نعمت کی کوئی قدر معلوم نہیں ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ جو نعمت
بیٹھے بٹھائے اور بن مانگے مل جائے اس کی قدر بھی نہیں ہوتی ۔ کیونکہ زبان
بھی ہمیں بن مانگے مل گئی اس لیے لوگ اس کی ذرا قدر نہیں کرتے، جو چاہتے
ہیں کہہ اٹھتے ہیں، جو منہ میں آتا ہے بول پڑتے ہیں ۔ اس کی قدر ان لوگوں
سے پوچھیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ جن کے منہ میں زبان موجود ہے مگر بولنے
کی طاقت نہیں ، کوئی بات کہنا چاہتے ہیں مگر کہہ نہیں سکتے ، دل میں جذبات
پیدا ہو رہے ہیں مگر ان کا اظہار نہیں کر سکتا، اس سے پوچھیں کہ زبان کیا
چیز ہے اور کتنی بڑی نعمت ہے؟ جو لوگ بے سوچے سمجھے باتیں کرتے ہیں ، بات
کہنے سے پہلے اس کو تولتے نہیں ۔ بعض اوقات ان کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی
ہے جو ان کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دیتی ہے جبکہ انہیں خبر بھی نہیں
ہوتی۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا۔ ’’جب انسان بے سوچے سمجھے کوئی نامعقول بات کہہ دیتا ہے تو وہ بات
اس شخص کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک لے جاتی ہے جتنا مشرق و مغرب کے
درمیان فاصلہ ۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آدمی زبان کے
گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے اور زبان کو اللہ عزوجل کی رضا کے مطابق
استعمال کرے او ر اس کی ناراضگی کی باتوں سے اس کو بچائے۔ کیونکہ زبان کے
گناہ ایسے ہیں جو بظاہر انسان کو نظر نہیں آتے کہ اس نے کوئی گناہ یا
زیادتی کی ہے، پتہ بھی نہیں چلتا جبکہ وہ سخت ترین عذاب کا مستحق قرار پاتا
ہے اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ ۔’’ زبان کو دیکھ بھال کر
استعمال کرو ، اگر کوئی اچھی بات کہنی ہو تو کہو ورنہ خاموش رہو۔‘‘ مسلم
شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بہت ہی ناپسند کرتا ہے جو زیادہ بولتا ہے ، زبان
سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ۔’’ بنی آدم کی سب سے زیادہ خطائیں اس کی زبان
میں ہیں اور قیامت کے دن سب سے زیادہ گنہگار وہی ہو گا جو فضول باتوں میں
مشغول رہتا ہو گا۔‘‘
جب انسان بے مقصد ، بلا ضرورت ، بغیر سوچے سمجھے کوئی نامعقول بات کہتا ہے
تو اس پر چھ طرح سے گرفت ہوتی ہے۔ قیامت کے روز اس سے پوچھا جائے گا کہ
1۔ تو نے یہ کلمہ کیوں کہا ؟ کیا یہ بات تیری ضرورت کی تھی؟
2۔ جو تونے یہ بات کہی تیری اس سے کیا مراد تھی؟ تیرا یہ بات کرنے کا مقصد
کیا تھا؟
3۔ جب تو نے یہ بیہودہ کلمہ کہا تو اس سے تجھے کیا فاہدہ پہنچا؟
4۔ اگر تو یہ کلمہ نہ کہتا تو تجھے کیا نقصان ہوتا؟
5۔ تو خاموش کیوں نہ رہا تاکہ اس کے انجام بد سے بچ جاتا؟
6۔ تو نے اس کی جگہ ’’ سبحان اللہ والحمد للہ ‘‘ کیوں نہ کہا تاکہ خوب
اجروثواب کماتا؟
اسی طرح ایک صاحب علم و دانش بزرگ کا فرمان ہے کہ زبان سے نکلنے والے ہر
لفظ کیلئے تین طرح سے پوچھا جائے گا۔
1۔ کیوں ؟ 2۔ کیونکر ؟ 3۔ کس لئے ؟
اگر ان تینوں سے نجات مل گئی تو ٹھیک ورنہ اس کے حساب کاوقت طویل کر دیا
جائے گا۔‘‘
اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں تعلیم دیتے ہوئے فرمایا۔’’ تین صورتوں کے
سو ا بنی آدم پر ہر قسم کاکلام ،گفتگو، بات چیت بوجھ ہے ( اس کیلئے فاہدہ
