کڈنی سینٹرملتان کے دورہ کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا ہے کہ تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ جان لے
کہ میں ان کانہیں غریبوں کانمائندہ ہوں۔حکومت کی طرف سے فنڈزمیں کمی نہ
ہونے کے باوجودمریضوں کومفت ادویات نہ دینابرداشت نہیں کروں گا ۔ شہباز
شریف نے کہا کہ عوامی شکایات ناقابل برداشت ہیں ۔دوائیاں سوفیصدمفت ملنی
چاہییں۔وزیراعلیٰ شہبازشریف کاکہناتھا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کوسہولیات کی
فراہمی مقدم ہے۔اربوں روپے کی لاگت سے جدیدترین ہسپتال بنانے کایہ مقصدنہیں
غریب مریضوں کواپنی جیب سے ادویات خریدنی پڑیں۔ان کاکہناتھا کہ کڈنی سنٹرکی
عمارت کے تعمیری نقائص دورکرنے کامارچ میں کہاتھا۔مگراس پرعملدرآمدنہیں
ہوا۔جس پرایس ڈی اوبلڈنگ، اکسین اورڈائریکٹرپلاننگ کومعطل کردیا ہے۔ قبل
ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے مریضوں کی عیادت اوران سے ادویات
اورعلاج معالجہ بارے دریافت کیابعض مریضوں کی جانب سے ادویات نہ ملنے شکایت
پروزیراعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی اوران کودوائی کے پیسے واپس
کرنے کے احکامات جاری کیے۔جبکہ قطاروں میں کھڑے ہوئے مریضوں کانوٹس لیتے
ہوئے انہیں مزیدسہولیات فراہم کرنے کاکہا۔شہبازشریف نے ہسپتال کادورہ بھی
کیا، سیلن زدہ دیواریں دیکھیں۔واش رومزکی ٹوٹنیوں میں پانی نہ آنے پرمتعلقہ
عملہ کومعطل کردیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف عوام کوبنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہروقت
کوشاں رہتے ہیں۔ہسپتالوں، ان میں سہولیات اورادویات بارے وہ پہلے بھی متحرک
ہیں۔جعلی ادویات کے خاتمے کے لیے ان کاعزم بھی سب کے سامنے ہے۔وزیراعلیٰ
پنجاب شہبازشریف پنجاب کے کسی بھی ہسپتال کادورہ کرلیں اس کی صورت حال کڈنی
سنٹرملتان سے ملتی جلتی ہوئی ہی ملے گی۔بہت کم ہسپتال ہی ایسے ملیں گے جہاں
مریضوں کوتمام سہولیات فراہم کی جارہی ہوں گی۔پچھلے چارسال کے اخبارات
اٹھاکردیکھ لیں ،ان اخباروں میں ہسپتالوں کی طرف سے زائدالمیعادادویات ضائع
کرنے کی ہی خبریں جمع کرلیں توہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ہسپتالوں میں
زائدالمیعادادویات ضائع کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حکومت کی طرف سے
مریضوں کوسہولیات کی فراہمی کے لیے فنڈز اور ادویات دی جاتی ہیں وہ مریضوں
کونہیں ملتیں۔ہسپتالوں میں زائدالمیعادادویات ضائع کرنے سے یہ بات بھی ثابت
ہوجاتی ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات تو موجودہوتی ہیں لیکن وہ پڑی پڑی
ایکسپائرہوجاتی ہیں مریضوں کونہیں دی جاتی ہیں۔ہم تمام مشکلات اورمسائل
کاذمہ دارحکومت یاوزیراعلیٰ کوسمجھتے ہیں۔حکومت نے فنڈزبھی فراہم کردیے ہوں
،ادویات بھی فراہم کردی ہوں اوروہ مریضوں کونہ ملیں توکیااس میں شہبازشریف
کاقصورہے۔کیایہ بھی وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ کے تمام سرکاری
ہسپتالوں میں مریضوں خودجاکرادویات فراہم کریں۔ہسپتالوں کی انتظامیہ
اورڈاکٹرزکس لیے ہیں۔کیامحکمہ صحت کے مقامی ذمہ داروں کے علم میں یہ بات
نہیں ہوتی کہ ان کے زیرانتظام ہسپتالوں میں مریضوں کوکس طرح کی سہولیات دی
جارہی ہیں۔مریضوں کوادویات ہسپتال سے مل رہی ہیں یاوہ میڈیکل سٹوروں سے
خریدرہے ہیں۔حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فنڈزاورادویات کے مطابق مریضوں
کوسہولیات اورادویات نہ ملنے کامقامی افسران کیوں نوٹس نہیں لیتے۔محکمہ صحت
کے مقامی افسران اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہوتے توکڈنی سنٹرملتان میں
شہبازشریف کویہ شکایت سننے کونہ ملتی کہ ادویات نہیں مل رہی ہیں۔ایک طرف
ہسپتالوں میں سہولیات کی یہ صورت حال ہے کہ مریضوں ادویات بھی میڈیکل
سٹوروں سے خریدناپڑتی ہیں تودوسری طرف ڈاکٹرزکوئی نہ کوئی جوازبناکرآئے
روزہڑتال کردیتے ہیں۔کئی روزجاری رہنے والی ڈاکٹروں کی تازہ ترین ہڑتال بھی
چندروزپہلے ختم ہوئی ہے۔ایک طرف حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فنڈزکے مطابق
مریضوں کوسہولیات اورادویات نہیں دی جاتیں تودوسری طرف ڈاکٹرزآئے
روزہڑتالیں کرکے مریضوں کوبے یارومددگارچھوڑدیتے ہیں۔مریض چاہے جس حال میں
رہیں ڈاکٹروں کواس سے کوئی غرض نہیں ہوتی انہیں توہڑتالیں کرنے اوراپنے
مطالبات منوانے سے ہی غرض ہوتی ہے۔ہسپتالوں میں موجودمریضوں سے انہیں کوئی
سروکارنہیں ہوتا۔حکومت فنڈزاورادویات بھی فراہم کرے اورمریض سہولیات
اورادویات نہ ملیں تویہ کس کی ذمہ داری ہے۔کیااس کایہی علاج ہے کہ
شہبازشریف اپنی دیگرتمام مصروفیات چوڑ کرہسپتالوں میں چھاپے مارتے رہیں،
وہاں مریضوں سے ادویات اوردیگرسہولیات بارے دریافت کرتے رہیں، ہسپتالوں کے
عملے کومعطل اورادویات کے پیسے واپس کرنے کے احکامات جاری کرتے رہیں۔کیایہ
ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ صوبہ کے تمام ہسپتالوں میں ایک ہی دن چھاپے ماریں۔وہ
زیادہ سے زیادہ ایک دن میں کتنے ہسپتالوں کوچیک کرلیں گے ،دویاچارزیادہ سے
زیادہ پانچ ہسپتال۔فرض کریں شہبازشریف اپنی دیگرتمام مصروفیات چھوڑ
کرہسپتالوں میں ہی چھاپے مارنے شروع کردیتے ہیں توکیاہسپتالوں میں مریضوں
ادویات اوردیگرسہولیات ملناشروع ہوجائیں گی۔سب سے اہم بات یہ کہ اس بات کی
کیاگارنٹی ہے کہ وزیراعلیٰ جس ہسپتال میں چھاپہ ماریں ،وہاں مریضوں ادویات
اوردیگرسہولیات کی فراہمی چیک کریں، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں
،شہبازشریف کے جانے کے بعداس ہسپتال کے مریضوں کوادویات اوردیگرسہولیات
ملناشروع ہوجائیں گی۔ہسپتالوں میں مریضوں کوبیڈ نہ ملنے اورمریضوں سے پیسے
لے کردل کے اسٹنٹ نہ ڈالنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔یہ وہ
تمام شکایات ہیں جومحکمہ صحت کے مقامی افسران اورہسپتالوں کے ایم ایس
