نیم حکیم خطرہ جان ،نیم ملا خطرہ ایمان

جب سے پانامہ کیس کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کیا، اس کے حوالے سے بے شمار تبصرے اور آراء حمایت اور مخالفت میں سامنے آرہے ہیں۔ سب اپنی اپنی بساط کے مطابق وکیل، اور جج بن کر اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں،اگر کسی ٹی وی چینل پہ بیٹھا ہوا کوئی اینکر ہو یا کسی اخبار سے وابستہ رپورٹر یا صحافی ہو،یا سوشل میڈیا پہ بیٹھے ہوا جم غفیر سب ایسے ایسے دلائل اور نقاط سامنے لا رہے ہیں اور پھر موقع پر ہی فیصلے صادر کرتے نظر آتے ہیں،کوئی پل بھر میں محرم سے مجرم بناتا ہے اور کوئی مجرم سے محرم،سب اپنی اپنی بساط کے مطابق جج کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں اور وکیل کا بھی، ناقد کا بھی ماہر قانون کا بھی اور ماہر سیاست کا بھی۔حیرت کی بات نہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ روش عام ہے، ہر اس موضوع پہ رائے زنی کرنا جس کی الف بے سے بھی واقفیت نہ ہو۔ خاص طور پہ ہمارے ہاں ٹی وی چینلز پہ بیٹھے اینکرز خواتین و حضرات کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، تعلیم تو انہوں نے شاید ماس کمیونکیشن میں حاصل کی، بعض تو اس سے بھی محروم ہیں، لیکن جب وہ سیاسیات، سماجیات،دفاعی امور، حالات حاضرہ، بین الاقوامی سیاست،میڈیکل سائنس، وغیرہ وغیرہ پہ اس طرح سے اپنی آراء اور ماہرانہ نتائج پیش کرتے ہیں جیسے یہ عقل کل ہیں،سارے جہاں اور دنیا بھر کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے اگر ماہر ہیں تو یہ ہیں اور عوام ان نکالے ہوئے نتائج کو نہ صرف تسلیم کرے بلکہ ان کو اڑھنا بچھونا بھی بنائے۔اچھا یہ روش ٹی وی چینلز تک محدود نہیں ہے، اگر سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو وہاں بھی بیک وقت آپ کو ایسے ہی“عقل کل““ اور کیا کہتے ہیں کرکٹ کی زبان میں آل رائونڈرز نظر آئیں گے۔لہذاآپ کو یہ جاننا ہو کہ پاکستانی سیاست میں کیا خامیاں ہیں اور انہیں کس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے؟تو سوشل میڈیا کی پوسٹ پڑھنا شروع کر دیں، اگر ملکی فوج اور اس کے اداروں کو کیسے چلنا یا چلانا ہے تو جناب سوشل میڈیا سے رجوع فرمائیں۔ اگر مذہب یا فرقہ کے بارے میں رائے چاہئے تو سوشل میڈیا پہ آ جائیں، حتیٰ کہ کوئی بھی ایسا موضوع یا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں ماہرانہ آراء اور حتمی نتائج کے بارے میں آپ کو کسی ایک ہی صارف سے معلومات مل سکتی ہیں۔

اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہر دوسرا آدمی ماہر قانون بھی ہے، ماہر سیاست بھی ہے، ماہر عدالت بھی ہے، ماہر دفاعی امور بھی ہے، ماہر سماجیات بھی ہے۔۔۔۔ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ““نیم حکیم خطرہ جان،نیم ملاں خطرہ ایمان““ کی کیفیت اس وقت عروج ہے۔۔۔۔یہ نیم حکیم اور نیم ملاں معاشرے کو مزید نظریاتی اور فکری بیماری میں مبتلا کر رہے ہیں۔۔۔۔جاہلوں کے یہ ٹولے پڑھے لکھے انداز میں معاشرے کو نظریاتی انتشار کا شکار کر رہے ہیں۔۔۔بلکہ ذہنی بیمار بنا رہے ہیں۔۔۔اس قماش کے کچھ آل راونڈرز ایسے بھی ہیں جو میڈیا کے مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ریاست ہی کو کمزور کرنے کی روش پہ پوری تندھی سے کام کر رہے ہیں، وہ ہمیشہ اسی تاڑ میں رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی خبر آئے، کوئی ایشو مل جائے اور وہ ماہر سیاست، ماہر دفاعی امور، ماہر بین الاقوامیات کی حیثیت سے ایسی ایسی چھوڑتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔۔۔۔اب اس طرح کی ڈس انفارمیشن پھیلانے والوں کو ترقی پسند، لبرل، جمہوریت پسند، آزاد خیال وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے، ایک اس قبیل سے تعلق رکھنے والا “نیم حکیم یا نیم ملاں““ ریاستی اداروں پہ کیچڑ اچھالتا ہے،ہو سکتا ہے خود اس کے پاس بمشکل انٹر سطح کی تعلیم ہو اور کچھ این جی اوز وغیرہ تجربہ ہو اور ہاں کچھ بیرون ملک دوروں اور سیمناروں کا ریکارڈ ان کی “سی وی“ میں موجود ہو،۔۔۔لیکن جناب جب وہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں پہ رائے زنی کرنے بیٹھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی ملٹری سٹاف کالج، اور دفاعی امور کی کسی یونیورسٹی کے ڈگری ہو لڈر ہیں، اور خاص طور پہ ملٹری اسٹریجک کے علوم و فنون میں انہوں نے مہارت حاصل کر رکھی ہے۔اور انٹرنیشنل سیاسیات پہ انہون پی ایچ ڈی کر رکھی ہو، اور انسانی حقوق پہ انہوں نے ایم فل کی تعلیم پائی ہو، اور ان کی ساری زندگی ان شعبہ جات میں تجربات حاصل کرنے میں گذری ہو۔۔۔اور پھر ان کے نام نہاد تبصرے اور نتائج نکالنے کی رفتار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ کس کی زبان ،کس مقصد کے لئے بول رہے ہیں؟؟؟اور کس موقع پہ بول رہے ہیں؟؟اور کن قوتوں کو تقویت فرام کر رہے ہیں؟

خاص طور پہ اس طرح کے ٹولے کو سامراجی بلاک کی طرف سے خاص پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔۔۔یہ خوب بیرون ملک دوروے فرماتے ہیں۔۔۔عالمی سطح کی این جی اوز سے ان کو انعام و اکرام ملتا ہے۔۔۔۔اور اس طرح سے ایک طرف یہ ریاستی اداروں کو خوب بدنام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف انہیں حقوق انسانی اور جمہوریت کا چیمپئن بنا دیا جاتا ہے۔۔۔یعنی““رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی““ چونکہ آج کل پانامہ کیس کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔۔لہذا یہی نیم حکیم اور خاص طور““ترقی پسند““ٹولہ تیزی سے حرکت میں آ گیا۔۔۔اور پوری تندہی سے سپریم کورٹ پہ تنقید شروع کر دی۔۔۔اور بطور خاص فوج کو اس میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔۔ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ کرپشن کے کیس میں وزیر اعظم کو ناہل قرار دینے میں سپریم کورٹ سازش کا شکار ہوئی ہے۔۔۔۔یہاں تو فائدے اٹھائے جا رہے ہیں ایک تو ملک کے عدالتی نظام کو مشکوک قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری طرف فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے۔۔۔دونوں ادارے ریاست کے تحفظ کے ذمہ دار ادرے ہیں۔۔۔۔