ہم جشنِ آزادی کی خوشیوں میں محو ہیں، ہمارے دل خوشیوں سے
لبریز ،ہمارے سینے مسرتوں سے معمور ،ہماری آنکھیں نشاط سے سرشار اور ہمارے
جسم کا رواں رواں سرورو خمار سے ہمکنار ہے !کیوں نہ ہو؟ آزادی دنیا کی سب
سے بڑی نعمتوں میں سے ہے اور غلامی سب سے بڑی لعنت۔آزادی کی زندگی کا ایک
سانس غلامی کی زندگی کے ایک ہزار سال سے برتر ہے ،غلامی لعنت کا طوق اور
آزادی اﷲ کی رحمت کا ہار ہے ،غلامی حسن و زیبائی سے محرومی کا نام ہے،ذہنی
صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے کا نام غلامی ،ضمیر کی پژ مردگی کا نام غلامی
،اپنی خودی کو فناہ کے گھاٹ اتارنے کا نام غلامی،غلامی انسانیت کی ذلت اور
نامرادی کا اعلان ہے ،روز روشن میں شبِ تاریک کا تسلط غلامی،غلامی آقاؤں کی
خوشنودی اور خودسوزی کی مذموم حرکت ہے جبکہ آزادی بلبل میں شاہین کی ادائیں
پیدا کرے ،ممولوں کو شہبازوں سے لڑائے ،گداؤں کو شکوۂِ جم و پرویز عطا کرے
،انسانی صلاحیتوں کو جلا بخشے،شبِ تاریک کا سینہ چاک کر کے صبحِ نور کی
تجلیات بکھیرے،آزادی اپنی افکار اور نظریات کی اشاعت کا نام ہے لیکن افسوس
کہ میرا دل گردشِ دوراں کے نوجواں نسل کے غم سے لبریز ہے ۔یہ شاہین اقبال
کے شاہین نہیں ہیں ۔دور حاضر کے حکمرانوں کا ملک کے ساتھ سوتیلوں سا سلوک
دیکھ آنکھوں سے خوں کی ندیاں بہتی ہیں ، یہ پاسباں قائد کے چمن کے پاسباں
نہیں ہیں ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستاں کے حکمراں نہیں ،یہ طالبِ علم آزادی
کے طالبِ علم نہیں یہ با ادب نہیں ،یہ اساتذہ قائد کے بچوں اور اقبال کے
شاہینوں کے معمار نہیں ،سبھی لالچ ،ہوس اور مادیت کے نشئے میں چور اپنی ہی
دنیا میں مگن ہیں ،بھول چکے ہیں کہ کس طرح آزادی جیسی نعمت سے ان کے اجداد
سرفراز ہوئے اور اِنہوں نے گردشِ ایام سے منہ موڑ کر غلامی کی زندگی گزارنے
والوں کے حالات پر آنکھیں موند رکھیں ہیں،ان کی آنکھوں پر لبرل ازم کی پٹی
بندھ چکی ہے اور اس پٹی کے پیچھے انہیں مغرب کی روشنائیاں کسی امید کے دئیے
کی طرح نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ قوم اس چمکتی چیز کے پیچھے بھاگتے بھاگتے
تباہی کے دہانے پر جا پہنچی ہے ،آزادی کے باوجود ان روشنائیوں کے غلام ہیں
جو محض دھوکے کے سوا کچھ نہیں اور ان کا مقصد حیات اس پاک سرزمین سے محبت
،عشقِ حقیقی سے ہٹ کر ان روشنائیوں کو پا لینا ہے ،صد حیف کہ ہم اﷲ کی
آزادی جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کر رہے ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ اﷲ تعالیٰ
کی نعمت پر شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ اگر اس کی قدر و فکر نہ کی جائے تو
وہ قادر ہے اس بات پر کہ ہم سے چھین لے ،ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے اس آزادی
کیلئے بیش بہا جد و جہد کی ،بیش قیمتی قربانیاں دیں ،اور جب آزادی کا اعلان
