مظلوم داڑھی اور ظالم پتلون

مولانا مفتی عاشق الہٰی بلند شہری

احکام اسلامیہ کا پھیلاؤ انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ پورے احکام پر عمل کرے، یہ احکام عبادات، معاملات ، معاشرت، سیاست وحکومت ، سونے جاگنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، میاں بیوی کے تعلقات، اولاد کی تربیت ( جسمانی بھی، ایمانی بھی) شکل وصورت، وضع قطع ،لباس، دوستی اور دشمنی رہن سہن وغیرہ۔ سب پر دور حاضر کے مسلمانوں نے عجیب سلسلہ جاری کیا ہے ، اسلام کے عقائد نہ سیکھتے ہیں، نہ اولاد کو سکھاتے ہیں ، اسلام کا قانون قبول کرنے اور نظام حکومت اس کے مطابق چلانے سے پرہیز کرتے ہیں، بلکہ اسلامی قوانین پر اعتراض کرتے ہیں، کہنے کو تو مسلمان، مگر شکل وصورت دشمنوں جیسی ، پہناوا اُن کا جیسا، حرام روزی سے پرہیز نہیں، رشوت کے لین دین میں بہت زیادہ آگے آگے ، تجارت میں دھوکہ، فریب اور خیانت او رجھوٹی قسمیں ، اولاد کی غیر اسلامی تربیت کرنا ، انہیں دشمنوں کے رنگ ڈھنگ سکھا کر دشمنوں کی گود میں پھینک دینا، نماز کی پابندی نہیں ، زکوة کی ادائیگی نہیں ، کھانے پینے میں حرام حلال کا خیال نہیں ، یہ سب کچھ ہے، مگر ہیں پھر بھی مسلمان۔

مسلمانوں! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، اسلامی احکام کو اپناؤ، دشمنانِ اسلام کی طرف نظریں اٹھا کر نہ دیکھو، اس کی کیارِیس کرنا جسے دوزخ میں جانا ہے ، تم الله کے نیک بندے بنو، قرآن پر چلو، اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سیرت اور صورت کو اختیار کرو ، ایسا لباس پہنو جسے دیکھنے والے پہننے والے کو مسلمان سمجھیں، قرآن شریف کی آیت پیش نظر رہے : ﴿ولا ترکنوا إلی الذین ظلموا فتمسکم النار﴾․ اور ظالموں کی طرف مائل مت ہو جاؤ ،ایسا ہو گا تو تمہیں دوزخ کی آگ پکڑلے گی۔

اور حدیث شریف میں ہے ”من تشبہ بقوم فھو منھم“ (مشکوة المصابیح)

مسلمانوں کے لیے داڑھی مصیبت بنی ہوئی ہے اور اس بے چاری پر طرح طرح کے ظلم ہوتے ہیں، کوئی کاٹتا ہے، کوئی مونڈتا ہے اور اس کا فیشن ایبل نام شیونگ رکھا ہے ، کسی نے ساری ہی مونڈ رکھی ہے ، کسی نے گال صاف رکھے ہیں ، کسی نے جَو کے برابر رکھی ہے ، کسی نے اس سے کچھ زیادہ۔ اچھے خاصے نمازی ، دین داری کے دعویٰ دار ان حرکتوں میں مبتلا ہیں، جو لوگ کافروں میں گھل مل کر رہتے ہیں ، ان کو تو یہ شرم کھائے جاری ہے کہ داڑھی رکھیں گے تو یہ لوگ ناراض ہوں گے ، فیشن والوں کی فہرست سے نکال دیں گے، دقیانوسی ہونے کا طعنہ دیں گے ، بھلا کافر کی بھی کوئی حیثیت ہے ، جو اس کی بات کو وزن دیا جائے اور اسے راضی رکھنے کے لیے دینی احکام کو پامال کیا جائے ؟ وہ لوگ تو اپنا کفریہ شعار اور لباس اختیار کرنے میں ہم سے نہ شرمائیں اور ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جیسی شکل وصورت اور لباس اور پہناوا اختیار کرنے میں کافروں سے شرمائیں، یہ کیا سمجھ داری ہے اور دین داری ہے؟