مند نہیں ہے) اوروہ تین صورتیں یہ ہیں۔
1۔ امربالمعروف۔ نیکی کا حکم دینا۔
2۔ نہی عن المنکر۔ برائی سے منع کرنا۔
3۔ ذکراللہ۔ اللہ رب العالمین کاذکرِ جمیل کرنا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
ﷺ سے دریافت کیا کہ۔’’نجات کس میں ہے ؟ تو فرمایا۔’’ اپنی زبان قابومیں رکھ
، تیرا گھر تیرے لئے وسیع ہو( یعنی گھر سے باہر کم نکلا کر) اور اپنے
گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہا۔‘‘
امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ’’
عاقبت کے نو حصے لوگوں سے دور ( الگ تھلگ ) رہنے میں ہیں اور ایک حصہ میل
جول میں ہے۔‘‘
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زبان سے
زیادہ کوئی شئے طویل قید کی حق دار نہیں ( یعنی زبان کو سب سے زیادہ خاموش
رکھا جائے اور بات کم کی جائے)۔
جب بندے کی زبان درست ہوگی تو اس کے تمام اعمال میں اصلاح نمودار ہوگی اور
جس کی زبان میں خرابی ہو تو اس کے تمام اعمال میں بھی خرابی نمودار ہو گی۔
حدیث مبارکہ ہے کہ
’’ جب تک بندے کا دل درست نہ ہو اس کی اصلاح نہیں ہوتی اور جب تک بندے کی
زبان درست نہ ہو اس کا دل درست نہیں ہوتا۔‘‘
ایک بزرگ کا فرمان ہے کہ ۔’’ جس طرح تم کلام کرنا سیکھتے ہو اسی طرح خاموشی
اختیار کرنا بھی سیکھو ، اس لیے کہ کلام تمہیں کسی مصیبت میں بھی پھنسا
سکتا ہے جبکہ خاموشی تمہیں اس سے بچاتی ہے، اگر کلام تمہاری راہنمائی کرتا
ہے تو خاموشی تمہیں اس پر قائم رکھتی ہے اور خاموشی میں تمہارے لیے دو
فاہدے ہیں جوتم میں سب سے زیادہ جاہل ہے اس کی جہالت دور کر سکو گے اور جو
تم سے زیادہ عالم ہے اس سے سیکھو گے۔‘‘
اسی طرح ایک او ر بزرگ کا فرمان ہے کہ ۔’’تم یہ کہناسیکھو کہ میں نہیں
جانتا، اور یہ نہ کہو کہ میں جانتا ہوں۔اگر تم یہ کہو گے کہ میں نہیں جانتا
تو تمہیں سیکھا یا جائے گا اور اگر تم یہ کہو گے کہ میں جانتا ہوں توتم سے
سوالات ہوں گے حتیٰ کہ سیکھنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا۔’’خاموشی ذریعہ نجات ہے، جو خاموش رہا اس نے نجات پائی، ( یعنی
خاموشی بلا ضرورت کلام کرنے سے بہتر ہے اور اسی میں نجات ہے)۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’ مخلوقات کے اعمال میں
دو چیزیں بے مثل ہیں ایک زیادہ خاموش رہنے کی عادت اور دوسری حسنِ اخلاق،‘‘
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ۔’’اگرتم دو چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمہیں
جنت کی ضمانت دیتا ہوں ایک وہ جو تمہارے دونوں جبٹروں کے درمیان میں ہے (
یعنی زبان ) اورایک وہ جو تمہاری دونوں ٹانگوں کے درمیان میں ہے۔‘‘
یوں تو سارا معاشرہ اس زبان کی تباہ کاریوں کا شکار ہے مگر خاص طور پر یہ
مرض ( زبان کا ناجائز استعمال ) عام پایا جاتا ہے۔ جہاں دو چار لوگ آپس میں
مل بیٹھیں وہیں غیبتوں، چغلیوں، عیب جوئیوں ، بدگمانیوں، الزام تراشیوں کا
سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اس لیے خاص طور پر زبان کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ
کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے اپنے قا بو میں رکھ کر انتہائی جائز مقاصد
کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر بات کہنی ہو توبالکل درست، صحیح ، جائز،
معقول اور اچھی کہیں ورنہ خاموش رہیں کیونکہ بہر حال خاموشی بدکلامی سے
