زبان کی لغویات

زبان کی بہت سی لغویات ہیں جو اندھے منہ آدمی کو جہنم میں دھکیل دیتی ہیں اور آدمی کو خبر بھی نہیں ہوتی ہیں جبکہ وہ جہنم کا مستحق قرار پا چکا ہوتا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا۔
’’جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنی زبان کے کرتوتوں کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے مثلاً جھوٹ بول دیا، کسی کی عیب جوئی کر دی ، کسی کی چغلی کھا لی ، کسی کی غیبت کر دی ، کسی کادل دکھا دیا ،کسی کی بدگمانی کی، کسی کی تکلیف پر خوشی کا اظہار کیا وغیرہ۔‘‘ (ترمذی، کتاب الایمان)
1۔ غیبت: غیب یہ ہے کہ ’’ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی اس طرح بدی ، برائی بیان کرنا کہ اگر اس کو معلوم ہو جائے تو وہ اس کو برا لگے اور ناپسند کرے۔مثلاً کسی شخص میں کوئی عیب، خرابی یا برائی ہے اور کوئی جا کر کسی دوسرے کو بتا دے یہ فلاں شخص میں یہ عیب اور برائی ہے تو یہ غیبت ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔’’ ایک آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی وہ بدی یا عیب بیان کرے جو اس میں موجود ہے تو یہ غیبت ہے اور یہ زناء سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔‘‘
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی میں ایک آدمی کے بارے میں کہا کہ وہ بہت سوتا ہے ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ۔’’ تونے اپنے بھائی کی غیبت کی، اس سے درخواست کرو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے۔‘‘
ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے کہا کہ ’’ فلاں شخص کس قدر عاجز ہے‘‘ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ۔’’ تم نے اسے کھایا یعنی اس کی غیبت کی۔‘‘
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کسی عورت کے بارے میں کہا کہ وہ جھوٹی ہے۔اس پر حضور ﷺ نے انہیں ڈانٹ دیا ، فرمایا ’’ تونے اس کی غیبت کی، تو نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر اس میں سمندر کا پانی ملایا جائے تو مل جائے۔ یعنی اس میں مزید باتیں شامل کر کے اس کو بتائی جا سکتی ہیں کہ فلاں نے آپ کے بارے یہ یہ کہا۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ اگر تم نے اپنے کسی مسلمان بھائی کے بارے میں ایسی بات کہی کہ اس میں تم نے اس کی اچھائی ، خوبی،طہارت و پاکیزگی بیان نہ کی تو یہ غیبت ہے۔‘‘
اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’ مسلمان بھائی کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہی جائے جو وہ سن لے تو اسے ناگوار گزرے، اگر وہ بات سچی ہے تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے۔‘‘
حضور سیّد عالم ﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ ’’ میں نے معراج کی رات ایک منظر یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ تانبے کے ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ۔’’ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کاگوشت کھایا کرتے تھے، یعنی لوگوں کی غیبت ، آبرو ریزی اور عزت نفس کو پامال کرتے تھے۔‘‘ ( مشکوٰۃ شریف)
جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذاء و تکلیف ہوتی ہے اس طرح کسی کی بدگوئی کرنے بھی اسے اتنی ہی قلبی تکلیف پہنچتی ہے اور در حقیقت آبرو گوشت سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا فرمایا
وَلَآیَغْتَب بَّعْضُکُمْ بَعْضاً ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِھْتُمُوْہُ وَاتَّقُوْا اللّٰہ اِنَّ اللّٰہ تَوَّابٌ رَّحِیُمٌo
’’ اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ ہرگز تم یہ گوارا نہ کرو گے، تو اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (الحجرات 12:49)
حدیث مبارکہ ہے۔
اَلْمُسْلِمُ اَخُوْا اَلْمُسْلِمِ لَاَ یَظْلِمُہٗ وَلاََ یَخْزُلَہٗ وَلَاَ یَغْتَابُہٗ وَلَاَ یَحْزُنُہٗ وَلَاَ یَحْرُمَہٗ
’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے چھوڑتا ہے تنہا مشکل وقت میں، نہ اس کی غیبت کرتا ہے، نہ غمگین کرتا ہے اور نہ اسے اس کے حق سے محروم کرتا ہے۔‘‘
غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ غیبت کرنے والے کو توبہ کرنا لازم ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی جائے وہ اس کے لئے دعائے مغفرت کرے۔ کیونکہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور اسلام نے حقوق العباد کو دوسرے تمام فرائض الغرض حقوق اللہ پر بھی ترجیح دی ہے۔اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم ہے وہ اپنے حقوق اپنے بندوں کو معاف کر دے گا مگر بندوں کے حقوق ’’ حقوق العباد‘‘ اس وقت تک معاف نہیں کیے جائیں گے جب تک وہ متعلقہ بندہ معاف نہ کرے۔ اس لیے ہمیں دنیاوی زندگی میں خاص طور پر بندوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے، ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں نقصان کا اندیشہ ہے۔
2۔ چغلی: چغلی اور غیبت میں تھوڑا سا فرق ہے۔ غیبت تو یہ ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی اس طرح برائی بیان کرنا کہ اگر اس کو معلوم ہو جائے تو اسے ناگوار گزرے۔ جبکہ چغلی یہ ہے کہ ’’ کسی شخص کی بدی، برائی اس کی پیٹھ پیچھے اس کے کسی عزیز، رشتہ دار یا دوست وغیرہ سے اس نیت سے بیان کی جائے کہ دونوں میں جدائی و دوری ہو جائے، ان میں بدگمانی و انتشار پیدا ہو۔‘‘ چغلی کا گناہ غیبت کے گناہ سے بڑھ کر ہے، اس لیے کہ غیبت میں تو صرف دوسروں کی برائی مقصود ہوتی ہے لیکن چغلی میں برائی کے ساتھ ساتھ یہ مقصد بھی ہوتا ہے کہ ان کے درمیان فتنہ، لڑائی جھگڑا، انتشار اور ناراضگی پیدا ہو جائے اور جو ان میں دوستی، محبت، حسن سلوک،ہمدردی و رواداری کا تعلق ہے وہ ختم ہو جائے۔ چغلی حرام ہے کیونکہ اس سے نہ صرف گھر بلکہ پورے معاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’ بد ترین بندے وہ ہیں جو چغلی کھاتے پھرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں۔‘‘
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ’’ جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اللہ عزوجل کی رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔‘‘ ترمذی شریف
ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’ خرابی اور نامرادی ہے اس شخص کیلئے جو جھوٹی باتیں اس لیے بیان کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ بولنے اور بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی اجازت نہیں ۔ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ بولنے والا ہر گناہ کر لیتا ہے مگر کسی گناہ کا اقرار نہیں کرتا۔ چغلی کے اندر جھوٹ کا ہونا لازم ہے کیونکہ اس کے بغیر چغلی چل ہی نہیں سکتی۔ جو شخص جھوٹ اور چغلی سے پرہیز کرے وہ ایک نہ ایک دن ہر گناہ سے توبہ کر لیتا ہے۔
جھوٹ اور چغلی وغیرہ بھی حقوق العباد میں داخل ہیں اور کبائر میں سے ہیں اور ان سے توبہ کرنا لازم ہے۔ ان کا کفارہ بھی وہی ہے کہ متعلقہ بندہ انہیں معاف کر دے اور ان کیلئے بخشش و مغفرت کی دعا کرے ۔
3۔ عیب جوئی: مسلمانوں پر ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنا ، ایک دوسرے کے عیب نکالنا، کسی کا مخفی راز افشاں کرنا،یا کسی کے چھپے راز کی جستجو میں رہناحرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔
’’ عیب جوئی اتنا گندہ لفظ ہے کہ اگر اسے سمندر میں گھول دیا جائے تو پورے سمندر کو گندا کر کے رکھ دے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ
’’ گمان کرنے سے بچو، گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو، ان کے ساتھ حرص و حسد، بغض و کینہ نہ رکھو، ان کے ساتھ بدسلوکی و بے مروتی نہ کرو۔ اے اللہ کے بندہ! بھائی بھائی بنے رہو، جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل و رسواء کرے، نہ اس کی تحقیر کرے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے (یہاں کے لفظ سے آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ انسان کے سینے میں ہے) آدمی کیلئے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی تحقیر کرے یا حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر حرام ہے اپنے مسلمان بھائی کا خون، اس کی آبرو، اس کا مال۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں، صورتوں کو نہیں دیکھتا، وہ تمہارے عملوں پر نظر رکھتا ہے اور تمہارے دلوں سے بھی خوب واقف ہے۔‘‘
(بخاری و مسلم شریف)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’جب ایک آدمی گھر سے نکلتا ہے تو اس کا دین، اس کا ایمان اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن جب وہ گھر لوٹ کے آتا ہے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ بازار میں کسی سے کہتا ہے تو ایسا ہے تو ویسا ہے۔ جب کسی سے ملتاہے یا کسی محفل میں بیٹھتا ہے تو کسی کو کہتا ہے تو ایسا ہے تو ویسا ہے، تو یہ کرتا ہے تو وہ کرتا ہے، یا کسی کے بارے میں کہتا ہے کہ فلاں ایساہے، فلاں ویسا ہے، فلاں یہ کرتا ہے فلاں وہ کرتاہے،کسی کا گلہ کر دیا، کسی کا شکوہ کر دیا، کسی کی غیبت اور کسی کی چغلی کھا لی،کسی پر بہتان لگایا اور کسی پر تہمت کی، کسی کا ہنسی مذاق اڑا دیااس طرح کر کر کے وہ اس حال میں گھر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ دین و ایمان سے خالی، اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار گھر واپس لوٹتا ہے۔‘‘
حضرت سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کسی برائی کو دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کرے گا تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘ (کنز العمال)
ایک اور حدیث شریف میں اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں کہ ۔’’ جو بندہ دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گاتو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
4۔ بدگمانی: کسی کی ظاہر ی صورت دیکھ کر اس کے بارے میں غلط گمان کرنا، غلط سوچنا،غلط خیال کرنا، مثلاً یہ کہنا کہ یہ آدمی ایسا ہو گا، ویسا ہو گا، یہ کرتا ہوگا، وہ کرتا ہوگا، یا کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کوئی غلط تدبیر کرنا، بدگمانی کہلاتی ہے۔ مسلمانوں پر ایک دوسرے کی بدگمانی کرنا حرام اور ناجائز ہے، بلکہ یہ ایک انتہائی سنگین اور نا قابل معافی جرم ہے۔ اس بارہ میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں
یَایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوْا
’’ اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو، بیشک گمان گناہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے عیب ( چھپے راز ) کی جستجو میں نہ رہو۔‘‘ (الحجرات 12:49)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ’’ایک شخص حضور نبی کریم ﷺ کی مجلس کے قریب سے گزرا، اس کا جسم بہت نحیف و کمزور تھا۔ حاضرین محفل نے کہا ۔ ’’ اے کاش! یہ جسم اللہ کی راہ میں دبلا پتلا ہوتا ( یعنی انہوں نے اس شخص کے بارے میں غلط گمان کیاکہ شاید اس کا جسم برے اور غلط کاموں میں دبلا پتلاہوا ، کاش اللہ تعالیٰ کی راہ میں نحیف و کمزور ہوتا۔ تو حضور اقدس ﷺ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا
1۔ شاید ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ پر محنت کرتا ہو، ان کی خدمت میں رہنے اور ان کے لئے حلال روزی کمانے کی وجہ سے دبلا پتلا ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو یہ جہاد ہے۔
2۔ شاید ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی خدمت و پرورش اور ان کیلئے رزق مہیا کرنے کی وجہ سے دبلا پتلا ہو گیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو یہ جہاد ہے۔
3۔ شاید ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے نفس پر محنت کرتا ہو، اپنی جان کیلئے محنت کرتا ہو، اپنی جان کیلئے محنت کر کے روزی کماتا ہو، تاکہ اپنے نفس کو لوگوں سے بے نیاز کر دے یعنی اسے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ اگر ایسا ہے تو جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ (تفسیر در منشور)
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کے غلط گمان کی مذمت کرتے ہوئے اس شخص کے بارے میں تین نیک گمان کیے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی کی ظاہری صورت دیکھ کر اس کے بارے میں ہرگز غلط گمان نہیں کرنا چاہیے ، مثلاً کسی نحیف و کمزور،دبلے پتلے شخص کو دیکھ کر یہ ہرگز گمان نہیں کرنا چاہیے کہ یہ بدکار ہوگا، شرابی ہو گا، زانی ہوگا، وغیرہ وغیرہ جس کے باعث یہ اتنا کمزور ہو گیا ہے۔ ہمیشہ کسی شخص کے بارے بدگمانی سے بچو، بلکہ اگر ہو سکے تو ایسے شخص کے بارے میں ( خواہ وہ جیسا بھی ہو)، ہمیشہ نیک گمان کرو ورنہ خاموش رہو کیونکہ خاموشی بہر حال بدگمانی و بد کلامی سے ہزار درجے بہتر ہے اور سب سے آسان ترین عبادت ہے۔
5۔ غلط نام سے منسوب کرنا: کسی مسلمان بھائی کو کسی غلط نام سے پکارنا یا منسوب کرنا بھی بہت بری بات ہے اور کبائر میں سے ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو ایسے ناموں سے پکارتے ہیں جو ان میں چھپے عیب، بدی و برائی کو ظاہر کرتے ہیں جو اس میں پائی جاتی ہے جو کہ انتہائی غلط ہے۔ مثلاً کسی کو جھوٹا، مکار، دھوکے باز، فریبی، لالچی، نشی، شرابی، زانی وغیرہ کہنا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے ( جو کبھی اس میں پائی جاتی تھی ) سے توبہ کر لی ہو تو اس کے بعد اسے اس برائی سے عار دلانا بھی اس میں داخل ہے اور ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ کسی مسلمان کو کتا، بلا، گدھا، سور، خنزیر وغیرہ کہتا بھی ممنوع ہے۔الغرض کسی مسلمان کو اس کے حقیقی پورے نام سے پکارنے کی بجائے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا ، کسی دوسرے غلط نام سے پکارنا ، یا کسی ایسے نام سے بلانا جس سے اس کی برائی نکلتی ہو، اس کی کوئی کوتاہی عیاں ہوتی ہو اور وہ اس کو ناگوار ہو یا اس کے نام کو بگاڑ کر پکارنا ناجائز اور حرام ہے اور فاسق ہونے کی علامت ہے۔ جو اپنے کسی مسلمان بھائی کو اس کے حقیقی (پورے) نام کی بجائے کسی دوسرے غلط نام سے پکارتا ہے وہ فاسق ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
یَایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوُمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءِ عَسیٰ أَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِط بِءْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولِٰئکَ ھُمُ الظَّلِمُوْنَo
اے ایمان والو! مرد ، مردوں پر نہ ہنسیں ( یعنی امیر غربیوں کی ہنسی نہ بنائیں، نہ عالی نسب ذی نسب کی، نہ تندرست اپاہج کی، نہ آنکھ والا نابینا کی، نہ کم نظر کی، نہ زبان والا گونگے کی، نہ کان والا بہرے کی ہنسی مذاق اڑائے) عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہترہوں اور نہ عورتیں، عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ زنی نہ کرو اور ا یک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا۔اور جو اس سے توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں۔ (الحجرات 49 : 11 )
اس آیت پاک سے محقق ہوا جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی ہنسی مذاق اڑائے،یا اس کو اس کے حقیقی نام کی بجائے کسی دوسرے غلط نام سے مخاطب کرے جس سے اس کی کوئی بدی یا عیب ظاہر ہوتا ہو وہ فاسق ہے۔ ہاں البتہ تعریف کے الفاظ جو سچے ہوں اوراس سے اس کی اچھائی یا خوبی نماہوتی ہو ممنوع نہیں۔
6۔ تہمت، بہتان بازی: تہمت ، بہتان بازی سے مرادکسی پر جھوٹ باندھنا، کسی پر جھوٹا الزام لگانا، کسی کی ذات میں، صفات میں، عادات و اطوار میں، رہن سہن، چال چلن یا صورت و کردار میں عیب نکالنا، الزام تراشی کرنا۔ مثلاً کسی پارسا مسلمان مرد یا عورت کو زانی کہنا یا یہ کہنا کہ تو اپنے باپ سے نہیں، یا اس کے والد یا والدہ کا نام لے کر کہنا کہ تو اس کا بیٹا یا بیٹی نہیں جبکہ اس کے ماں باپ پارسا ہوں، یا کسی اور فجور کی تہمت لگانامثلاً یہ کہنا کہ تو بڑا خبیث ہے ، کمینہ ہے، گندا ہے، فریبی ہے، ذلیل ہے، لالچی ہے، کنجوس ہے، بدکار ہے، فاجرہے، فاسق ہے، کاذب ہے، مکار ہے، دھوکے باز ہے، خائن ہے، مخنث ہے، بد دیانت ہے، جوئے باز ہے، سود خور ہے، رشوت خور ہے، حرام خور ہے، حرام زادہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو غیبت ہے ورنہ تہمت اور بہتان ہے۔
بہتان بازی ایک انتہائی قبیح حرکت ہے اور ایک سنگین ناقابل معافی جرم ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں بجز اس کے کہ وہ متعلقہ بندے سے معاف کروائے اور پھر وہ اسے دل سے معاف کر کے اس کے کیلئے صدق دل سے بخشش کی دعا بھی کرے،ورنہ اس کا کوئی متبادل طریقہ یا کفارہ نہیں اور اللہ کریم کا بھی یہ واضح فرمان ہے کہ میں اپنے بندوں کے حق ( حقوق العباد) اس وقت تک معاف نہیں کروں گا جب تک وہ بندہ اسے معاف نہ کردے۔
بعض اوقات لوگ محض شکوک و شبہات میں پڑ کر بدگمانی اور بہتان تراشی کر کے اپنا آباد گھر اپنے ہاتھوں برباد کر دیتے ہیں۔ شک کی بنا ء پر کبھی میاں نے بیوی کو زانیہ، بدکار، حرام زادی وغیرہ کہہ دیا ، کبھی بیوی نے شوہر کو کسی غیر عورت کے ساتھ منسوب کر دیا، اس کو زانی، بدکار وغیرہ کہہ دیا ، اور اپنے خاندان پر ایسا دھبہ لگا دیا جس کو سات سمندر کا پانی مل کر بھی نہ دھو سکے۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہے جو ا س میں نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ’’ روغۃ الخبال‘‘ ( جہنم میں ایک مقام ہے جہاں دوزخیوں کا خون اور پیپ جمع ہوتا ہے) میں داخل کرے گا۔‘‘ ( ا بو داؤد شریف)
حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگانا سوسال کی نیکیوں کو برباد کرنا ہے۔‘‘
امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ۔’’کسی بے قصور پر بہتان باندھنا ( بجا الزام تراشی کرنا) آسمانوں سے بھاری گناہ ہے۔‘‘
حضرت سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنی باندی کو زانیہ کہا، حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عورت سے دریافت کیا ۔’’ کیا تونے اسے زنا کرتے دیکھا؟‘‘ اس نے کہا ’’ نہیں ‘‘ تو آپ نے فرمایا ۔ ’’ اس خدا کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، قیامت کے روز تجھے اس کی وجہ سے لوہے کے اسی (80) کوڑے مارے جائیں گے۔‘‘ ( عبد الرزاق)
آخرت میں تو اس ( تہمت، بہتان بازی، الزام تراشی) پر سخت ترین عذاب ہے ہی، دنیا میں بھی اس کی سخت ترین سزا مقرر ہے۔ یہاں یہ بات، یہ دلیل بالکل نہیں چلے گی کہ میں نے یہ بات محض ہنسی مذاق کے طور پر کہی تھی یا یونہی یہ بات زبان سے نکل گئی میری مراد ، میری نیت یہ نہیں تھی۔ ہر قسم کے تمام بہتانوں خاص طور پر زنا کا اسلامی شرعی عدالت میں مقدمہ دائر کروایا جا سکتا ہے۔ اور پھر بہتان طراز ( بہتان لگانے والے) کو چار چشم دید گواہ پیش کرنا ہوں گے، جو اس بات کی شہادت دیں کہ یہ آدمی، یہ عورت واقعی زانی ہے، ہم نے اسے زنا کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یا کسی دوسرے فجور ( کاذب، خائن، بددیانت، حرام خور، حرام زادہ وغیرہ) میں سے اس بات کی شہادت اور ثبوت فراہم کرنا ہو گا کہ یہ آدمی ، یہ عورت واقعی ایسی ہے جیسا کہ اس کے بارے میں کہا گیا۔ اورپھر اگر وہ شخص گواہ نہ لاسکے تواسے ’’قاذف‘‘ قرار دیا جائے گا (یعنی مردود الشہادۃ قرار پائے گا اور آئندہ کبھی کسی معاملہ میں بھی اس کی شہادت قبول نہ کی جائے گی) اور اس پر تہمت کی حد قائم کی جائے گی اور شرعی قانون کے مطابق وہ اپنی جلد پر اسی(80) کوڑے کھانے کا حقدار ٹھہرے گا۔جیسا کہ اللہ کریم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِأرْبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاج فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ شُہَدَآءُ اِلَّا اَنْفُسُھُمْ فَشَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَھٰدٰتٍم بِاللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَo وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَo وَیَدْرَؤْا عَنْھَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْھَدَ اَرْبَعَ شَھٰدٰتٍم بِاللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَo وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْھَا اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَo
’’اور جو پارسا عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر اس پر چار چشم دید گواہ پیش نہ کریں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور ان کی کوئی شہادت قبول نہ کرو، یہی لوگ فاسق ہیں ( جو بے قصور مسلمانوں پر تہمت لگاتے ہیں) مگر جو اس کے بعد توبہ کریں اور سنور جائیں ( اور اپنے احوال و افعال درست کر لیں اور آئندہ دوسروں کی عیب جوئی کرنے سے باز آئیں) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور وہ جو اپنی عورتوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنے بیان کے سوا اور کوئی چشم دید گواہ نہ ہوں تو وہ اس طرح سے گواہی دے کہ پہلے چار مرتبہ اللہ کا نام لے کر یہ کہے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب نازل ہو۔ اور اسی طرح عورت کو بھی سزا سے یہ بات بچا سکتی ہے کہ وہ پہلے چار مرتبہ اللہ کا نام لے کے کہے کہ بیشک مرد جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر مرد سچا ہو تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو۔‘‘ ( النور 24: 4-9 )
جب مرد کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو عورت مرد پر شرعی عدالت میں مطالبہ کر سکتی ہے کہ یہ تہمت لگانے والا مجھ پر زنا ثابت کرے۔ تو اس صورت میں مرد کو یا تو چار چشم دید گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر لعان واجب ہو گا ( یعنی خود پر لعنت کرنا ہو گی ، یعنی یہ کہنا ہو گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو)۔ پھر اگر وہ مرد چار چشم دید گواہ پیش نہ کر سکے اورخود پر لعان کرنے سے بھی انکار کرے تو اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک گواہ پیش نہ کرے یا خود پر لعان نہ کرے۔ پھر اگر وہ اپنے جھوٹ کا اقرا کر لے کہ وہ واقعی عورت پر زنا کا الزام لگانے میں جھوٹا ہے تو اس پر قذف کی لگ جائے گی یعنی مردۃ الشھادۃ قرار پائے گا اور آئندہ کبھی کسی معاملہ میں بھی اس کی شہادت قبول نہ کی جائے گی اور اسے اپنی پیٹھ پر اسی (80)کوڑے بھی کھانا ہوں گے۔ اور اگر وہ اس سے بچنے کیلئے خود پر لعان کرنا چاہے تو اسے چار مرتبہ اللہ عزوجل کی قسم کھا کر یہ کہنا ہوگا کہ وہ عورت پر زنا کا الزام لگانے میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہنا ہو گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کا غضب نازل ہو۔ اس طرح سے اس پر قذف کی حد ساقط ہو جائے گی اور عورت پر لعان واجب ہو گا۔ اگر انکار کرے گی تو قید کر دی جائے گی یہاں تک کہ لعان منظور کرے۔ پھر اگر زنا ثابت ہو جائے تو دونوں عورت و مرد کی سزا سو سو کوڑے ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍص وَّلَا تَأخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃُ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِج وَلْیَشْھَدُ عَذَابَھُمَا طَآءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَo ( النور 24: 2 )
’’جو عورت اور مرد بدکار ہوں تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ تعالیٰ کے دین میں ( اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ کرنے میں) ۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر، اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی موجود ہو۔‘‘
ذرا دیکھیں اور غور کریں کہ دنیا میں ہی کتنی سخت ترین سزا ہے تہمت لگانے، الزام تراشی کرنے، اور بہتان باندھنے کی اور آخرت میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایسے خطرناک گناہوں سے توبہ کر لینی چاہیے۔ اگر فرض کیا یہ بات حقیقت بھی ہو اور کسی نے اپنی آنکھوں سے مرد و عورت کو زنا کرتے دیکھا بھی ہو تویا تو ان کو موقع پر لوگوں کو بولا کر سزا ملے اگر موقع ہاتھ سے نکل جائے تو ان پر پردہ ڈالنا چاہیے تاکہ گندگی جہاں کی ہے وہیں پڑی رہے ورنہ بول اٹھنے کی صورت میں اس کو اپنے علاوہ چار اور چشم دید گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر خود پر لعان کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کرے گا تو قذف قرار دیا جائے گا۔ قذف قرار دئیے جانے کی صورت میں وہ دین سے گیا اور دنیا سے بھی، یعنی مردود الشہادۃ ہو جائے گا اور آئندہ کبھی کسی معاملہ میں بھی اس کی گواہی قا بل قبول نہ ہو گی۔ اور پھر اسے اپنی پیٹھ اسی (80)کوڑے بھی کھانے پڑیں گے۔ لہٰذا عافیت اس میں ہے کہ خاموش رہا جائے اور جھوٹی، غیر ضروری، غیر یقینی بات سے پرہیز کیا جائے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ۔’’ مومن نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا اور نہ گالی بکنے والا۔‘‘
حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے کہ
’’ مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے جب کوئی بات کرتا ہے تو سوچتا ہے اگر ضرورت ہوتو بات کرتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے جبکہ منافق کا دل اس کی زبان میں ہوتاہے جو جی میں آئے کہہ اٹھتا ہے اسے کچھ روک ٹوک نہیں ہوتی ،‘‘
حدیث شریف میں ہے کہ منافق کی چار نشانیاں ہیں
1۔ جب با ت کرے تو جھوٹ بولے یا کوئی غیر ضروری بے ہودہ بات منہ سے نکالے۔
2۔ جب وعدہ کرے تو نہ نبھائے یعنی وعدہ خلافی کرے۔
3۔ جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دے ، بدکلامی کرے۔
4۔ جب کسی کی امانت کا امین بنے تو خیانت کرے۔ (بخاری و مسلم)
حضورنبی کریم ﷺ نے جھوٹ ، بدکلامی ،گالی گلوچ ،وعدہ خلافی اور خیانت کو منافقین کی علامات قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو ان سے بچنے کی تلقین فرمائی اور بیان فرمایاکہ یہ صفتیں منافقین کی ہیں جو اہل کفر سے بھی بد تر ہیں اورجو دوزخ کے خطرناک ترین حصے میں اپنے اعمال کی سزا بھگتیں گے اگر کسی مومن میں ان میں سے ایک صفت بھی پائی جائے تو وہ ایک حقیقی مومن ( مسلمان) نہیں ہے۔ مومن وہ ہے جس نے دل سے اسلام قبول کرکے اللہ عزوجل سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر قسم کے تمام گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا پھر اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے قول اور عمل میں منافقت کا تضاد ہے اگرچہ وہ عقیدے کے لحاظ سے منافق نہ بھی ہو مگر عمل کے لحاظ سے ضرور منافق ہو گاکیونکہ وہ ایک ایسے جرم کا مرتکب ہے جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں، جسے صرف ایک منافق ہی کر سکتا ہے۔

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 101 Articles with 103000 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More