پھر جو لوگ کہیں ملازم ہیں، دشمنوں کے ساتھ کام کرتے ہیں ، وہ اگر ان کو راضی رکھنے کے لیے داڑھی نہ رکھیں اور اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کی صورت سے بیزار ہو کر اپنی آخرت خراب کریں ان کے لیے تو ایک جھوٹا بہانہ بھی ہے، لیکن جو لوگ ملازم نہیں، ریٹائر ہو گئے، بڑی عمر کو پہنچ گئے، منہ میں دانت نہیں، پیٹ میں آنت نہیں ، گال پچکے ہوئے، کمر میں کُب نکلا ہوا، ان لوگوں کو کیا مصیبت ہے کہ اسلامی شکل، وضع وقطع اختیار نہ کریں، آخر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت سے اور شکل وصورت سے کیوں نفرت ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو اعفو اللحی (داڑھیوں کو خوب بڑھاؤ۔) فرمایا اور خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی خوب گھنی داڑھی تھی، جس کے پھیلاؤ سے سینہ بھر جاتا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع سے کیوں نفرت ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شکل صورت کیوں پسند نہیں؟ کوئی ہے منچلا جو جواب دے؟؟۔

داڑھی منڈے لوگوں کو یہ محبوب نہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایذا پہنچے ہاں! مگر دشمنانِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شکل وصورت اختیار کرنا منظور ہے ، تف ہے ایسے فیشن پر، بزرگوں سے ایک واقعہ سنا ہے ، وہ بھی قابل ذکر ہے اور لائق عبرت ہے، وہ یہ کہ مرزا قتیل ایک ہندوستانی شاعر ہے، انہوں نے ایک عارفانہ نظم لکھی، جو کسی طرح ایران پہنچ گئی، وہاں ایک صاحب بہت متاثر ہوئے اور باقاعدہ مرزا قتیل کے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ داڑھی منڈا رہے ہیں، حیرت میں رہ گئے اور مرزا قتیل سے کہا کہ آغا! ریش می تراشی؟ ( کہ آپ داڑھی منڈا رہے ہیں؟) مرزا قتیل نے جواب دیا کہ بلے، ریش می تراشم، دلِ کس رانمی خراشم۔ ( ہاں! میں داڑھی تراشتا ہوں ،کسی کا دل نہیں چھیلتا) اس نووارد نے کہا کہ بلے، دلِ رسول الله می تراشی ( کہ ہاں! رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دل کو چھیلتے ہو) یہ سن کر مرزا قتیل کو ہوش آیا اور فوراً اقرار گناہ کرتے ہوئے کہنے لگے
جزاک الله کہ چشمم باز کردی
مرا با جان جاں ہمراز کردی

الله تعالیٰ تمہیں اجر دے ، تم نے تو میری آنکھیں کھول دیں اور مجھے محبوب سے باخبر کر دیا۔

داڑھی منڈانے والے اپنی اس حرکت کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کس کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور کس کی صورت سے عملاً بیزار ہو رہے ہیں ۔

داڑھی کتنی ہونی چاہیے؟
یہاں تک داڑھی مونڈنے والوں سے باتیں ہوئی ، اب ہم ان لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہیں جو داڑھی رکھتے تو ہیں لیکن پوری داڑھی نہیں رکھتے ، داڑھی کاٹنے کے گناہ میں مبتلا ہیں، ان لوگوں کو بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا قول وعمل پسند نہیں ، ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس بارے میں خود ہی مفتی بن گئے ہیں ، نماز روزہ کے مسائل علماء سے پوچھتے ہیں اور داڑھی کے بارے میں خود ہی فتویٰ دے لیا۔