اب اس ٹولے کی ایک سرغنہ کہنے کو تو وہ قانون دان اور انسانی حقوق کی علمبردار ہے لیکن اسی قانون کو جو ایک ملک کی غریب عوام کا پیسہ چوری کرنے کے الزام میں ایک ایلیٹ خاندان کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو اس کو ہی مشکوک قرار دینے پہ تلی ہوئی ہے۔۔۔اس کا کہنا یہ کہ اسے “اس فیصلے میں ملٹری کے فٹ پرنٹس“نظر آ رہے ہیں۔۔۔۔تعجب ہے کہ اس خاتون کو ““فٹ پرنٹس“ملٹری کے ایک دم نظر آ جاتے ہیں۔۔۔لیکن اسے اس ملک میں ہونے والی دیگر بے انصافیاں، استحصال، لوٹ مار اور کرپشن نظر نہیں آتی۔۔۔یہ کسی موسمی بٹیرے کی طرح کسی ایک ریاست مخالف عنوان کو لے کر واویلا کرتی ہے اسے عالمی میڈیا اور خاص طور پہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے ممالک کی خاص پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔اور پھر خاموش ہو جاتی ہے۔۔۔۔اسے ہر روز گلیوں اور شہروں میں گرتی لاشیں نظر نہیں آتیں۔۔۔۔۔اسے کبھی ریاست پاکستان کے خلاف خفیہ اور ظاہر طور پہ لڑنے والی ایجنسیاوں کے “فٹ پرنٹس“ نظر نہیں آتے،اس کا انٹیلیکچئول ازم صرف اس کو پاکستان ملٹری اور آئی ایس آئی تک محدود کئے ہوئے ہے۔۔۔۔یہ نام نہاد انسانی حقوق کی چیمپئن ہے لیکن یہ شاید ملٹری اٹریجک ایکسپرٹ بھی ہے۔۔۔۔اس کو شاید کسی نے یہ سمجھا دیا ہے کہ آئی ایس آئی کوئی پاکستانکی حفاظت کرنے والا ادارہ نہیں ہے بلکہ اسے تباہ کرنے والا ہے۔۔۔کیونکہ اگر اس ملک کی سپریم کورٹ کسی پاکستانی ادارے کو تحقیقات کرنے کا حکم دیتی ہے تو اس کو سخت تکلیف کیوں ہوتی ہے۔۔۔۔۔اگر سپریم کورٹ یہ دیکھتی ہے کہ نیب اور دیگر تحقیقاتی ادارے اپنا کام صحیح طور پہ انجام نہیں دے رہے تو وہ ملٹری کے تحقیاتی ادارے سے مدد لیتی ہے تو اس سے کیا سپریم کورٹ اور اس کے کئے گئے فیصلے مشکوک ہو جائیں گے؟؟؟؟دراصل اس عورت کی چیخ و پکار کے پیچھے وہی تعصب اور ریاست مخالف قوتوں کی آبیاری ہے۔۔۔۔لیکن شاید اس کو معلوم نہیں کہ اس ملک کی نئی نسل خاص طور پہ ایسے بہروپیوں کو پہچانتی ہے۔۔۔اور ہر سطح پہ ملک کو کمزور کرنے والوں کا محاسبہ کر رہی ہے۔۔۔۔
بات وہی ہے کہ یا تو خود جج بن جائو یا ججز کے فیصلوں کو مانو۔۔۔۔یا تو خود چیف آف آرمی سٹاف بن جاو یا جو ہے اس پہ اعتماد کرو۔۔۔کیونکہ سب ادارے اس ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔۔۔۔۔اگر تمہیں زیادہ تکلیف ہے تو کسی ملٹری اٹریٹجک پہ تربیت دینے والے ادارے میں کچھ عرصہ اپنے شعور کو بہتر کر لو۔۔۔۔۔کہ اس وقت دنیا بھر میں کس طرح کی جنگیں ہو رہی ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟

ضروت اس مر کی ہے کہ جو جس کا شعبہ ہے اسے وہ کام کرنے دیں۔۔۔۔۔جب آپ صائب رائے نہیں یعنی اس شعبے کے ماہر نہیں اس پہ رائے زنی کا حق بھی آپ کو نہیں۔۔۔۔کسی ماہر سے اس کی رائے پوچھیں اور اس پہ عمل کریں۔۔۔وگرنہ جھوٹ پہ جھوٹ بولنا اور““نیم حکیم اور نیم ملاں““کا کردار ادا کرنے سے جان اور ایمان دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 134607 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More