ارے او سامبا! کتنے آدمی تھے؟ یہ ڈائیلاگ گبھر سنگھ کے
ہیں جو کہ اُس نے اپنے مخالفین کے لئے بولے تھے تا کہ اپنی اور اُن کی طاقت
کا موازنہ کیا جا سکے، گبھر سنگھ کا کردار ایک ڈاکو کے طور پر تھا جو کہ
ہندی فلم شولے سے تھا مگر حقیقی زندگی میں بھی گبھر ایک ڈاکو ہی تھا جو کہ
1926 ء میں مدھیہ پردیش کے گاؤں ڈنگ میں پیدا ہوا 1955 میں گبھر اپنا گاؤں
چھوڑ کر بدنام زمانہ کلیان سنگھ گجرکے گینگ میں شامل ہو گیا گبھر ڈھولپور
گاؤں میں خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا اور مشہور ہے کہ گبھر نے 116 لوگوں
کے ناک کاٹ دئے تھے۔
ایک ڈاکو کی کہانی بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی مختلف قسم
کے گبھر پائے جاتے ہیں جو کہ لوگوں کے ناک تو نہیں کاٹتے مگر لوگوں کو
ناکوں چنے ضرور چبواتے ہیں اور ہر گبھر کومخالفین کی تعداد کی زیادہ فکر
ہوتی ہے حال ہی میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ریلی نا اہل ہونے کے بعد
بذریعہ گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) لاہور کی جانب رواں دواں ہے اور اس ریلی
میں سب سے زیادہ جو چیز دیکھنے میں مل رہی ہے وہ ہے لوگوں کی تعداد، ریلی
کا مقصد جو بھی ہو مخالفین کا سارا زور آدمی گننے پر ہے اور اس گنتی میں
ہمارا میڈیا بھرپور ساتھ دے رہا ہے جو میڈیا حکومت کے ساتھ ہے وہ بڑھا چڑھا
کر تعداد بتا رہا ہے اور جو اپوزیشن کا میڈیا ہے وہ تعداد کم بتا کر اپنی
وفاداری کا ثبوت پیش کر رہا ہے مختصر یہ کہ جس کا بھاؤ زیادہ اُس کی جے جے
کال!
قارئین کرام ! اس تمام بھیڑ چال میں عوام برابر کی حصہ دار ہے ہماری عوام
بھی بکی ہوئی ہے ہمارے لیڈر بھی بکے ہوئے ہیں ہماری صحافی برادری بھی بکی
ہوئی ہے آپ نواز کی ریلی دیکھ رہے ہیں آپ نے عمران کی ریلی بھی دیکھی ہے آپ
نے طاہر القادری کی بھی ریلی دیکھی ہو گی آپ بلاول کے بھی جلسے میں شریک
ہوئے ہونگے آپ جماعت اسلامی والوں کو بھی جانتے ہوں گے آپ الطاف حسین کی
فون کال پر بھی جاتے ہونگے اور آپ فضل الرحمان کے دربار میں بھی حاضری دیتے
ہوں گے یعنی کے ’’مالِ مفت دلِ بے رحم ‘‘ کے مصداق عوام ہر جگہ پہنچ جاتی
ہے چاہے اُس کا جلسے یا ریلی سے کوئی سروکار ہو یا نا ہو جیسے بیچ چوراہے
میں مداری اپنی ڈگڈگی لے کر بجاتا ہے اور ساتھ میں ایک آواز دیتا ہے کہ بچہ
جمورا تماشہ دیکھے گا تو لوگ رُک رُک کر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں پھر آناََ
فاناََ جگمگٹھا لگ جاتا ہے اسی جگمگٹھے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اپنا تیل
بیچتا ہے اور پھر یہ جا وہ جااور بچہ جمورا اپنا وقت و پیسہ ضائع کر کے
چمتکاری تیل کا چمتکار دیکھنے کا انتظار کرنے لگ جاتا ہے مگر یہ بھول کر کہ
ہتھیلی پہ سرسوں نہیں جمتا، کسی جماعت کا جلسہ ہو یا کسی مداری کا تماشہ
