کبھی کسی بھائی کی کوئی چیز چھُپا دینی تو کبھی کسی لڑکی کی " چُٹیا " کھینچ دینی۔ کبھی ہمسائیوں کا دروازہ بجا کے بھاگ جانا۔" />

بچپن کی حسین یادیں

بچپن کے وہ خوشیوں اور شوخیوں سے بھرے دن بھی اچانک کہاں غائب ہوگئے۔
کہ نہ کوئی روزی روٹی کا مسئلہ، نہ کوئی ایسا دکھ یا پریشانی کہ جو ہماری خوشیوں کے آڑے آئے۔
کوئی خوشی ہو یا غمی، ہمیں کیا مطلب؟ اپنے " ہم عمروں " کو دیکھا اور لگ گئے کھیل کود میں۔
کبھی کسی بھائی کی کوئی چیز چھُپا دینی تو کبھی کسی لڑکی کی " چُٹیا " کھینچ دینی۔ کبھی ہمسائیوں کا دروازہ بجا کے بھاگ جانا۔

بچپن کی حسین یادیں

قارئین کیسے ہیں۔ امید ہیں ہمیشہ کی طرح خوش و خرم ہوں گے۔
آج میں نے سوچا بچپن کے لمحات پر کچھ مغزماری کی جائے۔
پھر سوچا آپ لوگوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا تو کھلی ناانصافی ہوگی۔
بچپن تو ہر کسی کا ہی خوشیوں بھرا ہوتا ہے۔
پر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ یہ خوشیاں عمر بھر انسان کے ساتھ رہتی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو یہ خوشیاں راس نہیں آتیں۔
چلیئے چھوڑیے یہ سب آئیے مطلب کی بات پر آتے ہیں۔

بچپن کے وہ خوشیوں اور شوخیوں سے بھرے دن بھی اچانک کہاں غائب ہوگئے۔
کہ نہ کوئی روزی روٹی کا مسئلہ، نہ کوئی ایسا دکھ یا پریشانی کہ جو ہماری خوشیوں کے آڑے آئے۔
کوئی خوشی ہو یا غمی، ہمیں کیا مطلب؟ اپنے " ہم عمروں " کو دیکھا اور لگ گئے کھیل کود میں۔
کبھی کسی بھائی کی کوئی چیز چھُپا دینی تو کبھی کسی لڑکی کی " چُٹیا " کھینچ دینی۔ کبھی ہمسائیوں کا دروازہ بجا کے بھاگ جانا۔

گرمی سردی کا بھی " لحاظ " نہیں کرنا۔ جب سبھی گھر والے مارے گرمی اور تھکاوٹ " گھوڑے بیچ " کے سو رہے ہوتے تو اپنے دوستوں اور ہم جولیوں کے ساتھ باہر کھیتوں اور ٹِبّوں پرنکل جانا اور مٹی میں کھیل کود کے شام کو گھر آ جانا اور پھر اماں جان سے خوب " کوٹ پینی " ۔
سردیوں میں بھی نہ آؤ دیکھنا نہ تاؤ دیکھنا اور پانی سے کھیلنا شروع کر دینا۔
بچپن میں بہت سوں کو تو بہت مرتبہ شرارتوں پر مار بھی پڑتی، مگر بچپن تو بچپن ہی ہوتا ہے پھر سے وہی کام، وہی شرارتیں۔

کچھ کھیلیں جو بہت مشہور و معروف رہیں، ان کا ذکر نہ کرنا بھی ناانصافی والی بات ہوگی۔
اب زمانہ گو کہ پہلے والا نہیں رہا ،جو پہلے تھا کہ جب " گِلّی ڈنڈا "،" سائیکل کا پہیہ ہاتھوں یا کسی لکڑی سے بھگانا "،" کُنچے " اور وہ " کوکلا چھپاکی اج جمعرات آئی اے، جیہڑا پچھّے مُڑ کے ویکھے اوہدی شامت آئی اے "، جیسی کھیلیں کھیلی جاتی تھیں۔ گو کہ ہم پر ایسا زمانہ نہیں آیا کہ ہم شہر میں پلے بڑھے ہیں اور شہروں میں گاؤں کی نسبت کھیلیں بھی کم ہیں، شہروں کے بچے بھی گاؤں کے بچوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھا بہت ہے۔ اگر کبھی آبائی گاؤں جانا ہوتا تو پہلے ہی سختی سے تلقین کر دی جاتی کہ " خبردار " جو اپنے کپڑے گندے کیے یا مٹی میں کھیلے۔ اگر کبھی دوسرے بچوں کو کھیلتا دیکھ کر اُن کے ساتھ کھیلنے لگ جاتے تو کپڑے گندے ہونا لازمی تھا اور اس کے بعد کپڑوں کے ساتھ ہماری " دُھلائی " بھی لازمی تھی۔

وہ کاغذ کی کشتیاں بنا کر بارش کے پانی میں چلانا پھر اگر کسی کی کشتی گیلی ہو کر پانی میں ڈوب جانی تو اُس پر ہنسنا۔ یہ جو پکی گلیاں اور بازار بن چکے ہیں، اس وقت نہیں ہوا کرتے تھے۔ تب مٹی کے ہوا کرتے تھے اور بارش ہوئی نہیں کہ کیچڑ بن گیا، پھر خوب" سلپیں " لگا کرنی۔

کاغذ کے جہاز: یہ بھی بہت ہی عجیب و غریب اور دلچسپ تفریح تھی۔ کاغذ کے جہاز بنا کر " پھونک " مار کر اٰڑایا کرتے تھے اور اگر دورانِ پرواز جہاز نے ہوا میں دو تین ہی قلابازیاں کھا لینی تو کہنا " میرا جہاز ٹوری ہے "۔ اک بات کی مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اکثر جہاز کو سر کے بالوں پر بھی ملا جاتا تھا، مگر پتہ نہیں کیوں؟ یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ اکثر جہاز آپس میں ٹکرا جانے تو چلانا کہ جہاز کریش ہو گئے۔

غرض ہر طرح سے بچپن " موج " اور " تفریح " میں گزرتا ہے۔
اب تو زمانہ بھی وہ والا نہیں رہا، آج کل تو لوگ اپنے بچوں کو باہر ہی نہیں نکلنے دیتے کہ بچہ بیمار پڑ جائے گا، فلاں بیماری لگ جائے گی۔
پھر کچھ عرصہ بیتتا ہے۔
کچھ کچھ سمجھ بوجھ آنے لگتی ہے۔
چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں، احساسات و جذبات کے بارے میں جاننے لگتے ہیں۔
ابھی خوشیوں سے دل بھر بھی نہیں پاتا کہ کچھ غربت کے مارے بچے تو روزی روٹی میں لگ جاتے ہیں۔۔
وہ زمانہ کہ جب بچے کو نئی نئی سمجھ بُوجھ ہوتی چیزوں کی، ایسے میں زمانہ اُن معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے سے بھی باز نہیں آتا۔
والسلام

Paaris Sohail
About the Author: Paaris Sohail Read More Articles by Paaris Sohail: 2 Articles with 8345 views Web Developer, Designer, Self Athlete and Poet... View More