6 اگست،جوہری ہتھیاروں کی تابکاری اور تباہ کاری

لٹل بوائے نام تھا اس ایٹم بم کا جویورینیم پر منحصر تھا 6اگست 1945کو جاپان کے شہر ہیروشیما کے معصوم شہریوں پر برسایا گیا۔ جبکہ اسکے ٹھیک تیسر ے دن دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پر پلوٹینیم پر منحصر ایٹم بم گرا دیا گیا۔ اس کا نام فیٹ مین تجویز کیا گیا۔جس کا وزن 22ٹن تھا۔اڑھائی لاکھ سے تین لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور ہزاروں افراد بری طرح جھلس گئے۔ ان جوہری دھماکوں سے جو انتہائی حد تک تابکاری اور حدت امیز مواد خارج ہوئے ان کے خطرناک ترین اثرات ابھی تک جاپان کے ان شہروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان علاقوں کے ہر ذی روح کو برسوں گزرنے کے بعدبھی مفلوج اور معذور بنا دینے والے یہ جان لیوا دھماکے آج بھی زیرِ بحث ہیں کہ آیا انکا استعمال صحیح تھا یا نہیں۔بمطابق عینی شاہدین ایٹم بم کے گرنے کے فوراً بعد آکسیجن کے جل جانے سے ستر ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ چند ساعت بعد سارے شہر کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا۔ ہیروشیما کے وہ لوگ جو چند لمحوں پہلے زندہ تھے محض آنکھ جھپکتے ہی ایک ایٹم بم سے انسانی بے بسی کی تصویر بنے موت کے منہ میں چلے گئے۔ سارا شہر اور اس کے تمام خاندان، گھر بار ، کاروبار ، کھیت کھلیان، ہنستے کھیلتے کلکاریاں مارتے بچے سب کچھ ایک ہی منحوس گھڑی میں ایک ملک کی انا کی بھینٹ چڑھ کر ایٹم بم کے ظلم کا شکار ہو گئے ۔ جو ذی روح جس حالت میں تھا ویسے ہی ساکت رہ گیا اور جھلس گیازخمی جو ہو گئے ان کی مدد کرنے والاکوئی نہ تھا۔ ایٹمی تابکاری کے باعث ہنستی کھلیتی زندگی یکدم ایک جھلسی اور شکستہ خدوخا ل لاش کا منظر بن کر رہ گئی۔ پورے کا پوار شہر ایٹم بم کی تباہ کاری کا منہ بولتا ثبوت بن گیا۔

ا مریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی شکست کے خوف کے پیشِ نظر ایٹم بم کو استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ایٹم بم گرانے کے احکامات امریکی صدر ہیری ٹرومین نے دیئے۔جاپانی قوم کی جنگ میں کمر توڑنے کے لئے تیسرے ایٹم بم کو ٹوکیو پر گرانے کی خبر گردش میں تھی کہ جاپانی قوم نے ہتھیار ڈال دئیے۔ ان ایٹم بموں کی تابکاری اور تباہ کاری اتنی شدید تھی کی آج بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی میں اپاہچ اور معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس اندوناک دلخراش واقعے نے نہ صرف جاپان بلکہ عالمی سطح پر سب کو ایٹمی طاقت کے حصول پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اب یہ لازمی ہے۔جاپانی قوم نے وہ تکلیف دہ وقت گزار لیا ۔ مگر انہی لمحات میں ایک مضبوط ولولہ انگیز فیصلے نے جاپانی قوم کو ایک طاقت بخشی۔ اور وہ فیصلہ تھا کہ جاپانی قوم کا اپنی محنت اور ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے بغیر خون خرابہ کے دنیا کو فتح کرلینے کا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ ایمانداری ، ذہانت اور محنت سے جاپانی قوم تعلیم، ٹیکنالوجی ایٹمی طاقت اور زندگی کے ہر ہر میدان میں سب سے آگے ہے۔ آج ساری دنیا میں تقریباً ہر گھر میں ’’میڈ ان جاپان‘‘ کے ٹیگ کے ساتھ کوئی نہ کوئی ضرورتِ زندگی کا سامان موجود ہے ۔ بہر حال عالمی سطح پرایٹمی طاقت کا حصول لازمی ہے تو اسکی تیاری، استعمال اور اسکے فضلے کو مناسب ٹھکانے لگانے کے لئے اقدامات کرنے بھی ضروری ہیں۔ کم و بیش ہر ملک نے آج یہ طاقت حاصل کر لی ہے ۔ یہ ایٹم ہے کیا اور اس کی تابکاری اتنی مہلک کیوں ہے۔اس پر نظر ڈالتے ہیں۔مادے سے تمام مادی اشیا ء وجود میں آئی ہیں ۔ مادے کا چھوٹے سے چھوٹے ذرہ جو اپنی ساخت میں مکمل ہوتا ہے ۔ یہ اپنے اندر مزید ذیلی ذرات نہیں رکھتا ۔ ایٹم ہی مادے کے وجود کا بنیادی عنصر ہے۔ کرہ ارض پر ٹھوس ، مائع اور گیس مادے کی تین صورتیں ہیں۔گرچہ یہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں مگر ان سب کا بنیادی عنصر ایٹم ہے۔ تقریباً (370-460 ( قبل مسیح یونانی سکالر ڈیمو کراطس نے نظریہ پیش کیا تھا کہ ایٹم مادے کا سب سے چھوٹا مگر بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ایٹم دراصل یونانی زبان کے لفظ atomos سے نکلا ہے جسکا لفظی مطلب ــ’’ناقابل تقسیم‘‘ ہے۔ قدیم عرب کے فلاسفر بھی اس بات پر متفق تھے ۔ عربی زبان میں ’’ ذرہ‘‘ کا مطلب ایٹم ہی ہے۔2300سال تک قائم رہنے والے اس نظریے کو 1803 میں ایک سائنسدان جان ڈالٹن نے ایٹم کو مثبت برقی قوت کے حامل ذروں اور منفی الیکٹرونز سے بھرپور قرار دیا۔ ان ہی تجربات کو آگے بڑھاتے ہوئے 1897 میں الیکٹرونز کو دریافت کیا گیا۔ 1911میں ایٹم کے مرکزی حصے نیوکلس اور 1918 میں نیوکلس کے اندر نیوٹران کی دریافت ہوئی۔ سائنسدانوں کی گوناگو جدو جہد کے بعد یہ قوت ایک جوہری توانائی کی شکل میں سامنے آئی۔ یہ جوہری توانائی اب جوہری اسلحہ کے روپ میں ملکوں اور ان کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اسکو مرکزی اسلحہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں طرحبند مرکزی اسلحہ یا نیوکلر ویپن ڈیزائن پہلی قسم ہے ۔جسکو توانائی کے انشقاق سے حاصل کرتے ہیں۔ انکو ایٹم بم یا جوہری قنبلہ کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم اشقاقی قسم کی نسبت ہزار گنازیادہ تباہ کن صلاحیت کی حامل ہے ۔ اسکو ہایڈروجن بم یا ابساز قنبلہ کہا جاتا ہے ۔آج یہ طاقت کسی بھی ملک کی حفاظت اور اسکی انفرادی حیثیت کو منوانے کے لئے ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔2011میں زلزے سے متاثر ہونے کے باعث جوہری پاور پلانٹ کے آس پاس تابکاری شعاعوں کی سطح بہت بلند ہو گئی۔ جس کے باعث ارد گرد کے شہروں کو فوری خالی کروایا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر جوہری حملوں کے بعد یہ پہلا بحران تھا جس سے جاپان کو گزرنا پڑا۔ مگر عالمی طور پر دوسرا بحران تھا اس سے پہلے یوکرین کے شہر چرنوبل میں 1986جوہری پاور پلانٹ میں دھماکہ ہوا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مہلک طاقتور ہتھیار اور اس کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے یہ ممالک اپنے عوام کو شعور و آگاہی دے رہے ہیں یا صرف ایٹمی طاقت ہونے کے دعویدار کہلانا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر خدانخواستہ کسی دشمن ملک کا ایٹمی حملہ ہو تو عوام اس حد تک باشعور ہوں کہ کم سے کم نقصان ہو۔ بہت سے یورپی ،کچھ ایشائی ممالک جن میں جاپان بھی شامل ہے میں ایٹمی حملے سے بچاؤ کے لئے خاص تربیت دی جاتی ہے۔ عموماً اس ساری تربیت میں سفید رنگ کے استعمال اور سفید رنگ کے لباس کو پہننے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ہیروشیما اور ناگا ساگی کے حملوں کے بعد جاپانی قوم نے ایک ایک پہلو کا بغور جائزہ لیا تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ سفید لباس والے افراد کچھ کم حد تک جھلسے گئے تھے۔ بہر حال جہاں جاپانی قوم نے ہمت نہ ہارتے ہوئے ایٹمی صلاحیت کو اپنی سرحدوں کی حفاظت اور ملکی مفاد کے لئے ضروری قرار دیا ، وہیں انہوں نے اس سے بچاؤ کی تدابیر بھی ڈھونڈ نکالی ۔ ایٹمی طاقت کا ہونا اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے مگر اس کے فضلے کو مناسب طور پر ٹھکانے لگانے کے لئے بھی اقدامات لازمی ہیں۔ ایٹمی فضلہ دراصل وہ مواد ہے جو ایٹمی یا جوہری توانائی کی تیاری اور اسکے مثبت یا منفی استعمال کے بعد بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ بعض ممالک تو اس بات پر بھی غور کررہے ہیں کہ کیا اس ایٹمی فضلہ کو خلائی حدودیا سمندروں میں بھیج یا پھینک دیا جائے۔ اس کے جونزدیک یا دوررس اثرات ہیں اس پر تا حال غور کیا جا رہا ہے ایٹمی فضلہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ارضیاتی دفن کیاجاتا ہے وہاں کی نہ صرف نزدیکی آبادی بلکہ ہر ذی روح کی زندگی ، صحت اور افزائش کو لا متناہی خطرات لاحق ہیں۔ ان کے اثرات چند مہینوں میں نہیں بلکہ اگلی صدیوں تک ختم نہیں ہو سکیں گے۔ جن علاقوں میں ان کو ارضیاتی مدفون کیا گیا ہے وہاں کے رہائشیوں میں اسقاط حمل، بچوں کی معذوری، ہڈیوں کے بگاڑ، دماغی کمزوری، جلدی بیماری، خون کی کمی، بانجھ پن، کینسر ، جسم پر اضافی اعضاء کی نشوونمااور دیگر خطرناک بیماریوں نے گھر کر لیا ہے۔ جانوروں کے سُم یعنی پیروں کی غیر معمولی طور پربڑھوتی، ان کے جسم پر سے بالوں کا جڑ جانا اور ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ نباتاتی طور پر وہاں کی زمین کسی بھی فصل کے قابل نہیں ہے جبکہ پینے کے پانی کی شفافیت تو دور کی بات ہے۔ حاصل بحث کہ ایٹمی طاقت کا حصول وقت کی ضرورت ہے اور ملکی مفاد کے لئے لازم ملزوم بھی۔ اگر خدانحواستہ حملہ ہو تو عوام اتنی تربیت یافتہ ہو کہ کم سے کم نقصان ہو۔ ایٹمی فضلے کے ٹھکانے کا پایئدار اور مستقل حل ڈھونڈا جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں آنے والی نسلوں کو ایٹمی تباہ کاری اور تابکاری کے اثرات سے صدیوں نبرد آزما نہ ہونا پڑے۔ کسی بھی طاقت کا حصول اور اس کا استعمال اگر فلاح انسانیت اور فلاح قدرت کے لئے ہو تو اس کے مثبت نتائج ماضی کی شکستہ حالی کو حال کی مضبوطی او ر مستقبل کی خوشحالی میں بدل دیتی ہے ۔

Farah Naz
About the Author: Farah Naz Read More Articles by Farah Naz: 2 Articles with 4467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.