ہوا تو وہی لوگ اپنی زندگیوں اور اجداد کا سرمایہ ،اپنی زندگی کی کمائیاں
سب چھوڑ کر اس پاک سرزمین کی طرف ہجرت کرنے لگے ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
!وہ ٹرینوں کا سفر،وہ پیدل سفر اور ٹرینوں میں لگی آگ،لٹی بے یارو مددگار
نعشیں ،جلتی ٹرینیں اور ٹرینوں کی بوگیوں سے ٹپکتا لہو ،وہ لاہور ،کراچی
اور دیگر شہروں میں عارضی کیمپ اور کیمپوں میں مہاجرین کی بہتاط،ماؤں
،بہنوں ،بیٹیوں اور بچوں کی دیار غیر میں چیخ و پکار ،نہروں میں پانی کی
جگہ بہتا لہوان قربانیوں کے بعد کہیں جا کر ہمیں یہ نعمت حاصل ہوئی اور ہم
اتنے ہی بے عمل و بد نصیب ٹھہرے اﷲ کی اس عظیم نعمت کی قدر نہیں کر پا رہے
،ہم اغیار کی ناؤ میں سفر کر کے منزل پر پہنچنے کے خواہش مند ہیں لیکن ایسا
کبھی ممکن نا ہو گا !ہم اتنے بے ادب ٹھہرے ہیں کہ جس سبز ہلالی پرچم کے
سائے تلے ہم اکٹھا ہوئے اور ایمان ،اتحاد ،تنظیم ،یقین و محکم کی قسم کھائی
آج اسی پرچم کی حرمت کو ہماری وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے ایک عظیم پرچم جس
کی بناوٹ لا الہ الا اﷲ کی گواہی دیتی ہے اس کی حرمت کو ہم روند رہے ہیں
۔میں کیوں نہ خوں کے آنسو بہاؤں کہ سوائے لکھنے کے میں کچھ نہیں کر سکتا
۔ایک پرچم جس پر درجنوں نغمے لکھے گئے اور جو پوری امت مسلمہ کے ایک ہونے
کی گواہی دیتا ہے اس کی حرمت کو روندنا میری نظر میں امت مسلمہ کی یکجہتی
اور اس کے مقصد کو روندنے کے برابر ہے۔ چند کاروباری اشراف جنہیں اس بارے
میں علم نہیں ،نے صرف پیسہ کمانے کی خاطر پرچمِ ستارہ و ہلا ل کی حرمت کو
بھی بیچ ڈالا ،بے ضمیر لوگوں کا ایمان آزادی سے ہٹ کے دولت کا غلام ہو چکا
ہے جنہوں نے اس پرچم کی بے حرمتی میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی ہے۔میر ظفر
اﷲ جمالی جیسے شخص کو میں اس زمرے میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے
نہ صرف پرچم کی حرمت کے سابقہ قانون میں ترمیم کی بلکہ اس کو نافذالعمل بھی
کیا لیکن ان کے جانے کے بعد پھر سے وہی ہٹ دھرمیوں کا مظاہرہ ہے ۔کیا ہماری
حکومت اپنی کرپشن اور دوسری سیاسی جماعتوں کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ملک
کی خود مختاری اور حرمت پر بھی نظر کر سکتی ہے کہ وہ ایسی فیکٹریوں کو ہی
ختم کر دے جو ایسے نمونے بناتے ہیں جن سے پرچمِ حق کی بے حرمتی ہوتی ہے
؟افسوس ہے ایسے لوگوں پر جو آزاد ملک میں رہ کر بھی ذہنی غلام ہیں ۔میں ملک
پاکستان کی عدالت عالیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے محب وطن
پاکستانی ہونے کی حیثیت سے دل کی گہرایوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پرچمِ
ستارہ و ہلال کے قانون کو نافذا لعمل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے کیوں
کہ اس پرچم کی حرمت کی پاسداری کے بغیر نہ تو اس ملک کی آزادی کا وجود ہے
اور نہ ہی ہمارااور نہ ہی پاکستان کا مطلب پورا ہوتا ہے ۔
|