''سالگرہ''

آج میرے پاکستان کی ۷۰ ویں سالگرہ ہے،مجھے اس کی دوستی پرفخرہے۔جب میں اس کے ہمراہ ہوتاہوں تومجھے ایک گونہ اطمینان ہوتاہے ۔ پاکستان کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس کو جو ساتھی ملے،اس کے خلوص،اس کی محبت،اس کی ہمدردی،اس کی وسیع القلبی کابے جااستعمال کرتے رہے۔ پاکستان یہ سب چکرسمجھتاتھامگراپنی طبعی شرافت کی وجہ سے اس نے یہ سارے معاملات اللہ پرچھوڑرکھے تھے ۔جب میں اپنے گھر سے باہر نکلاتو میں نے جگہ جگہ اجتماعات دیکھے جس میں مقرر حضرات پاکستان سے اپنی دوستی اور محبت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر رطب اللسان تھے۔میں ایک جلسے سے دوسرے پھر دوسرے سے تیسرے میں پاکستان کو تلاش کرتا رہامگر ایسا لگتا تھا کہ شائد وہ اپنی اس ۷۰ویں سالگرہ کی تیاریوں میں نہ توشریک ہوناچاہتاہے اورنہ دوسروں کی شرکت پراسے کوئی خوشی ہورہی ہے۔

ان پریشان کن خیالات کولیکر میں نے گلی گلی اس کوڈھونڈناشروع کیا،جیسے جیسے میری تلاش بڑھتی گئی،میری امیدکمزورپڑتی گئی اوروقت بھی تنگ ہوتا چلاگیا۔مجھے یہ بھی فکرلاحق تھی کہ شام کومیرے پوتوں نے بھی پاکستان سے مل کرمبارکباددیناتھی،اگرمجھے پاکستان نہ ملاتومیں ان کوکیاجواب دوں گا، ویسے بھی بچے پاکستان سے میری دوستی کوایک خواب ہی سمجھے تھے اور میں نے بڑے وثوق سے ان کویقین دلایاتھاکہ میں تم کوبتاؤں گاکہ میں اور پاکستان کتنے اچھے دوست اورساتھی ہیں۔اچانک خیال آیاکہ پاکستان جب گھبراتا ہے یاکسی بات پراس کوصدمہ ہوتاہے تووہ ایک ہی جگہ ملتاہے۔یہ خیال آتے ہی میں الٹے پاؤں بھاگتا ہواگھرآیااوراپنے پوتوں کوساتھ لیکرقائداعظم کے مزارکی طرف روانہ ہوگیا۔بابائے قوم کے مزارکے احاطے میں آیاتو کیا دیکھتاہوں کہ پاکستان باباکی قبرسے لپٹاہچکیاں لے رہاہے۔

قدموں کی آہٹ پرپاکستان نے اپناچہرہ قبرسے الگ کیااوراپنی سوجھی ہوئی آنکھوں سے میری طرف لپکا۔میں نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ پھیلائے،بغل گیرہوتے ہی میں نے کہا کہ پاکستان تم اپنی سالگرہ کے جلسوں میں کیوں نہیں تھے؟ اس نے مجھے فوراًاپنے سے الگ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے میراکندھا پکڑکرزورسے جھٹکادیاکہ تم بھی مجھے یہی کہنے کیلئے آئے ہو؟کیاکوئی اپنی سالگرہ اس منافقت سے مناسکتاہے؟میں نے کہاکہ میں تمہاری بات نہیں سمجھا، اس پرپاکستان نے مجھے یہ کہاکہ کیامجھے میرے باپ نے اسی لئے جنم دیاتھا کہ میری جنم بھومی عروس البلادمیں ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری، لینڈ مافیا،قتل و غارتگری،شوت،چوربازاری اورغنڈہ گردی کوختم کرنے کیلئے پچھلے تین سالوں سے مسلسل میرے بچے دن رات اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر اس کاامن واپس لانے کیلئے کوشاں ہیں توہزاروں میل دوربرطانیہ میں بیٹھااسی شہر کاایک مفرورپہلے تومیرے وجودکو دشمن کی سرزمین پرمجھے تاریخ کی ایک بڑی غلطی قراردیتارہااوراب توثابت بھی ہوگیا کہ وہ میرے وجودمسعودکوختم کرنے کیلئے باقاعدہ میرے ازلی دشمن سے مالی مددکےعلاوہ اپنے کارکنوں کو دہشت گردی کی تربیت بھی دلوارہاہے۔دکھ تواس بات کاہے کہ میں توتمہیں باوقارانداز میں آزاد کرواکے گیاتھا،مگریہ ناہنجارمیری تصویر کو اپنی پشت پرلٹکاکرمیری غیرت کوسرِعام نیلام کرنے کیلئے کوشاں ہے اورتم سب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کرکسی مصلحت کی بناء پراف تک نہ کرو،حتیٰ کہ اب باقاعدہ دنیاکے ۵۵ممالک کوبشمول بھارت کومددکیلئے پکاررہاہے؟؟؟؟؟

میں جب ایک سال اورکچھ دن کاتھاتومجھ سے میرے بابابچھڑگئے،اس یتیم کو پالنے کیلئے میرے چچاؤں نے بھرپورکرداراداکیااورآہستہ آہستہ وہ لوگ بھی مجھ سے بچھڑ گئے۔ایک پھوپھی تھی جومیری غمخواراور ہمدردتھی،باپ کی کمی جب مجھے محسوس ہوتی تومیں ان کی گودمیں سررکھ دیتااوربے انتہا سکون پاتا ۔ افسوس وہ بھی مجھ سے جداہوگئیں،میں غیروں کے رحم وکرم پرآگیا،جوچچااوررشتہ دارکروڑپتی،نواب،صاحبِ حیثیت تھے،انہوں نے اپنا تمام دھن مجھ پرلٹادیا اورمرتے وقت ان کی زبان سے میرے لئے دعائے خیر کے کلمات ہی نکلے کہ اے اللہ!پاکستان کی حفاظت کرنا(آمین)۔

اب تم خودہی بتاؤکیاوہ لوگ عظیم تھے جنہوں نے ایک یتیم کی پرورش کرنے کیلئے اپنی جان ومال داؤپرلگادیئے یاوہ لوگ عظیم ہیں جومیری جائیداد،میری دولت کولوٹتے رہے اوراپنے ناموں اوراپنی اولادوں کے نام منتقل کرتے رہے اورپھرڈھٹائی دیکھوکہ اس یتیم کوبجائے سنوارنے اوربنانے کے ایک بازو سے بھی محروم کردیااورپھربھی میری محبت کاجھوٹادم بھرتے ہیں۔اب تم خودہی بتاؤ کیامیں ان کی محفلوں میں شریک ہوسکتاہوں؟

میں نے کہا دیکھو میرے ساتھ میرے پوتے بھی آئے ہیں اور میں بڑے فخر سے اپنی اور تمہاری دوستی کے متعلق بتاتا ہوں تویہ مانتے نہیں۔پاکستان نے میرے پوتوں کوگلے لگایااورکہااے بچو!تمہارے اورتمہارے داداجیسے لوگ مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں اورانہی جیسے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک مملکتِ خدادادہوں ورنہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کاشکارہوکرکب کاختم ہوگیا ہوتا۔ مجھے آج بھی یادہے جب تمہاراباپ میراایک بازوکٹ جانے کی خبرسن کرزمین پرگرگیاتھاتواس کے سرپرایک چوٹ آئی تھی تومیرے ہی دوسرے سلامت مگر زخمی ہاتھ نے اس کوسہارادیکرزمین سے اٹھایااوراس کے زخم پراپنی محبت کا مرہم رکھااوریہ احساس اسی وقت پیداہوتاہے جب کسی کیلئے زندگی جیسی قیمتی چیزبھی قربان کردی جائے۔وہ لوگ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جو ایمانداری، وفاداری اورخلوص کے ساتھ میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اورکسی قسم کا صلہ نہیں چاہتے۔

