ازقلم: عنبر جمشید،بہاولنگر
حارث میاں تم کیوں نہیں سمجھ رہے۔ جہنم میں ٹھکانہ خرید رہے ہو تم۔ یہ والا
مسلک سراسر گمراہی ہے۔ عارف نے بحث کو مزید طوالت دیتے ہوئے کہا۔ مسلک
تمہارا جھوٹا ہے۔ جہنمی تم لوگ ہو۔ عبداﷲ نے غصے میں کہا۔ آقا (صلی اﷲ علیہ
وسلم) کی امت کے 73 فرقے ہوں گے جس میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور وہ
ہمارا ہوگا۔ حارث کے لہجے میں غرور تھا۔
ہرگز نہیں عبداﷲ چلایا۔ عین ممکن تھا کہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی کہ
قریب ہی کھڑے عارف نے ان کو خاموش کروایا۔ بات ہے کیا ؟ کیوں ایک دوسرے پر
اتنا چلا رہے ہو یار۔ اس نے تفصیل جاننی چاہیے۔ دونوں نے اپنے اپنے فرقے کے
حق میں دلائل دینے شروع کردیے۔ ’’میں یہ تو نہیں جانتا کہ کون جہنمی اور
کون جنتی ہے البتہ ہم نے اپنے ابا جان سے سنا تھا کہ دل سے کلمہ طیبہ پڑھنے
والا ہر شخص جنت میں جائے گا۔ ہمیں ایک دوسرے پر فتوے لگانے کا کوئی حق
نہیں۔ اچھے کو اچھائی اور برے کو برائی ملے گی۔ اب وہ دونوں عارف کی باتیں
سن رہے تھے۔
عارف اب بھی بول رہا تھا۔میں نے امام کعبہ کے خطبہ سنا تھا۔ جس کا اردو
ترجمہ کر کے پیش کیا جارہا تھا۔ امام کعبہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے سب سے
زیادہ اﷲ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اﷲ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ کسی پر
فتویٰ مت لگاؤ ہوسکتا ہے وہ تم سے بہتر ہو اور اﷲ تمہیں اس گنا ہ کے بدلے
میں جہنم میں ڈال دے۔ کل قیامت کے روز ایک شخص کی نیکیاں اس قدر ہوں گی کہ
وہ جنت میں جانے والا ہوگا مگر اتنے میں اس کا ایک جملہ جو اﷲ کو نا پسند
تھا اس نے ادا کیاہوگا اور اﷲ تعالیٰ اسے جہنم میں ڈال دے گا۔
عارف کی باتیں سن کر ان دونوں نے فوراً ایک دوسرے سے معافی مانگی اور پھر
آئندہ کسی پر کفریا جہنمی ہونے کا فتویٰ لگانے سے توبہ کرلی۔ دونوں نے اس
بات کا بھی وعدہ کیا کہ وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور
ایک دوسرے کو اچھی اچھی نصیحت کرتے رہیں گے۔
|