الزامات کا مینا بازار

پاکستان میں ہاتھوں ہاتھ بِکنے والی چیز ’’الزام تراشی‘‘ ہے ۔ چھوٹا بڑا ، دُبلاپتلا یا موٹا تازہ ، جو الزام بھی لگا دیں ،فوراََ بِک جاتا ہے۔اِس کے لیے ضروری بھی نہیں کہ الزام لگانے والی کوئی معروف شخصیت ہو ۔ بس آپ نے الزام لگانا ہے باقی سب کچھ سوشل میڈیاپر بیٹھے ’’بزرجمہر‘‘ خود ہی سرانجام دے لیں گے۔ویسے تو ہمارے کپتان بھی الزامات کی بہت بڑی آڑھت سجائے بیٹھے ہیں جہاں ہر قسم کا الزام دستیاب ہے لیکن اب اُن کے’’سیاسی کزن‘‘ بھی تشریف لے آئے ہیں جنہیں الزامات کا ’’شہنشاہ‘‘ قرار دیا جائے توکچھ غلط نہ ہوگا۔ کپتان توبس ’’ایویں ای‘‘ الزام لگاتا رہتا ہے لیکن ’’مولاناکنیڈوی‘‘ پہلے اپنی زنبیل سے الزامات نکالتے ہیں پھر عالمی شرپسندوں سے مشورے کے بعد چیدہ چیدہ الزامات کے ساتھ پاکستان میں ’’رونق افروز‘‘ ہوتے ہیں لیکن اُن کی تشریف آوری ہمیشہ اُن مخصوص اوقات میں ہوتی ہے جب پاکستان میں افراتفری کا عالم ہو۔دَراصل مولانا جلتی پر تیل چھڑکنے میں مہارتِِ تامہ رکھتے ہیں اِس لیے وہ عین موقعے پر ’’چھَم سے‘‘ آن وارد ہوتے ہیں ۔ کپتان تو اپنے ’’ریلوکَٹوں‘‘ سمیت الزام لگاتا ہے لیکن مولانا اکیلے ہی کافی ہیں کہ فنِ تقریر میں وہ یکتاہیں اور مریدین کی کثیرتعداد اُن کے مُنہ سے نکلے حرف حرف کو جزوِایمانی سمجھتی ہے۔ اِسی لیے اُن کی باتوں کا رنگ بھی ’’چوکھا‘‘ ہوتاہے ۔دو بار تو وہ پاکستان میں انارکی پھیلانے کے منصوبے میں ناکام رہے اوراُنہیں بے نیل ومرام اپنے وطن لوٹنا پڑا۔اب دیکھتے ہیں کہ وہ اِس بار شریف خاندان کے خلاف کون سے ہتھیاروں سے لیس ہوکر آئے ہیں۔مولانا کے شریف خاندان کے خلاف انتہائی معاندانہ رویے کو دیکھ کر ہمیں بابِ علم حضرت علیؓ کا یہ قول یاد آجاتا ہے ’’جس پر احسان کرو ،اُس کے شَر سے ڈرو‘‘۔ طاہرالقادری وہ شخصیت ہیں جن پر شریف خاندان نے نوازشات کی بارش کیے رکھی۔ اُنہیں اتفاق مسجد میں امام بنایا اورمنہاج القرآن کے لیے جگہ عطا کی ۔یہ وہی مولانا طاہرالقادری ہیں جِن کی میاں شریف مرحوم نے دامے ،درہمے ،قدمے ،سخنے، ہر طرح سے مدد کی۔ بڑے میاں صاحب کا اپنے بیٹو ں نواز اورشہباز کو یہ حکم تھا کہ مولانا طاہرالقادری کی کوئی خواہش تشنہ نہ رہنے دی جائے ۔میاں نوازشریف اُنہیں اپنے کندھوں پر بٹھاکر غارِحرا تک لے کر گئے اور میاں شہبازشریف اُن کی جوتیاں سیدھی کرتے رہے۔ اب میاں برادران سوچتے تو ہوں گے کہ
جِِن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
وہ بولنے لگے تو ہمی پہ برس پڑے