پاکستان نے ان کومسرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ بچو !میری خدمت یامجھ سے محبت کے اوربھی بے شمارانداز ہیں جومیں تم کوبتاناچاہتاہوں۔لال بتی پر رکنا، قانون کی پاسداری کرنا،اپنے اختیارات کاناجا ئزاستعمال نہیں کرنااورمظلوموں کے حقوق دلانا،یہ بھی مجھ سے محبت کے اندازہیں۔اپنے کام کوتندہی سے کرنا، میرے باباکے فرمان''ایمان،اتحاد،تنظیم''کی پاسداری کرنااورجس منصب پرفائزہو اس کوایمانداری سے انجام دینابھی میری محبت ہے۔میری پوتی نے کہاکہ پاکستان !میں نے آج صبح اسکول میں آپ کے باباکے احسانات پرتقریر کی تھی اور مجھے یہ دیکھ کربہت افسوس ہواکہ میں جب تقریرکررہی تھی تواسٹیج پربیٹھے بزرگ بجائے میری بات سننے کے باتوں میں مشغول ہوگئے اورمیری تقریر کے بعد جب یہ اعلان ہواکہ اب ان کی خدمت میں ایک گانا اور رقص پیش کیاجائے گا تووہ خوشی کے مارے اپنی اپنی کر سیوں سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے اورمسلسل تالیوں کے ساتھ وہ زمین پر پاؤں مارنے لگے۔

پاکستان نے سرد آہ بھری اورمیری پوتی کے سرپراپنا کانپتا ہاتھ رکھ کر کہابیٹی! تم صحیح کہہ رہی ہو،ہمارے بڑوں نے اپنے مقصدِحیات کارخ صحیح راہ پرنہیں ڈالاجس کے نتیجے میں ہم اپنا تمدن اورثقافت،آداب واطوارفراموش کر بیٹھے،پھر پاکستان نے کہابیٹا!یہ میرےبابا کی عظمت ہے کہ آزادی کی جنگ میں جہاں لاکھوں افراد قربان ہوتے ہیں انہوں نے ایک گولی چلائے بغیراورایک قطرہ خوں بہائے بغیراتنی بڑی اسلامی مملکت وجود میں لے آئے،یہ الگ بات ہے کہ فرنگی اور ہندو بنئے کی سازشوں نے میرے ہزاروں بچوں کوہجرت کرتے ہوئے کاٹ دیالیکن اس کے باوجود وہ جب مجھ سے ملے توان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے۔پھرپاکستان نے میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہابیٹا!تم استادہومگرتمہارایہ علم اور پیشہ تمہارے لئے دولت کمانے کاذریعہ نہ بنے بلکہ تمہارے ساتھیوں اوردوسرے شہریوں کیلئے باعثِ خدمت ہو،یہی تمہاری محبت کااظہار ہوگا۔پھر ننھے معصوم پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ یہ عمر معصومیت کی ہے اوراس کی معصومیت کوبچانااوراس کی حفاظت کرنایہ تم بڑوں کاکام ہے۔یہ ابن الوقت لوگ جواس وقت میرے نام کی بیساکھی لیکرسیاسی میدان میں اونچا اڑناچاہتے ہیں،وہ زیادہ عرصے تک پنپ نہیں پائیں گے۔

بچو!میں تمہیں آج ایک رازکی بات بتاتاہوں کہ تمہارے ابواورداداکی محبت جووہ مجھ سے کرتے ہیں، ایک عجیب سی محبت ہے۔یہ دنیامیں جہاں جہاں بھی گئے میرے نام کوبلندہی کرتے رہے!ایک بات اور بتادوں کہ آج صبح تمہارے ابو نے اپنے تمام ساتھیوں کوکانفرنس روم میں جمع کیااورمیرے بھائی اقبال کی لکھی ایک نظم''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنامیری''سب نے مل کرپڑھی،پھرہر ایک نے باری باری میری تاریخِ آزادی اورلوگوں کی مجھ سے عقیدت اور محبت کے اوپراپنے خیالات کااظہارکیا۔محبت کا یہ اظہارکسی کے زور،کسی زبردستی، کسی لالچ کے بغیرتھا،سب ساتھیوں کے چہروں پرجذبات کی حرارت،آنکھوں میں فرطِ محبت سے امڈے ہوئے آنسواورکپکپاتے ہوئے لب اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ یہ اوران جیسے بے شمار لوگ اب بھی مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں توبچو تم بھی اپنے ابواوران کے ساتھیوں جیسے بنوکیونکہ تم ہی سے ان کی کل اورمیری نئی صبح وابستہ ہے۔ پاکستان کی آوازگلوگیرتھی اور وہ خاموش کھڑااپنے باپ سے کہہ رہا تھا۔

