فروغ اردو کی اہمیت و ضرورت

ملکی استحکام میں اردو کی ضرورت و اہمیت کیا ہے اور اس میں قوم کا انفرادی کردار

تحریر: عائشہ صدیقہ، سیالکوٹ
دستور پاکستان کے دفعہ251 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آئین کے نفاذ سے 16برس کے اندر اس کے دفتری اور دیگر مقاصد میں استعمال کے انتظامات کیے جائیں گے۔ مگر اس کے باوجود یہ ذمہ داری التوا کا شکار رہی اور اردو کی جگہ انگریزی بطور سرکاری زبان رائج رہی جس نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔

8 ستمبر 2015 کو بالآخر سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری طور پر اختیار کرنے کا حکم جاری کردیا۔ لیکن آج بھی بہت سے ہم وطن انگریزی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرنے کے حق میں نظر آتے ہیں۔ اس کی توجیح پیش کرتے ہیں کہ اس کے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ ایسے ہم وطنوں سے عرض کرنا چاہوں گی کہ جناب ترقی کے لیے اپنی شناخت بھلانا تو ضروری نہیں اور انگریزی سیکھنے اور فروغ دینے کے لیے پاکستان میں متعدد بہترین معیاری ادارے موجود ہیں۔ مزید یہ کہ اسے نصاب سے باہر نہیں کیا جارہا کہ ہم عصر حاضر کے تقاضوں پہ پورا نا اتر سکیں۔ اس کے غیر سرکاری ہونے سے اسے کوئی نقصان نہیں مگر ملکی ترقی کے لیے اردو کا سرکاری زبان ہونا لازمی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جو ہمیں قومی طور پہ یکجا کرتی ہے۔ پاکستان کی 47% آبادی نا خواندہ ہے جبکہ باقی 53% خواندہ آبادی بھی انگریزی پر مکمل عبور نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس اردو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے۔ لہذا ایسا ملک جہاں کے 50% سے زائد لوگ انگریزی نہیں سمجھتے وہاں اسے سرکاری زبان کا درجہ دینا ان 50 % سے زائد لوگوں کو سرکاری ملازمتوں سے محض لسانی فرق کی بنیاد پہ محروم کرنا ہے۔ یہ قوم کے ساتھ سنگین زیادتی ہے۔ لہذا انگریزی کے حامی ہم وطنوں کو اپنی رائے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

بانی ملت قائد اعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1938 کو ڈھاکہ میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ط’’اردو زبان عظیم ثقافتی ورثے کی حامل ہے۔ پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اسلامی ملکوں کی زبان سے بھی قریب تر ہے۔ اس لیے پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ جو اس بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔‘‘

دفعہ 251 میں اسے سرکاری زبان بنانے کی گنجائش اسی لیے رکھی گئی کیونکہ قائد کی سیاسی بصیرت اس کی اہمیت کا پورا ادراک رکھتی تھی۔ قائد نے اردو کو واحد قومی زبان اس لیے لازمی ٹھہرایا کہ یہی وہ واحد زبان تھی جو ہمیں قومی شناخت کے سانچے میں ڈھال سکتی تھی۔ علاقائی ثقافت اپنی اہمیت کی حامل ہے مگر بحیثیت قوم ہماری ایک شناخت ہونا ضروری ہے۔ بنگلہ دیش جو بدقسمتی سے آج پاکستان کا حصہ نہیں ہے اس میں عام زبان بنگالی تھی مگر اردو بھی سمجھی جاتی تھی۔ لہذا مشرقی و مغربی پاکستان کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے ضروری تھا کہ پورے ملک میں بولی جانے والی زبان ایک ہو اور وہ صرف اردو ہو کیونکہ اردو کے علاوہ کوئی زبان اس معیار پر پورا نہیں اترسکتی تھی۔

قومی اتحاد اور تعصبات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ علاقائی ثقافتوں میں رابطہ قائم ہو جو مل کر پاکستانی ثقافت تشکیل دیں۔ اسی مشترکہ ثقافت کی نمائندہ ہماری عظیم اور پیاری زبان اردو ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنی قومی زبان کی قدر نہیں کرتیں ان کا دنیا میں کوئی وقار نہیں ہوتا۔ اور جتنی بھی قوموں نے ترقی کے آسمانوں کو چھوا وہ اپنی زبان کی بدولت تھا۔ آج بھی دنیا کے نقشے پہ ابھرتی بڑی طاقتوں کی بنیاد دیکھیں تو ترقی کی وجہ اپنی زبان کا فروغ ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا ہمسایہ ملک چین ہے۔
اگر ایک قوم اپنی زبان پر ہی فخر نہیں کرتی تو وہ اپنی خوداعتمادی کھو بیٹھتی ہے اور بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ اس قوم کے افراد جو غلامانہ ذہنیت کا شکار ہیں کسی بلند مقصد کے لیے اکٹھے ہو سکیں اور وہ قوم ہمیشہ کمزور رہتی ہے۔ قوموں کے درمیان کشمکش کی اس عالمی دنیا میں اپنا مقام کھو بیٹھتی ہے۔ لہٰذا اپنی بقا، یکجہتی اور ترقی کے لیے اردو کا مقام پہچاننا ناگزیر ہے۔

کیا وجہ ہے کہ تقسیم کے 70سال بعد بھی ہم اردو کو اس کا اصل مقام نہیں دے پائے اور دفعہ 251 کا مکمل نفاذ التوا کا شکار رہا حتی کہ 16کے بجائے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اردو کو سرکاری زبان بنانے میں تعویق ہوئی؟ ان وجوہات پہ بھی نظر ڈالتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ کون کہاں غفلت اور کوتاہی کا مرتکب ہے تاکہ حل کی راہ نکالی جاسکے۔

پاکستان کے افسر شاہی نظام نے آج تک اردو کو سرکاری زبان کے طور پر پنپنے نہیں دیا صرف اس لیے تاکہ انگریزی کی بدولت انہیں عام آدمی پر جو امتیاز حاصل ہے وہ ختم نا ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں طبقاتی تقسیم شدید ہوگئی ہے۔ اور حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ پاکستان جسے ایک فلاحی ریاست ہونا تھا آج ایک استحصالی ریاست بن گیا ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب اقتدار اعلی کے امیں قوم سے خطاب کرتے تو انگریزی میں لکھوائی گئی تقریر کو سبق کی طرح پڑھ کر اس بات کی پرواہ کیے بغیر فارغ ہوجاتے کہ ملک کے پچاس فیصد سے زائد عوام اسے کلی طور پہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ملک کے صدر،وزیراعظم اور دیگر افسران اعلی کو اس حقیقت کو سمجھنے، تسلیم کرنے اور اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے کہ وہ جب بھی قوم سے خطاب کریں عام فہم زبان میں کریں کیونکہ یہ عہدے قوم کی امانت ہیں۔ ان پہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس بارے میں کوتاہی کا شکار نہ ہوں اور اردو کو مکمل سرکاری زبان کے طور پہ اپنائیں اور اسے وہ مقام دیا جائے جو ایک آزاد ملک میں قومی زبان کا حق ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اردو کے ساتھ اپنے رویے تبدیل کریں اور اپنی قومی زبان سے محبت کریں اور اسے اپنائیں ناکہ انگریزی سے متاثر ہوں۔

اگر آپ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو سب سے پہلے اپنی سوچ اور پھر اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا ۔جو گھر کی لونڈی ہے اسے لونڈی کا مقام دیا جائے نا کہ سرکار کی جگہ پر بٹھادیا جائے۔حصول آزادی کے بعد آزادی سنبھالنا اس سے بھی کٹھن کام ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ فاتح قومیں غلبہ پانے کے بعد سب سے پہلے مفتوح قوم پہ اپنی زبان رائج کر کے انہیں اپنا ذہنی غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی کے بعد انگریز نے ہندوستان پہ انگریزی کو رائج کیا۔ عہدے اور ملازمتیں صرف انگریزی جاننے والے لوگوں تک محدود رکھی گئیں۔ تاکہ انگریزی کا فروغ ہوسکے۔

ہمارا بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے آزادی کے نام پر زمین کا ٹکڑا تو حاصل کر لیا مگر ذہنی طور پر وہی غلام کے غلام ہیں۔ ہماری آئیڈیالوجی اسلام ہے مگر ہمارے آئیڈیل انگریز اور ان کی انگریزی۔ اسی کشمکش میں ہم نے اپنی قومی شناخت کھو دی ہے اور باہمی انتشار کا شکار ہیں۔دنیا کی کسی قوم نے خود پہ قابض دشمن فاتح کی پرستش نہ کی ہوگی جتنے ہم آزادی کے بعد اپنے دشمنوں کے پرستار ہیں۔ ہمیں انگریزی لباس، چھری کانٹے سے کھانا، انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں۔ جو انگریزی نہیں جانتے وہ اکثر احساس کمتری کے مارے ان کے سامنے بولتے ہی نہیں۔ ہمیں اپنی چیزوں پہ حق جتانا نہیں آتا۔ ہمیں اپنی ہی زبان اپناتے شرم آتی ہے۔ ہم منہ ٹیڑا کر کے غلط انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں بہ نسبت درست اردو کے۔ اس احساس کمتری کی وجہ سے قوم میں ایک تناؤ برقرار ہے۔ اس طرح ہم اپنے ہی لوگوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کے مجرم ہوتے ہیں۔ اور یہ اپنی زبان اردو کے ساتھ بھی خیانت ہے۔ وزارتیں صرف انگریزی جاننے والے لوگوں تک محدود رکھی گئیں۔

وطن سے وفا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اردو سے محبت کریں۔صرف اس پہ فخر کریں اور اس کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ مستقل اور دیانتدارانہ کوششیں کریں۔اس کے لیے ہر شخص اپنے اپنے طور پر اردو کا زیادہ استعمال کرے تاکہ مخاطب بھی اردو میں بات کرے۔ رومن اردو کے بجائے اردو،رسم الخط استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ ابتدا ء میں دوران گفتگو عام فہم اردو زبان کا انتخاب کریں تاکہ سمجھنے میں مشکل نا پیش آئے۔ بکیں، چیئرز، بائک جیسے بے معنی الفاظ کی جگہ کتابیں، کتب، کرسیاں، موٹر گاڑیاں جیسے بامعنی الفاظ استعمال کریں۔ عرصہ ہوا ہمارے کچھ مصنفین نے اردو میں انگریزی کے پیوند لگا کر لکھنے کی عجیب و غریب روش اپنالی اور اپنے افسانوں میں مغربی ثقافت اپنانے اور انگریزی میں بات کرنے والوں کو متاثر کن کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسے مصنفین کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ انگریزی نا لکھیں اور اگر انگریزی کا کوئی لفظ لامحالہ استعمال کرنا ہی ہے تو پھر اسے اردو میں لکھیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1013552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.