ہمیشہ سےاہل حدیث کا اس پر عمل رہاہے کہ فرض نمازوں کے
بعد سورہ فلق اور سورہ ناس کے ساتھ سورہ اخلاص بھی پڑھتے رہےہیں ، اس عمل
کے خلاف پہلے کسی میں اختلاف دیکھنے کو نظر نہیں آتا ہے ، اب کچھ لوگ اس
مسئلہ میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنا ثابت
نہیں ہے جبکہ دلائل کی روشنی میں فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنا بھی
ثابت ہے ۔
قبل اس کے کہ میں اس مسئلہ کی وضاحت کروں یہ بات جان لیں کہ سورہ اخلاص
معوذات میں سے نہیں ہے یعنی یہ سورہ پناہ مانگنے والی نہیں ہے کیونکہ شر سے
پناہ مانگنے والی کوئی بات اس سورت میں ذکر نہیں ہے ، اس میں اللہ کی صفات
کا ذکر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی اس سورت میں صفت رحمن کا ذکر ہونے کے
سبب نماز کی ہرقرات میں یہ سورت پڑھاکرتے تھے ۔ یہ حدیث بخاری شریف میں ہے
۔ اس پہ مختصرانداز میں اپنے ایک مضمون میں روشنی ڈالا ہوں جو میرے بلاگ
میں "کیا سورہ اخلاص معوذات میں سے ہے؟" کے تحت دیکھ سکتے ہیں ۔
اب چلتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف کہ فرض نمازوں کے بعد سورہ اخلاص پڑھنا ثابت
ہے ۔
عن عُقبةَ بنِ عامرٍ، قالَ: أمرَني رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ
وسلَّمَ أن أقرأَ بالمعوِّذاتِ دُبُرَ كلِّ صلاةٍ(صحيح أبي داود:1523، صحيح
النسائي:1335)
ترجمہ: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ہر نماز کے بعد معوذات
پڑھا کروں ۔
اس حدیث میں معوذات کا لفظ آیا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے کیونکہ یہاں معوذات
سے مراد سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس ہیں ، اور یہ عام سی بات ہے کہ
جمع کا اطلاق دو سے زائد پر ہوتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح سے معوذات کا لفظ تین
سورتوں (سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) کے لئے رات میں سونے کے وقت
دم کرنے سے متعلق وارد ہے ۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا أخذ مضجعَه نفثَ في
يدَيه، وقرأ بالمعوِّذاتِ، ومسح بهما جسدَه .(صحيح البخاري:6319)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر پھونکتے
اور معوذات پڑھتے اوردونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیر تے۔
سونے کے وقت دم کرنے سے متعلق معوذات کا لفظ تین سورتوں (سورہ اخلاص ، سورہ
فلق اور سورہ ناس) کو شامل ہے ۔ معوذات میں تین سورتوں کے شامل ہونے کی
دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كان إذا أوى إلى فراشِه كلَّ ليلةٍ،
جمع كفَّيه ثم نفث فيهما، فقرأ فيهما : {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } . و{
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ } . و{ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ } .
ثم يمسحُ بهما ما استطاعَ من جسدِه، يبدأُ بهما على رأسِه ووجهِه، وما أقبل
من جسدِه، يفعل ذلك ثلاثَ مراتٍ .(صحيح البخاري:5017)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب بستر پر آرام فرماتے تو اپنی
دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر قل ھو اللہ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ
برب الناس ( تینوں سورتیں مکمل ) پڑھ کر ان پرپھونکتے اور پھر دونوں
ہتھیلیوں کو جہا ں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے تھے ۔ پہلے سر اور چہرہ
پر ہاتھ پھیرتے اور سامنے کے بدن پر ۔ یہ عمل آپ تین دفعہ کرتے تھے ۔
اب بات بالکل واضح ہوگئی کہ نبی ﷺ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو ہرنماز
کے بعد معوذات پڑھنے کا جو حکم دیا تھا اس میں تین سورتیں داخل ہیں یعنی
سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس۔
چند اشکالات واوامر کی وضاحت
(1) ایک دوسری صحیح حدیث میں ہرنماز کے بعد معوذتین کا ذکر ہے یعنی
دوسورتوں (سورہ فلق اور سورہ ناس) کے پڑھنے کا ذکر ہے ۔ ترمذی میں ہے ۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي دُبُرِ كُلِّ
صَلَاةٍ(صحيح الترمذي:2903)
ترجمہ: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ
ہرنمازکے بعد معوذتین پڑھاکروں۔
یہاںمعوذتین کا لفظ آیاہے اور اوپر والی حدیث میں معوذات کا لفظ آیا ہے ۔
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ ایک حدیث میں دو سورتوں کا ذکر ہے تو دوسری
حدیث میں تین سورتوں کا کیونکہ نماز کے بعد اذکار میں صرف اتنی ہی زیادتی
نہیں ہے بلکہ دیگر احادیث سے اور بھی بہت سے اذکار ثابت ہیں ۔ تو جو زیادتی
صحیح حدیث سے ثابت ہوگی وہ سب قابل قبول ہیں ۔
(2) بعض لوگوں نے معوذتین کے لفظ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں دو
سورتوں کاہی ذکر ہے اس لئے معوذات سے بھی مراد دوصورتیں ہی ہیں ۔ یہ
استدلال غلط ہے ۔ میں نے اوپر واضح کردیا ہے کہ معوذات جمع کا صیغہ ہے اس
لئے اس سے دو سورتیں نہیں ،تین سورتیں مراد ہیں اور دم والی حدیث اس کی
واضح دلیل ہے ۔ کوئی دم والی حدیث کے معوذات سے تین سورتیں مراد لے اور
نماز بعد ذکر والی حدیث کے معوذات سے دو سورتیں مراد لے قطعا صحیح نہیں ہے
۔ یہ واضح تضاد ہے۔
(3) یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب سورہ اخلاص صفات الرحمن پر مشتمل ہے
تو اس کے لئے معوذات کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ
عربی کا قاعدہ تغلیب کے تحت معوذات کا استعمال ہواہے ۔ چونکہ دوسورتیں تعوذ
والی تھیں تو تیسری صفات الرحمن والی سورت کو معوذتین پر غلبہ دیتے ہوئے
معوذات کہاگیا ہے ۔ اور اس بات کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری
میں بھی ذکر کیا ہے اور اسے معتمد قرار دیا ہے ۔ رقمطراز ہیں:
وَيُحْتَمَلُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالْمُعَوِّذَاتِ هَاتَانِ السُّورَتَانِ
مَعَ سُورَةِ الْإِخْلَاصِ وَأَطْلَقَ ذَلِكَ تَغْلِيبًا وَهَذَا هُوَ
الْمُعْتَمَدُ۔
ترجمہ: اوراس بات کا احتمال ہے کہ معوذات سے ان دو سورتوں (سورہ فلق اور
سورہ ناس) کے ساتھ سورہ اخلاص بھی مراد ہو اور جمع کا صیغہ بطور تغلیب
استعمال کیا گیا ہو اور یہی بات معتمد ہے ۔
(4) ایک صحیح حدیث سے معلوم ہوتاہےکہ صبح وشام تین تین دفعہ سورہ اخلاص ،
سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھنا چاہئے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ
خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ نَطْلُبُ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا قَالَ
فَأَدْرَكْتُهُ فَقَالَ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ قُلْ فَلَمْ
أَقُلْ شَيْئًا قَالَ قُلْ فَقُلْتُ مَا أَقُولُ قَالَ قُلْ قُلْ هُوَ
اللَّهُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ
مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ(صحيح الترمذي:3575)
ترجمہ: عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک بارش والی سخت تاریک
رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تا کہ آپ ہمیں نماز پڑھادیں،
چنانچہ میں آپ کو پاگیا، آپ نے کہا: پڑھو تو میں نے کچھ نہ کہا: کہو آپ
نے پھر کہامگرمیں نے کچھ نہ کہا۔آپ نے پھر فرمایا:کہو میں نے کہا: کیا
کہوں؟ آپ نے کہا: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اورالْمُعَوِّذَتَيْنِ (سورہ
فلق اور سورہ ناس) صبح وشام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، یہ سورتیں تمہیں ہر شر
سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔
اس حدیث سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بطور اذکار تین سورتیں (سورہ
اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھنا ثابت ہیں ، اس بات سے معوذات سے تین
سورتیں مراد ہونے کو تقویت ملتی ہے ۔ نیز اس حدیث میں صحابی کا نبی ﷺ کے
ساتھ باجماعت نماز پڑھنے اور معوذات (سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس)
پڑھنے کا ذکر ہے ،گویا ان اذکار کاصرف صبح وشام کے اذکار کے ساتھ تعلق نہیں
بلکہ نماز سے بھی تعلق ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اہل علم نے لکھا ہے کہ تین تین دفعہ تینوں سورتوں کا
پڑھنا نماز سے متعلق نہیں ہے بلکہ صبح وشام کے اذکار سے متعلق ہے ۔
تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہت سے اہل علم نے نماز فجر اور نماز
مغرب کے بعد ان تنیوں سورتوں کو تین تین دفعہ پڑھنا اور بقیہ نمازوں کے بعد
ایک ایک دفعہ پڑھنا ذکر کیا ہے ، اس پر اکثر لوگوں کا عمل بھی ہے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اگر کوئی تین تین دفعہ فجر اور مغرب کی نمازوں کے بعد
پڑھ لیتا ہے تو بھی صحیح ہے کیونکہ وہ بھی صبح اور شام کا وقت ہےاور چاہے
تو فجر اور مغرب کی نماز کے بعد ان سورتوں کو ایک ایک دفعہ پڑھ لے اور جب
صبح وشام کے اذکارپڑھے تو اس وقت تین تین دفعہ پڑھ لے ۔
|