مثلاً ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ اتنی داڑھی ہونی چاہیے جو کافی دور سے نظر آجائے، کوئی کہتا ہے کہ چالیس قدم سے دکھائی دے ، وغیرہ وغیرہ…

یہ ان لوگوں کی اپنی ایچ پیچ اور اپنی غلط سوچیں ہیں، جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو ”اعفوا اللحی“ فرمایا ہے ، جس کا معنی ہے خوب اچھی طرح داڑھی بڑھاؤ، شروح حدیث اور لغت کی کتابوں میں دیکھے بغیر خود ہی مفتی بن گئے ، علامہ نووی رحمة الله علیہ نے شرح مسلم میں وہ الفاظ ایک ہی جگہ جمع کر دیے ہیں جو داڑھی بڑھانے کے بارے میں حدیث شریف میں وارد ہوئے ہیں ، ان میں لفظ ”اعفوا“ کے علاوہ ”وفروا“ اوفرو“ ارخوا“ کے الفاظ بھی ہیں ، یہ سب الفاظ اچھی طرح بڑھانے پر دلالت کرتے ہیں اور آخر میں یعنی ” ارخوا“ کے معنی تو لٹکانے کے ہیں، جو خوب زیادہ بڑھانے کے معنی میں خوب واضح ہے ، یہ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہوا ، اب آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمل دیکھو! وہ کیا ہے؟

حضرت خباب رضی الله تعالیٰ عنہ سے ان کے شاگرد نے دریافت کیا کہ آپ لوگ کیسے یہ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ظہر وعصر میں قرات فرماتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارکہ کی حرکت کرنے سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا قرات فرمانا ہم کو معلوم ہو جاتا ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے ” وکان کثیر شعر اللحیة“ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک زیادہ بالوں والی تھی۔

شمائل ترمذی میں ہے کہ:”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کث اللحیة“ رسول الله صلی الله علیہ وسلم گھنی داڑھی والے تھے، حافظ ابن جوزی نے حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے :” کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم عظیم اللحیة“ کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بڑی داڑھی والے تھے۔

جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خوب داڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور خود بھی بڑی گھنی داڑھی رکھی ہے ، تو اب چھوٹی سی داڑھی بڑھانے کو دین داری سمجھ لینا اور یہ خیال کر لینا کہ داڑھی بڑھانے کا جو حکم ہے ہم نے اس کی تعمیل کر لی سراسر بغاوت ہے اور خود فریبی ہے ، دیکھا گیا ہے کہ کسی نے دوانگل داڑھی بڑھائی ہوئی ہے تو کسی نے گال مونڈ رکھے ہیں، تھوڑی پر ذرا سی چڑیا بٹھا رکھی ہے ، کوئی موٹی مشین پھرواتا ہے تو کوئی چھوٹا سا دائرہ بنالیتا ہے، کسی کی فرنچ داڑھی ہے ، کوئی کسی کافر یا فاسق لیڈر کا فیشن اختیار کیے ہوئے ہے، یہ سب سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے قول وعمل کے خلاف ہے ۔

بعض جاہل کہتے ہیں کہ داڑھی کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے لہٰذا جتنی بھی رکھ لو حکم کی کی تعمیل ہو جائے گی ، ایک مشت کی پابندی مولویوں نے نکالی ہے۔ یہ ان لوگوں کی جہالت کی بات ہے ، جب خود اچھی طرح داڑھی بڑھانے کا حکم نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دیا تومقدار کیسے متعین نہیں ہوئی؟ مولوی کی کیا مجال ہے جو اپنے پاس سے کچھ کہے ، یہ مشت والی بات حضرت عمر رضی الله عنہ اور حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرة رضی الله عنہما سے مروی ہے، اگر آپ اس سے ناراض ہیں ( حالاں کہ خلفائے راشدین کی اتباع کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے) تو آپ اپنی داڑھی مت کاٹیے۔

ان حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم نے تو یہ سمجھ کر کہ ایک مشت ہو جانے سے اعفا پر عمل ہو جاتاہے مشت سے زائد کاٹنے کا طریقہ اختیار کیا اور کسی صحابی سے داڑھی کو اس سے کم کرنا ثابت نہیں ہے ، آپ کے خیال میں صحابہ کا عمل صحیح نہیں ہے تو بڑھاتے چلے جائیے اور ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم اعفوا ،اوفوا، وفروا، ارخوا پر عمل کیجیے، یہ کیا دین داری ہے کہ خود سے مقدار تجویز کر لی کہ ذرا سی داڑھی رکھنا کافی ہے۔ اپنی طرف سے مقدار مقرر کرنا تو آپ کے نزدیک صحیح ہے، جو صریح حدیث کے خلاف ہے او رمولوی نے جو حضرات صحابہ کرام کے عمل کو سامنے رکھ کر مقدار بتا دی تو آپ مولوی کو کوس رہے ہیں ، خدا را حیلے بہانے چھوڑو اور غور کرو کیا اس لفاظی سے میدان حشر میں چھٹکارا ہو جائے گا ؟ جہالت کی باتیں ترک کرو، رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسی صورت بناؤ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر مرمٹو، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اختیار فرمودہ طریقہ پر فدا ہو جاؤ ، ہمیں مغرب کے کافروں اور ملحدوں کی تقلید کی کیا ضرورت ہے ؟ واضح ہو کہ اپنی داڑھی مونڈنا یا مشت سے کم کرنا جیسا کہ حرام ہے ایسے دوسرے کی داڑھی مونڈنا اور مقدار مذکور سے کم کرنا بھی حرام ہے اور اس کی اجرت لینا بھی حرام ہے ، باربر (نائی) حضرات اپنی روز ی حرام نہ کریں۔

مونچھیں تراشنا
مونچھیں تراشنا بھی سنن میں سے ہے، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خالفوا المشرکین واحفوا الشوارب واوفوا اللحی“۔ مشرکین کی مخالفت کرو اور مونچھوں کو اچھی طرح تراشو اور داڑھی کو خوب بڑھاؤ۔ چوں کہ داڑھی مونڈنا اور مونچھیں بڑھانا مشرکین کا طریقہ رہا ہے اور داڑھی بڑھانا اور مونچھیں تراشنا حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کا طریقہ ہے،اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس بارے میں سختی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ”من لم یأخذ شاربہ فلیس منا“ کہ جو شخص اپنی مونچھ نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں ، مونچھیں بڑھاتے چلے جانا جیسا کہ مشرکین اور سکھ بڑھاتے ہیں اور جیسا کہ پہلوانوں نے ان کا طریقہ اپنا رکھا ہے شریعت اسلامی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ طریقہ رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کے دین کے خلاف ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی مونچھیں تراشتے تھے اور حضرت ابراہیم خلیل الله علیہ السلام بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ حضرات انبیا ئے کرام علیہم الصلاة والسلام کے طریقہ کو چھوڑنا اور سول الله صلی الله علیہ وسلم کے دشمنوں کے طریقہ کو اپنانا اور اختیار کرنا ایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے ۔

مونچھوں کے بارے میں احادیث شریفہ میں لفظ قص بھی وارد ہوا ہے اور لفظ احفوا اور انھکوا بھی مروی ہے۔ آخری دو لفظ مبالغہ پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے مونچھیں کاٹنے میں مبالغہ کرنا مندوب او رمستحب ہے، حضرت ابن عمر اپنی مونچھیں تراشنے میں اتنا مبالغہ کرتے تھے کہ اوپر کے ہونٹ کی کھال کی سفیدی نظر آتی تھی۔ اگر مونچھوں پر موٹی مشین پھیر دی جائے یا قینچی سے خوب اچھی طرح تراش دیا جائے تو اس کے مبالغہ والی صورت حاصل ہو جاتی ہے۔