مولانا 2014ء کے دھرنے میں تواپنے ’’سیاسی کزن‘‘ کو بیچ منجدھار چھوڑ کراپنے دیس’’پھُر‘‘ ہو گئے لیکن تب معاملہ ذرا مختلف تھا۔اُس وقت نوازلیگ ڈٹ کر میدان میں کھڑی تھی اور ساری سیاسی جماعتیں اُس کی پُشت پر۔لیکن اب میاں صاحب عدل کی دودھاری تلوار سے گھائل ہو چکے ہیں اور اپوزیشن منتشر بمانند ’’اپنی اپنی ڈفلی ،اپنا اپنا راگ‘‘۔ ایسے میں ملک دشمن قوتوں نے سوچا ہوگا کہ پاکستان میں انارکی پیدا کرنے کا یہ بہترین موقع ہے اِس لیے ضروری ہے کہ ’’مولاناکنیڈوی‘‘ کو عمران خاں کی مدد کے لیے پاکستان بھیجا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کسی ’’چھاتہ بردار‘‘ کی طرح پاکستان میں اُتر آئے اور ساتھ ہی ناصرباغ میں جلسہ بھی کرڈالا جس میں اُنہوں نے میاں نوازشریف کی نا اہلی پر طنز کے تیروں کی بارش کردی ۔ ایک ’’غیرملکی‘‘ تین بار کے منتخب وزیرِاعظم کو نشانۂ تضحیک بناتا رہا جس کا مقصد نوازلیگ کو اشتعال دلا کر تصادم کی فضا پیدا کرنے کے سِوا کچھ اور ہوہی نہیں سکتا۔ یہی تو وہ ایجنڈا ہے جو پاکستان دشمن قوتوں نے مولانا کنیڈوی کے سپرد کیا ہے۔

اُدھر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متنازع فیصلے کی بدولت نوازلیگ بھی عالمِ غیض میں ہے۔ وہ سڑکوں پر آکر اپنے لیڈر کی مقبولیت کا اظہار کرنا چاہتی ہے۔ اِس لیے تصادم کے عنصر کو درمیان سے نکالا نہیں جاسکتا۔ اگر خُدانخواستہ ایسا ہوگیا تو پاکستان آمریت کے گھوراندھیروں میں گُم ہوجائے گا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوگا۔بھٹو بمقابلہ پی این اے اورپیپلزپارٹی بمقابلہ نوازلیگ میں یہی کچھ تو ہوتا رہااور اب نوازلیگ بمقابلہ تحریکِ انصاف میں یہی تاریخ دہرائی جانے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عنقریب بی بی جمہوریت ایک دفعہ پھر روٹھ کر میکے جا بیٹھے گی ۔یہ ’’بی بی جمہوریت‘‘ بھی عجیب طوطاچشم ہے۔ اِسے اپنا سُسرال پسند ہی نہیں آتا۔ ہم نے طرح طرح کے جَتن کیے اور اِسے روٹھنے سے بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن شاید اِس بلغمی مزاج جمہوریت کو گرمی ہی راس ہے ۔اِسی لیے یہ ہمیشہ آمریت کی گود میں جا چھپتی ہے اور پھر آمر پرویز مشرف جیسا بھی سینہ تان کر کہتا ہے ’’آمریت ،جمہوریت سے بہترہے‘‘۔

میاں نوازشریف نے انتہائی بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کیا بلکہ فوری طور پر مستعفی بھی ہوگئے ،الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن کئی گھنٹے بعد جاری ہوا ۔پھرقومی اسمبلی کے اجلاس میں نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم منتخب ہوئے جو آج بھی میاں نوازشریف کو ’’میراوزیرِاعظم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر دیکھے تو اُسے میاں صاحب مقبولیت میں پہلے سے کئی گنا بڑھ کر نظر آئیں گے۔

آج میاں صاحب اپنے گھر (لاہور)کی طرف رواں دواں ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ میاں صاحب کا یہ قافلہ پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین قافلوں میں شمار ہوگا ۔خلقِ خُدا کے سارے راستے جی ٹی روڈ کی طرف مُڑ چکے ہیں اور خیال یہی ہے کہ یہ قافلہ تین دنوں میں لاہور پہنچ سکے گاحالانکہ سفر تو صرف 280 کلومیٹر ہے۔ اپوزیشن جماعتیں میاں صاحب کے جی ٹی روڈ کے ذریعے سفر پر پریشان ہیں اوراِس سفر کو ’’احتجاجی ریلی‘‘ کا نام دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب یہ بھی اپوزیشن جماعتیں طے کریں گی کہ میاں صاحب کو گھر جانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرناچاہیے ۔اپوزیشن کی سراسیمگی سے محظوظ ہوتی نوازلیگ کہہ رہی ہے کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ نوازلیگ نے اب اپنا نعرہ بھی تبدیل کرلیا ہے۔ یہ نعرہ ہے، دیکھو ،دیکھو کون آیا ۔۔۔۔صادق وامین آیا۔ جب صادق وامین کی یہ گونج عدل کے اونچے ایوانوں تک پہنچے گی تو یقیناََ ہماری انتہائی محترم عدلیہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی کہ کہیں پانچ رکنی بنچ سے غلط فیصلہ تو نہیں ہوگیا۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 894 Articles with 645301 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More