ہزار درجے بہتر ہے۔ خاموشی سب سے زیادہ آسان عباد ت ہے۔ خاموشی عالم کی
زینت اورجاہل کا پردہ ہے، عافیت ، امن و سلامتی کے دس میں سے نو حصے خاموشی
میں ہیں۔ خاموشی عقل کو پختہ بناتی ہے،تقویٰ سیکھاتی ہے اور پرہیزگاری عطا
کرتی ہے ،۔ بری ،بیہودہ اور نامعقول بات کہنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔ اچھی
اور نیک بات کہنا خاموش رہنے سے بہتر ہے ۔ کثرت کلام سے تقویٰ و پرہیزگاری
کم ہو جاتی ہے،حساب طویل ہوجاتا ہے، مطالبات بڑھ جاتے ہیں ، ملائکہ کی
شہادتیں زیادہ ہوجاتی ہیں اور بارگاہ قدس سے دوری نصیب ہوتی ہے۔اس لیے کہ
کبائر کی کنجی زبان ہے اس سے جھوٹ، فریب ، فراڈ ، دھوکہ بازی ، گالی گلوچ ،
غیبت، چغلی اوربہتا ن طرازی کی جاتی ہے، اسی کے ذریعے ایک دوسرے کے عیب
نکالے جاتے ہیں ایک دوسرے کوبُرا بھلا کہا جاتاہے ، اسی کے ذریعے جھوٹی
شہادتیں دی جاتی ہیں، دوسروں کا حق مارا جاتا ہے ،اسی سے پاکبا ز لوگوں پر
تہمت لگائی جاتی ہے اور بد گمانیاں کی جاتی ہیں فضول کلام اورغیر نافع
باتوں میں انہماک اسی کے ذریعے ہوتا ہے اور پھر گفتگو کرنے سے آدمی کاپتہ
چل جاتا ہے کہ وہ کس مزاج کا ہے اورکتنا متقی اور پرہیزگار ہے جیسا کہ حدیث
مبارکہ ہے کہ
’’ انسان کی زبان دل کی ترجمان اور چہرہ دل کا آئینہ ہے۔‘‘
اس لیے پہلے تولو اور پھر بولو ، ایک قول ہے کہ ’’ عقل مند سوچ کر بو لتا
ہے اور بیوقوف بول کر سوچتا ہے۔‘‘حدیث مبارکہ ہے کہ
’’محفل (مجلس ) میں ایسی بات کہو جس کا فاہدہ سب کو پہنچے ۔‘‘
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ۔’’قوم کی
مجلس میں بلا مقصد بات کرنے سے تیرے لیے یہ بہتر ہے کہ تو گونگار ہے اور
تیری رالیں سینے میں بہتی ہیں ( یعنی تو کلام نہیں کر سکتا)۔‘‘
حدیث مبارکہ ہے کہ۔’’اگر کوئی شخص سلام کرنے سے پہلے کوئی بات کہے تو اس کی
بات کا جواب مت دو جب تک وہ سلام میں پہل نہ کرے ۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ۔’’ برے ساتھی کی ہم نشینی سے اکیلے رہنا بہتر
ہے اور اچھے ساتھی کے پاس بیٹھنا تنہائی سے بہتر ہے اورکسی کو اچھی بات
بتانا خاموش رہنے سے بہتر ہے اور بری بات بتانے یا کہنے سے خاموش رہنا بہتر
ہے۔‘‘
احادیث مبارکہ میں حضور اقدس ﷺ نے خواتین کے اندر پائی جانے والی جن بیمار
یوں کی نشاندہی فرمائی ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زبان ان کے قابو میں
نہیں رہتی ، ایک حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا
’’ میں نے شب معراج میں اپنی امت کی عورتوں کو جہنم کے اندر طرح طرح کے
عذابوں میں مبتلادیکھا ، ان میں سے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ زبان کے بل
جہنم کے اندر لٹکی ہوئی ہے اس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ۔’’ یہ وہ عورت ہے
جو اپنی زبان سے اپنے شوہر کو تکلیف پہنچایا کرتی تھی۔‘‘ پھر آپﷺ نے
فرمایا۔’’ میں نے ایک عورت کوجہنم میں اس طرح د یکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر
کی طرح ہے اور باقی جسم گدھے کی طرح ہے اور سانپ اور بچھو اس کو لپٹے ہوئے
ہیں ۔‘‘اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ۔’’ یہ وہ عورت ہے جس کو جھوٹ بولنے
اور چغلی کھانے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے ۔‘‘ |