متعدد صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اس پر عمل تھا اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ نے بھی اس کو اختیار فرمایا ہے ، اگر مبالغہ نہ کیا جائے اور مونچھوں کو اس طرح کاٹا جائے کہ اوپر کے ہونٹ پر کٹے ہوئے بال نہ ہوں اور منہ میں اندر نہ گھسے جاتے ہوں ، نہ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے ہوں تو اس کی گنجائش ہے، جو لفظ قص سے مفہوم ہوتا ہے اور بعض ائمہ نے اس کو بھی اختیار فرمایا ہے۔

دشمنانِ اسلام کے پاس تو کوئی دین ہے ہی نہیں، یوں ہی کچھ توہمات اور تصورات لیے پھرتے ہیں، جو اپنی طرف سے تراش لیے ہیں ، زندگی گزارنے کا کوئی پروگرام ، زندگی کے شعبوں کے احکام، سیاست، تجارت ، معیشت، معاشرت، رہن سہن اور تمام امور زندگی میں آزاد ہیں ، جن چیزوں کو دین سمجھتے ہیں وہ ان کے بڑوں نے خود تجویز کی ہیں ، خالق مالک جل مجدہ کی طرف سے ان کے پاس احکام نہیں ، نہ ہی ان کے پاس اپنے دعوے کی دلیل ہے ، جو جی چاہتے ہیں خود سے عقائد او راعمال تجویز کر لیتے ہیں اور زندگی کو جس ڈھب چاہتے ہیں ، چلاتے ہیں ، شرم اور حیا کو تو بالائے طاق رکھ ہی چکے ہیں ، عورتیں بے پردہ بلکہ آدھی ننگی بازاروں میں ،باغوں میں اور تفریح گاہوں میں گھومتی پھرتی ہیں اور یورپ نے تو بے شرمی کی حد کر دی ہے ، ننگی عورتیں فرینڈ یعنی دوست تلاش کرتی پھرتی ہیں ، بعض تفریح گاہوں میں بالکل آزادی ہے ، مردوعورت جو چاہیں کر سکتے ہیں ، وہاں کے بعض آنے جانے والوں نے بتایا کہ روڈ پر چلتے ہوئے، ریل میں بیٹھے ہوئے بھی معاشقہ شروع ہو جاتا ہے ، ایسے بے حیا اور انسانیت کے دشمن اگر ننگے ہو کر پھریں یا چست پتلونیں پہنیں یا عورتوں کو عریاں یا نیم عریاں پھرائیں تو کچھ بھی بعید نہیں، لیکن مسلمانوں پر تعجب ہے کہ جو سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بے شرمی کو اپناتے جارہے ہیں ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں تو بیان فرمایا: ”کان اشد حیاء مین العذراء فی خدرھا“ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے جو اپنے پردہ میں ہوتی ہے۔

یہ پرانے زمانہ کی بات ہے، آج کل تو نو خیز لڑکیاں بھی پردہ کو عیب اور شرم وحیا کو معاشرہ کا گھن سمجھنے لگی ہیں اور حدیث سنیے: فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے: ”اربع سنن المرسلین: الحیاء، والعطر، والسواک، والنکاح“․ (رواہ الترمذی

یعنی چار چیزیں پیغمبروں کے طریقوں میں سے ہیں، شرم، عطر لگانا، مسواک کرنا، نکاح کرنا۔

اب دیکھ لو دنیا کے بے شرم انسانوں میں تو شرم ہے ہی نہیں ، مسلمان نام کے لوگ بھی حیا کو بالائے طاق رکھتے جارہے ہیں ، بیویوں اور بیٹیوں کو بے پردہ بازاروں او رپارکوں میں لیے پھرتے ہیں اور اس پر خوش ہیں ، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بے شرمی کی چیزیں دکھاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر خود دیکھتے ہیں۔ ہداھم الله تعالیٰ․