"بابا!تم نے میراایک تشخص بنایا،آپ توجانتے ہیں کہ میرے وجودکویقین میں بدلنے کیلئے صدی کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی اوراس عمل میں ہزاروں جانیں قربان ہوگئیں،دس ہزارسے زائدبچیاں توصرف مشرقی پنجاب میں لاپتہ ہو گئیں،لاکھوں افراداپنے گھروں کوچھوڑ کراس امیدپرمیرے دامن میں پناہ لینے کیلئے آئے کہ یہاں اپنے رب سے کئے گئے وعدے پرعمل پیراہوکرقرآن کونافذ کیاجائے گالیکن آج تک مجھ پرحکومت کرنے کیلئے کبھی جمہوریت کانام لیتے ہیں،کوئی''جمہوریت کوسب سے بڑاانتقام "قراردیکرمیری مشکیں کس دیتاہے، کوئی میرے نام کے ساتھ ''نیا''کالاحقہ لگاکرمجھ پرسواری کاخواہاں ہے اوراس میں شک نہیں کہ تمہارے چندساتھیوں نے اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کی اورکچھ نادانوں نے اس رنگ کو اپنی حماقتوں سے مٹانے کی کوشش کی اوراب تومسلسل ڈھٹائی کے ساتھ میرے وجود کو مٹانے کے درپے ہیں۔ متنازعہ کشمیر جس کوتم نے میری شہ رگ قراردیا تھا،پچھلی سات دہائیوں سے جانوں کی بے مثال قربانیاں دیکراپنے عزم صمیم کوثابت کردیاہے بلکہ اب پچھلے ڈیڑھ سال سے بدترین ظلم وستم کانشانہ بن رہے ہیں کہ بھارتی درندے پیلٹ گن کے چھروں سے براہِ راست نوجوانوں کوشکارکررہے ہیں لیکن مجھ پرحکومت کرنے کیلئے اغیار کے احکام کے اس قدرتابعدارہیں کہ دشمن کی دہشتگردی کے تمام شواہد کے باوجوداس سے ایسے مرعوب ہیں جس نے میری غیرت و حمیت کو تارتار کردیاہے۔بابا!مگراب بھی بہت سے تیرے جانثار(سیدعلی گیلانی کی قیادت میں) میری محبت میں تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیارہیں اورجنت نظیرمیں بیٹھ کر''ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے''کے فلک شگاف نعرے لگاکرمجھ سے پر خلوص محبت کانہ صرف اظہارکرتے ہیں بلکہ پیرانہ سالی میں پچھلے سات سال سے گھرمیں نظربند صعوبتوں کامقابلہ بھی بڑی پامردی سے کررہے ہیں۔ بابا!میری ایک بہادردخترآسیہ اندرابی بھی ہے جوہرسال میری سالگرہ بڑے پر عزم طریقے سے مناکر میرے وجودکی گواہی دیتی ہے لیکن اس مرتبہ بھارتی ظالم درندےاس کو جموں جیل میں بندکرکے ذہنی طورپرٹارچرکررہے ہیں۔ مجھے امید ہے میرا نام ، میری شناخت انشاء اللہ ختم نہیں ہوسکتی!پھر پاکستان نے اپنا آنسوؤں سے ترچہرہ اٹھایا،میرااور میرے بچوں کاہاتھ پکڑا،ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان پائندہ باداورقائد اعظم زندہ بادکے پرجوش نعرے لگائے،قومی ترانہ پڑھ کرمزارسے باہرآئے۔سب نے باری باری پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایااور تجدیدِ عہدکرکے ہم لوگ اپنے گھرکوواپس ہوئے(پاکستان پائندہ باد)

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.