دورکرسکتے ہیں۔لازمی سروس ایکٹ نافذ کرکے ڈاکٹروں کی آئے روزکی ہڑتالوں
کوتوروکاجاسکتا ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کوادویات اوردیگرسہولیات کی فراہمی
یقینی بنانے کے لیے پہلے ہی شہبازشریف مسلسل کام کررہے ہیں۔وہ نہ توروزانہ
ہرہسپتال میں چھاپہ مارسکتے ہیں اورنہ ہی وہ اپنی دیگرمصروفیات چھوڑکرصرف
ہسپتالوں کوفوکس کرسکتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آج سے یہ اعلان
کردیں کہ حکومت پنجاب کی طرف سے مطلوبہ فنڈزاورادویات کی فراہمی کے بعدبھی
جس ہسپتال سے کوئی شکایت ملی تومقامی افسران کونہ صرف ملازمت سے برخواست
کردیاجائے گا بلکہ انہیں دیگراداروں میں ملازمت کے لیے بھی نااہل کردیاجائے
گا۔اس سلسلہ میں کوئی عذربھی قبول نہیں کیا جائے گا۔اگرایسامسئلہ درپیش
آجاتاہے جس کوحل کرنامقامی ذمہ داروں کے اختیارمیں نہ ہوتووہ سیکرٹری صحت
اورحکومت پنجاب کوبروقت آگاہ کریں۔یہ تمام انتظامات واحکامات جاری کرنے کے
بعد وزیراعلیٰ شہبازشریف ہسپتالوں کوآن لائن سسٹم سے منسلک کریں۔مریض کے
پرچی بنوانے سے لے کرہسپتال سے واپس جانے تک تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ اورآن
لائن ہوناچاہیے۔مریض چاہے آؤٹ ڈورکاہویاان ڈورکا سب مریضوں کاریکارڈ
کمپیوٹرائزڈبھی ہوناچاہیے اور آن لائن بھی۔صوبہ کے تمام سرکاری ہسپتال
انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔جب مریض ہسپتال کے استقبالیہ
پرپرچی بنوانے آئے تووہاں کمپیوٹرکے ساتھ کیمرہ بھی منسلک ہوناچاہیے جوں ہی
مریض ہسپتال کے استقبالیہ سے پرچی بنوانے آئے تواس کی
تصویرخودبخودکمپیوٹرکے ذریعے آن لائن ہو جائے ۔مریض کوپرچی بھی کمپیوٹرائزڈ
دی جائے جس میں اس کانام ولدیت ،ایڈریس ،موبائل نمبراوردیگرضروری معلومات
درج کی جائیں۔یہ کمپیوٹرہسپتالوں کے تمام ڈاکٹروں، ڈسپنسریوں اوردیگرشعبہ
جات میں بھی موجودہوں۔تمام ڈاکٹروں اورڈسپنسریوں کے کمپیوٹرزکے ساتھ بھی
کیمرے منسلک کیے جائیں ۔ڈاکٹروں ،ڈسپنسریوں کے کمپیوٹرزبھی آن لائن ہوں۔
مریض جوں ہی استقبالیہ سیب پرچی بنواکرنکلے تواس کاریکارڈ تمام ڈاکٹروں
،ضلعی، ڈویژنل اورصوبائی سطح پربنائے گئے کنڑول رومزتک بھی بذریعہ انٹرنیٹ
پہنچ جائے۔تاکہ ضلع سے صوبہ تک کنٹرول رومزمیں یہ ریکارڈ آن لائن ہوجائے کہ
کس ہسپتال میں کون سامریض آیا ہے اورکس ڈاکٹرکے پاس آیا ہے۔ڈاکٹراس مریض کے
مرض کی تشخیص کے بعد جودوائی تجویزکرے تومریض کواس کی پرچی کمپیوٹرائزڈ دے
،اس ڈاکٹرکے پاس مریض کی تصویراورتجویزکردہ ادویات کاریکارڈ بھی آن لائن
ہوجائے۔پھریہ مریض جب ڈسپنسری سے ادویات لینے جائے تووہاں بھی کمپیوٹرزکے
ساتھ کیمرے نصب ہوں مریض کی تصویراوراس کوفراہم کی گئی ادویات کاریکارڈ
براہ راست آن لائن ہوتارہے۔ہسپتالوں کایہ آن لائن سسٹم یہ بھی بتائے کہ کسی
بھی مریض کوڈاکٹرنے جوادویات تجویزکی تھیں کیاوہ ہسپتال کی ڈسپنسری میں
موجودہیں ، اوریہ سسٹم اس بات کی نشاندہی بھی کرے کہ مریض کوڈاکٹرنے جو
ادویات تجویزکی تھیں کیااسے فراہم کردی گئی ہیں۔تمام ہسپتالوں کی ڈسپنسریوں
کوجوادویات فراہم کی جائیں اس کاریکارڈ بھی آن لائن کیاجائے۔ہسپتالوں کے
وارڈزکاریکارڈبھی آن لائن کیاجائے، وہاں مریضوں کودی جانے والی ادویات
اوردیگرسہولیات کاریکارڈبھی آن لائن کیاجائے۔جس مریض کوبھی ادویات دی
جائیںیااس کی جوبھی دیکھ بھال کی جائے تواس کاریکارڈ بھی آن لائن
ہو۔ہرہسپتال کے باہردوکیمرے شکایات کے لیے بھی لگائے جائیں وہ کیمرے بھی
انٹرنیٹ سے منسلک کیے جائیں ان کیمروں کے سامنے کھڑے ہوکرمریض شکایات
سناسکیں کہ انہیں کس ہسپتال میں کیاشکایت ہے۔م ریض جوں ہی ہسپتال کی
ڈسپنسری سے ادویات لے کرجائے تواس کے موبائل نمبرپرایس ایم ایس کیاجائے، جس
میں مریض سے پوچھاجائے کہ کیااسے ڈاکٹرزکی تجویزکردہ ادویات مل چکی ہیں ،اس
کے علاوہ ہسپتالوں کے وارڈزمین داخل مریضوں کے موبائل نمبرزپربھی روزانہ
ایس ایم ایس کرکے ان سے ادویات اوردیگرسہولیات بارے پوچھاجائے ، اس ایس ایم
ایس کاجواب دینا فری ہو،مریض کے مو بائل سے بیلنس نہ کاٹ لیاجائے۔شہریوں
کوبھی یہ سہولت دی جائے کہ وہ جب چاہیں وہ ویب سائٹ یاایس ایم ایس کے ذریعے
معلوم کرسکیں کہ ان کی مطلوبہ دوائی ان کے مطلوبہ ہسپتال میں موجودہے
یانہیں۔ہسپتالوں کاسسٹم آن لائن ہونے سے ضلعی ،ڈویژنل اورصوبائی سطح
پرسرکاری ہسپتالوں کومانیٹرکیاجاسکے گا، ان ہسپتالوں کوفراہم کیے فنڈز،
ادویات اورمریضوں کوفراہم کی گئی ادویات اوردیگرسہولیات کے ریکارڈ کوبھی
مانیٹرکیاجاسکے گا۔ہسپتالوں کے آن لائن سسٹم کے ذریعے یہ ریکارڈ بھی ہروقت
آن لائن ہوکہ کون سے ہسپتال میں کتنے بیڈزموجودہیں، کتنے بیڈز پر مریض
موجودہیں اورکتنے بیڈزخالی ہیں۔اگرمریض زیادہ ہوجائیں تویہ بھی بات بھی
سسٹم میں آجائے کہ کون سے ہسپتال میں کتنے بیڈزکی کمی ہے۔ہسپتال کے
دیگرمتفرق انتظامات کیسے ہیں۔یہ بات بھی آن لائن سسٹم میں موجودہوکہ کون سے
ہسپتال میں کس مرض کے لیے کون ساڈاکٹرتعینات ہے۔یہ بات بھی روزانہ آن لائن
کی جائے کہ کس ہسپتال میں کون کون ساڈاکٹرڈیوٹی پرموجودہے اورکون
ساڈاکٹرچھٹی پرہے اوراس کی جگہ کون ساڈاکٹرڈیوٹی دے رہاہے۔ اس سسٹم کے
ذریعے خودبخودیہ ریکارڈ اپ گریڈ ہوتارہے کہ کس ہسپتال میں اس وقت کتنی
ادویات مریضوں کودی جاچکی ہیں اورکتنی ادویات باقی ہیں۔ ہسپتالوں کاسسٹم آن
لائن ہونے سے یہ تونہیں کہاجاسکتاکہ شکایات کاسوفیصدخاتمہ ہوجائے گا کیونکہ
پاکستانی ہرپریشانی کاحل نکال لیتے ہیں۔البتہ یہ ضرورکہاجاسکتاہے کہ اس
سسٹم سے ہسپتالوں میں مریضوں کی تشخیص ، ادویات اوردیگرسہولیات کی فراہمی
میں بہتری آجائے گی، مریضوں کوپائی جانے والی شکایات میں نمایاں کمی آجائے
گی۔اس سسٹم کی مخالفت بھی ہوسکتی ہے۔وقت اگرچہ کم ہے چونکہ موجودہ اسمبلیوں
مدت بہت کم رہ گئی ہے ،وزیراعلیٰ شہبازشریف ہسپتالوں کاسسٹم آن لائن کر دیں
تویہ ان کاصوبہ کی عوام پرایک اوراحسان ہوگا۔ |