عورتوں کے پاس دکھانے اور لبھانے کی کئی چیزیں ہیں ، مردوں کے پاس داڑھی منڈازنخوں والا چہرہ ہے اور پچھلا دھڑ بھی ہے ، جو مرد داڑھی رکھتے ہیں تو ڈھیلا پائجامہ پہتے ہیں اور اوپر سے ڈھیلا نیچا کرتا پہن لیتے ہیں تو ان کی طرف بری نظر نہیں اٹھتی جس سے دیکھنے والوں کو مزہ آئے ، اب جب سے پتلون کا رواج چلا ہے تو عام طور پر لوگوں نے پائجامہ تو چھوڑہی دیا، کَسی ہوئی پتلون اور اس کے اندر کرتے کا دامن گھسا ہوا اپنا لباس بنا لیا ، بوڑھے ، جوان ، بچے اسی ڈھنگ پر چل رہے ہیں ، دفتر میں کام کرنے والے ہوں یا اپنی دوکانوں میں بیٹھنے والے ہوں، اسی حال اور چال ڈھال میں مست ہیں ، کہ داڑھی مونڈی ہوئی ہو اور پتلون کسی ہوئی ہو ، پھر چلتے بھی ہیں اتراتے ہوئے مٹکاتے ہوئے ، کیا یہ شرافت ہے ، اس میں انسانیت کا کون سا کمال ہے ؟ میرے ایک ملنے والے ہیں، انہو ں نے داڑھی بھی رکھ لی اور پتلون بھی چھوڑ دی، مجھ سے کہنے لگے کہ پرانی جو پتلونیں رکھی ہیں ان کا کیا کروں؟ میں نے کہا تھوڑی تھوڑی نیچے سے کاٹ دو، تاکہ ٹخنے نہ ڈھکیں اور جب پہنو تو اوپر سے کرتے کا دامن ڈھانپ لو، یہ سن کر وہ ہنسے ، ان کی ہنسی اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ پھر پتلون کا فائدہ ہی کیا ہوا ، جب نیچے سے کاٹ دیا اور اوپر سے دامن ڈھانپ لیا تو پتلون پہننے کا فائدہ ہی کیا رہا ؟ پتلون کا فائدہ یہی تو ہے کہ دھڑ کو مٹکا کر چلیں، دیکھنے والوں کی نظریں پڑیں اور دیکھنے والے لطف اندوز ہوں اور ٹخنوں سے نیچے پہن کر ذرا غرور وتکبر کا دلدادہ بننا تو منظور ہے لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”وارفع ازارک إلی نصف الساق، فإن ابیت فإلی الکعبین، وإیاک وإسبال الإزار؛ فإنھا من المخیلة، وإن الله لا یحب المخلیة“․ ( مشکوة المصابیح)

یعنی اپنے تہبند کو آدھی پنڈلی تک اٹھاؤں، اگر یہ گوارا نہیں تو ٹخنوں تک لے جاسکتے ہو اور تہبند کو اس سے نیچے مت لٹکایا کرو، کیوں کہ وہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے اور الله تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے۔

آج کل لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور رواج کے مطابق کپڑا پہننے کو ضروری سمجھتے ہیں ، چوں کہ کافروں اور فاسقوں میں ٹخنے کے نیچے پتلون، پائجامہ، کرتہ پہننے کو عزت کی چیز سمجھا جاتا ہے، اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلا الله تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے ( صحیح بخاری ص:861)

کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا گناہ صرف تہبند ہی نہیں بلکہ دوسرے کپڑوں میں بھی ہے ، کرتا، عمامہ ، پائجامہ کو اگر کوئی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے تو یہ بھی اسی ممانعت میں شامل ہے :”قال النبی صلی الله علیہ وسلم الاسبال فی الازار والقمیص والعمامة من جرمنھا شیئاً خیلاء لم ینظر الله إلیہ یوم القیامة․“ (رواہ ابوداؤد :21/2)

