بچپن میں سنا کرتے تھے کہ سیاست میں آنے والے لوگ بہت
ذہین ہوا کرتے ہیں اور ان سیاستدانوں کے بارے میں بزرگوں سے ایسی ایسی
داستانیں سننے کو ملتی تھیں کہ جن کو سننے کے بعد ہم سوچنے پر مجبور ہو
جاتے تھے کہ شائد یہ لوگ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں لیکن جب آہستہ آہستہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخبار ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن عام ہوئے تو پتا چلا
کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ صرف داستانیں تھیں جو عوام کو گمراہ کرنے
کے لئے گھڑی جاتی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب جب سوشل میڈیا کا
زمانہ آیا تو اس نے ان تمام سیاستمداروں اور جھوٹی عزت کے دعویداروں کو
ننگا کر کے رکھ دیا اور ہر ایک کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اچھائی
اور گندگی کو عوام کے سامنے پیش کر دیا ۔
حیرت اس بات کی ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت سے ایسے جاہل
اور عقل سے عاری لوگ موجود ہیں جو اپنے اپنے ساستمداروں کی برائیوں پر پردہ
ڈال کر ان کی عزت کو دوبالا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آ
رہی کہ ان کے ضمیر ان کو کیوں ملامت نہیں کرتے کیا ان کے ضمیر مر چکے ہیں؟
یہ لوگ آخر ہمیشہ ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار '' بننے کی کوشش کیوں کرتے
ہیں ۔
آج اگر عائشہ گلا لئی نے کہہ دیا کہ ان کو پہلا میسج سال 2013 میں ملا تھا
تو اس پر جملے کسے جا رہے ہیں کہ وہ 4 سال تک کیوں خاموش رہی ، اوہ بھائی
بات پر غور بھی کیا کریں اس نے یہ نہیں کہا کہ آخری میسج 2013 میں آیا تھا
بلکہ اس نے کہا پہلا میسج ۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ میسج بعد میں بھی
جاری رہے ۔
اچھا ایک بات !! کوئی بھی شریف انسان ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک
ممکن ہو سکے اپنی اور دوسروں کی عزت کا خیال رکھے اور شریف انسان اس وقت
قدم اٹھاتا ہے جب بات اس کی برداشت سے باہر ہوجائے اور عائشہ گلا لئی نے
بھی وہی کیا کہ پہلے کوشش کی اور اس بے ضمیر کو سمجھایا اوراس سے پوچھا کہ
آپ کیا چاہتے ہیں جب خان صاحب کی طرف سے کوئی معقول جواب نہیں ملا تو عائشہ
نے دوسرا سٹیپ لیا اور پارٹی کی میٹنگوں میں آنا بند کر دیا جب اس طرح بھی
اس بات کا سدباب نہ ہو سکا تو مجبورا اس کو یہ قدم اٹھانا پڑا ، کیوں کہ
کسی بھی انسان کی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنا ردعمل ظاہر نہ
کرے اور رہی بات ان لوگوں کی جو خان صاحب کی نجی پارٹیوں اور کوفتے اور
کباب کی محفلوں کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی چپ ہیں اور خاموش تماشائی بنے
ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ایک ہی ہے یا تو ان کے اندر غیرت ہے ہی نہیں یا پھر
وہ اپنی غیرت کا سودا کر چکے ہیں ۔
اور دوسری بات کہ جو لوگ آج عائشہ پر اعتراض کر رہے ہیں کہ پہلے اس نے یہ
بات کیوں نہیں کی تو ان لوگوں کا جواب یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب ، شیخ
رشید صاحب ، مبشر لقمان اور بہت سے سیاستمداروں اور صحافیوں کو پتا نہیں
تھا کہ نواز شریف کرپٹ ہے وہ کرپشن کر رہا ہے عوام کا مال لوٹ رہا ہے تو یہ
سب پہلے کیوں چپ رہے آج کسی کو 20 سال بعد کسی کو 15 سال بعد ، کسی کو 25
سال بعد یاد آیا کہ نواز شریف کرپشن کر رہا ہے ۔
مجھے اپنے سینئر صحافی مبشر لقمان صاحب کی اس دوگلی پالیسی کی سمجھ نہیں آ
رہی میں آج ہی ان کے پروگرام کھرا سچ کا ایک کلپ دیکھ رہا تھا جس میں وہ
سینئر صحافی عمران خان صاحب کی کردار کشی کر رہے ہیں اور عمران خان کو
اخلاق سے انتہائی گرا ہوا شخص ثابت کرنے کے درپے ہے اور ان کی بیہودہ
تصویریں اور ویڈیو کلپ دکھا رہے ہیں ، کل تک جس خان صاحب کی یہ حالت تھی وہ
آج اتنا نیک اور پارسا کیسے بن گیا اب میں کچھ نہیں کہتا اسی ویڈیو کے نیچے
کسی نے کمنٹ میں لکھا کہ
"اسی ویڈیو کے بعد بھاری لفافہ ملا اور یوٹرن ہوگیا "
اب ان عقل کے اندھوں کو آپ جو بھی کہیں ان کو کچھ سمجھ نہیں آئے گا ان کی
بات تو وہی ہے کہ
ایک ہندو پنڈت کے پاس کچھ ہندو آۓ اور کہا کہ کسی ہندو نے گھوڑے کا گوشت
کھایا ہے اس کی کیا سزا ہے پنڈت سنتے ہی آگ بگولا ہوگیا اور کہنے لگا اس کو
سرعام سزائے موت دینی چاہیے، اب پنڈت نے پوچھا کون ہے وہ ؟ لوگوں نے بتایا
وہ آپ کا بیٹا ہے ، بیٹے کا سنتے ہی پنڈت نے کہا ٹہرو میں ذرا کتابیں دیکھ
لوں کتابیں دیکھ کر پنڈت نے کہا کیونکہ وہ ایک پنڈت کا بیٹا ہے اس لیئے وہ
غلط کام نہیں کر سکتا ضرور اس کے پاس کوئی دلیل ہو گی ۔
اب یہی حال سیاستمداروں کے چمچوں کا ہے نواز شریف جو بھی کرے ٹھیک ہے ،
زرداری جو بھی کرے ٹھیک ہے اور خان جو بھی کرے ٹھیک ہے ۔
جب غریبوں کی عزتیں نیلام ہونا شروع ہو جائیں اور صحافی بکنا شروع ہو جائیں
اور خواتین کو اپنی عزت اپنے ہی گھر کے محافظوں سے محفوظ نطر نہ آئے تو اس
قوم کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا میری تمام دوستوں سے دست بستہ
گزارش ہے خدارا تعصب کی عینک اتاریں اپنے مفادات کو نہ دیکھیں اور ان لوگوں
کی سپورٹ کریں جو واقعا اچھے لوگ ہیں کسی بھی پارٹی کو نہ دیکھیں بلکہ اچھے
لوگوں کو دیکھیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی میں ہوں ۔
خدا وند ہم سب کو تعصب کی جو پٹی ہماری آنکھوں پر بندھی ہے اسے اتارنے اور
سوچنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین |