آج ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ تو ہم سب ہی
دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں سانحوں پر سانحے ہو رہے ہیں قیامت پر قیامت
گزر رہی ہے کہیں بھوک ہے تو کہیں خشک سالی کہیں بے سرو سامانی ہے تو کہیں
جرائم کی فراوانی . اور اس پر بھی قیامت انسانی خون کی اسقدر ارزانی …مانا
کہ آج ہمارے حکمران نا اہل ہیں تو پو لیس لاچار ، عدالتیں انصاف سے عاری
ہیں تو قانون بیکار، ہماری اقلیتیں جینے کی حقدار ہیں نہ انسان … ..مگر آج
آئینہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم خود بحیثیت قوم کیا ہیں ؟ آج ہمیں کیا ہو گیا
ہے ؟ آج ہمارے دل پتھر کے کیوں ہو گئے ہیں ؟ مارکیٹس میں بازاروں میں
دھماکے ہوئے تو ہم خاموش رہے پولیس ٹریننگ اکیڈمی دھماکوں کی زد میں آئی تو
چپ سادھے رہے ، سری لنکاکی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو ہماری خاموشی کے قفل نہ
ٹوٹے .ا سکولوں کی حفاظت کو خطرہ لا حق ہوا ہمارا مستقبل خطرات میں گھرا تو
بھی چپ کی چادر اوڑھے رہے . اور آج یہ دھماکے مساجد کا رخ کر چکے ہیں اور
تب بھی ہم خاموش تماشائی ہی ہیں . کیا آج بھی ہم اسی خیال میں ہیں کہ یہ
آفات ہمارے گھروں سے زیادہ دور ہیں ؟ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ کل ان
دھماکوں کا نشانہ ہم نہ ہوں گے ؟ یا پھر کل ہمارے بچے جس اسکول میں جائیں
گے وہاں ایسا نہ ہو گا ؟ ہم جس بازار میں جائیں گے وہ بم پروف ہو گا ؟ یا
پھر جس ہسپتال میں ہمارے عزیز و اقارب زیر علاج ہوں گے وہاں بمباروں کا
داخلہ ممنوع ہو گا ؟ کب تک ہم اپنی خیر منائیں گے ؟کیا یہ وہ ہی اسلامی
جمہوریہ پاکستان ہے جس کی خاطر کتنوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں یہ
سوچ کر کہ ہماری جان جاتی ہے تو جائے مگر کل یہاں پر میری قوم آ کر سکون سے
رہے گی ؟ مگر آج ہمارے پڑوس میں ڈاکہ پڑتا ہے، عزتیں لٹتی ہیں ،جانیں جاتی
ہیں تو ہم اپنے گھروں میں میوزک کی آواز اونچی کر دیتے ہیں تاکہ چیخ و پکار
ہمارا سکون حرام نہ کر سکے …ہاں یہ ہی ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی
آزادی کی جدوجہد میں ماؤں بہنوں نے عزت کی حفاظت جان دے کر کی تھی مگر آج
یہاں پر بنت حوا دو وقت کی روٹی کے عوض ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہے
دختران قوم غیر انسانی رسموں کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے۔ مگر کسی کی غیرت
پر نہیں گزرتی …ہاں یہ ہی ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے حصول کی
بنیاد دو قومی نظریہ تھا جن کا مقصد ہی ہندو اور مسلمانوں کو دو مختلف
قومیں تھیں جن کا ملاپ نا ممکن تھا مگر آج بھی یہاں ہندوانہ رسوم و رواج کو
شان سے ادا کیا جاتاہے مگر کسی کی مسلمانیت نہیں تڑپتی …ہاں یہ ہی ہے وہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں مگر عزت کی بولی سب
سے اونچی لگتی ہے مگر کسی کی روح نہیں کانپتی …ہاں یہ ہی تو ہے وہ اسلامی
جمہوریہ پاکستان جہاں قحط و رجال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، تہذیب و تمدن کے
سبھی پیمانے ٹوٹ ٹوٹ کر وقت کی نا قدری کا گلہ کر رہے ہیں اور ہم معاشرتی
طور پر زوال کی آخری حدوں کے بھی آخر پر پہنچ چکے ہیں .کہ اب جب لوگ یہ
کہتے ہیں کہ خدا دیکھ رہا ہے —- تو سوچنے لگتا ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے ؟آج
جہاں ہم معاشرتی طور پر زوال کا شکار ہیں وہاں بیرونی سطح پر بھی دنیا کی
نظر میں بھی ہم ایک دہشت گرد قوم ہیں . اس حقیقت کو ہم چاہے مانیں یا نہ
مانیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہاں ہم ایک دہشت گرد قوم ہیں …کیوں کہ دہشت گردی
صرف بموں سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دہشت گردی تو یہ ہے کہ
آج میری سر زمین پاک پر ایک دن میں سینکڑوں نمازی بھون دئے جاتے ہیں تو کسی
کی ایمانی غیرت نہیں جاگتی ، میرے بازاروں میں قیامت برپا ہو جاتی ہے مگر
کسی کی انسانیت نہیں تڑپتی . میرے اسکولوں میں معصوم بچوں کی حفاظت خطرے
میں پڑجاتی ہے مگر کسی کا ضمیر نہیں للکارتا . ..میری مساجد کا تقد س پامال
کر کے ان کو لہو رنگ کر دیا جاتا ہے مگر کسی کو مسلمانیت نہیں جھنجوڑتی …کہیں
کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی کہیں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی کہیں کوئی احتجاج
نہیں ہوتا کہیں کوئی ماتم نہیں کرتا ، کہیں کوئی سڑکوں پر نہیں آتا ، اور
کوئی بھی با ضمیر چلا چلا کر ظالموں سے یہ نہیں پوچھتا کہ ’’ اے میری سر
زمین پاک کو لہو رنگ کرنے والو، اے میرے ہم وطنوں کے نہ حق خوں بہانے والو
، اے مرے مستقبل کے معماروں کے قاتلوں ، اے میرے دھرتی کے دشمنوں آخر تمہیں
یہ حق کس نے دیا ہے؟ …صرف اس لئے کہ ہمیں اس وحشت میں جینے کی عادت سی ہو
گئی ہے ، ہمارے دل پتھر ہو چکے ہیں ، احساس مردہ ہو چکے ہیں ، ضمیر مر چکے
ہیں …ہم روز ان قیا متوں کو گزرتے دیکھتے ہیں اور تاویلیں بنانے لگتے ہیں
فوجی اکیڈمی میں دھماکہ ہوا تو وہ تو فوجی تھے نہ ، پولیس پر حملہ ہوا وہ
قصوروار تھے ، مساجد پر قتل عام ہوا تو وہ احمدی جو تھے …مگر ہم خود کیا
ہیں یہ کبھی نہ سوچا ، یہ کوئی فلمی سین نہیں جو پسند نہ آیا تو ٹی وی بند
کر دیا …یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس نے ہمیں بے ضمیر بنا ڈالا ہے .فیس بک پر
پابندی لگانے کے لئے ایمانی غیرت جوش میں آ کر احتجاج کروا سکتی ہے ۔تو
مساجد کی پامالی اور نمازیوں کے تحفظ کے لئے کیوں نہیں ؟ جب توہین رسالت کے
متوالے سلمان رشدی کے سر کی قیمت مقرر کر سکتے ہیں تو رسول اﷲ کی تعلیمات
سے انحراف کرتے ان غیر انسانی افعال کرنے والوں کے لیے کیوں نہیں ؟ کارٹون
تنازعہ محبان رسول کو پر تشدد احتجاج پر مجبور کر سکتا ہے مگر اپنی ہی
دھرتی پر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کیوں نہیں ؟کیا
رسول اﷲ کی تعلیم سے انحراف توہین رسالت یا گستاخی رسول نہیں ؟ ؟فقط بیان
بازی اور کھوکھلے نعروں سے ہم خود کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر دنیا کو
نہیں …دنیا جان چکی ہے کہ ہم ایک نا کارہ قوم ہیں . اگر یہی سانحہ امریکہ
یا یورپ میں ہوا ہوتا توان قوموں کو سڑکوں پر ماتم کرتے دیکھ کر ظالموں کے
ہاتھ بھی کانپ اٹھتے ..ان قوموں میں انسانیت کی قدر دیکھ کر حیوانوں کے دل
بھی پسیج جاتے …خدا را …اس سے پہلے کہ اس قوم کو یہ بے حسی کھا جائے اس سے
پہلے کہ اس قوم کو یہ بے ضمیری نگل جائے اس سے پہلے کہ مظلوموں کی آہیں عرش
ہلا دیں اور یہ آواز بھی رائیگاں چلی جائے اس سچ سے نظر ملایئے کہ کسی بھی
ملک کی سب سے بڑی طاقت وہاں کے عوام ہوتے ہیں جو اگر زندہ ہوں تو بدترین
حکمرانوں کو بھی راہ راست پر لا سکتی ہے اور اگر مردہ ہو جائیں تو پھر ایسے
سانحات اس قوم کا مقدر بن جاتے ہیں . |