لوگوں کا یہ مزاج ہے کہ الله تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے تو نہ سہی ، کافر اور فاسق تو دنیا میں اچھی نظر سے دیکھ ہی لیں گے ، لوگوں کو فیشن چاہیے، کسی طرح کافروں فاسقوں کی نظر میں بھا جائیں، آخرت میں کچھ بھی بنیں ، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ما اسفل من الکعبین من الازار فی النار“ ( مشکوة المصابیح ص:179)

جو تہبند ٹخنوں سے نیچے ہو گا دوزخ میں لے جانے والا ہو گا۔

لوگوں کا عجیب حال ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی کچھ پروا نہیں، دوزخ میں جانے کو تیار، حلوہ کا لقمہ سمجھ رکھا ہے ، فاسق فاجر ٹخنے سے نیچے پائجامہ پتلون دیکھ کر خوش رہیں، چاہیں دوزخ ہی میں جانا پڑے، یہ حال ہے مسلمان نام کے لوگوں کا ( العیاذ بالله)؟!

نیز بخاری شریف میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پرانی امتوں سے ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنے تہبند کو گھسیٹتا ہوا جارہا تھا وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔ ( مشکوة المصابیح ص:373)

جب لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ پتلون نہ پہنو، اگر پہنو تو ٹخنوں تک رہنے دو اور اس پر کرتے کا دامن ڈھانپ لو۔ تو کہتے ہیں کہ ہم دفتروں میں ملازم ہیں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں ، وہاں کا یونی فارم یہی ہے ، پہلی بات یہ ہے کہ جن دفتروں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں اگر مسلمان ہیں تو ایسے یونی فارم تجویز کرنا شریعت کے خلاف ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کو ٹھکرانے کے مترادف ہے ، یہ لوگ ملازمین کو شریعت اسلامیہ کے مطابق شکل وصورت نہ بنانے اور غیر شرعی لباس پہنوانے کے مجرم ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ مالکوں اور منیجروں کے کہنے سے گناہ حلال نہیں ہو جاتا، دوسررا روز گار مل سکتا ہے اور ایسی ملازمتیں بھی مل سکتی ہیں جن میں حرام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے ، جو لوگ ان جگہوں میں ملازمتیں نہیں کرتے بھوکے تو نہیں مر گئے، پھر جب مسلمان غیر شرعی یونی فارم سے انکار کریں گے تو ہوٹلوں کے مالک، کمپنیوں کے ذمہ دار اور اداروں کے مدیر اور منیجر یونی فارم بدلنے پر مجبور ہوں گے ، ایک مسلمان کو کیا مصیبت ہے کہ داڑھی مونڈی ہوئی ، پتلون کسی ہوئی اور ٹائی لگی ہوئی وضع اختیار کرے جو دیکھنے میں نصرانی معلوم ہو رہا ہو۔

چلیے آپ تو نوکر ہیں ، یہ بتائیے اپنے بچوں اور نو خیز لڑکوں کو پتلون کیوں پہناتے ہیں؟ جس سے نفس ونظر کا کیف اٹھانے والے فاسقین اور کافرین محظوظ ہوتے ہیں ، اگر آپ کہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں کا یہی لباس ہے تو عرض ہے کہ ان اداروں کے ذمہ دار جو مسلمان ہیں انہوں نے یہ بے شرمی کا لباس کیوں تجویز کیا اور آپ نے کیوں مان لیا ؟ نہ بڑوں کو دین پر چلنا ہے، نہ چھوٹوں کو، پھر کا ہے کی مسلمانی ہے؟

اچھا !جو لوگ نہ طالب ہیں، نہ ٹیچر ہیں، نہ داڑھی مونڈ وانے والے اور پتلون پہنوانے والے اداروں اور ہوٹلوں میں ملازم ہیں، وہ کیوں ایسا کرتے ہیں اور ان کی داڑھیاں کیوں مونڈی ہوئی ہیں؟ تجھ مجھ پر الزام لگانے اور جھوٹے بہانے تراشنے سے آخرت میں چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔
شائع ہواالفاروق, ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ, Volume 26, No. 4

https://www.farooqia.com/node/314
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 79373 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.