لوگ اکٹھے ہو ہی جاتے ہیں چنانچے لوگوں کے ہجوم سے اس بات کا اندازہ نہیں
لگایا جا سکتا کہ اُن کے ذہن میں کیا ہے وہ اپنے لیڈر کی حمائت میں اکٹھے
ہوئے ہیں یا مداری کا تماشہ دیکھنے بعض دوستوں سے پوچھا گیا کہ تم لوگ
عمران کے جلسے میں بھی جاتے ہو اور نواز کی ریلی میں بھی آخر یہ ماجرا کیا
ہے تو جواب موصول ہوا کہ عمران کے جلسے میں انٹرٹینمنٹ بہت ہوتی ہے ناچ
گانا ہوتا ہے اور اور کچھ پل کے لئے آنکھیں بھی ٹھنڈی کر لیتے ہیں اسی طرح
نواز کی ریلی میں ناچ گانے کے ساتھ پیسے بھی مل جاتے ہیں جس کی تازہ مثال
گوجرانوالہ میں دیکھنے کو ملی کہ لوگوں کو جمع رکھنے کے لئے نوٹ نچھاور کئے
گئے قارئین کرام آپ خود اندازہ کریں کہ ہماری عوام کا حال کیا ہے کسی کے
پاس کوئی خاص وجوہ نہیں ہے جو وہ بیان کر سکے کہ وہ جلسے جلوسوں میں کیونکر
جاتا ہے ؟وقت گزاری کے لئے، کھانے کے لئے یا بارات سے نوٹ لُوٹنے کے لئے،
اس عوام کو اس بات سے قطعاََ کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ جس جلسے میں وہ گئے
ہیں وہ جلسہ ہو کس مقصد کے لئے ہے کیا وہ نا اہل وزیر اعظم کے ساتھ اظہار
یکجہتی کے لئے گیاہے یا جمہوری حکومت کو ڈی ریل کرنے کے لئے جلسہ کیا جا
رہا ہے یا کسی کی ٹانگ کھینچنے کے لئے لوگوں کو سڑکوں پر بلایا جا رہا ہے
یا پھر کسی غیر ملکی قوتوں کی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے ملک میں بد امنی
پیدا کی جا رہی ہے ، ابا جی کہتے ہیں کہ:
’’ گُل گئے گُلشن گئے گُل کتیرے رہ گئے
آدمی تھے جو وہ چل بسے باقی اُلو کے پٹھے رہ گئے‘‘
ابا جی کی بات واقع قابل غور ہے کہ اب سیاست صرف پیسے اور جی حضوری تک
محدود ہو کر رہ گئی ہے جو پائے کے سیاستدان تھے لیڈر تھے جن کا منشور عوامی
مسائل کا حل تھا وہ اب نہیں رہے اب صرف اُلو کے پٹھے ہی باقی بچے ہیں جن کو
عوامی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کسی ماں کا بچہ ریلی میں حادثے کا
شکار ہو جائے یا کسی کی ماں کو منہ میں گولی مار دی جائے، کسی کو سٹیج سے
کارکن کے گرنے کی خبر ملے اور وہ ٹس سے مس نہ ہو یا پھر پروٹوکول کے دوران
کوئی معصوم ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ جائے کسی سیاسی لیڈر یا وزیر کو
عام انسان کی پرواہ نہیں کیونکہ یہ عام انسان ہے ہی جوتیاں کھانے کے لائق
اس عام انسان کو عادت ہو گئی ہے ہر جگہ سر گھسانے کی یہ خود چاہتے ہی ایسا
ہیں جیسا ان کے ساتھ ہو رہا ہے :
’’ بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نا بدل
ڈالے اور جب اﷲ کسی کو بُرے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی
نہیں ٹال سکتا اور اﷲ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہو سکتا
(الرعد11- ) ‘‘ جس کا مرا دکھ اس کو ہوتا ہے لاوارث سمجھ کر لوگ آگے نکل
جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نا ہو کہ مداری پٹاری میں سے سانپ نکال لے اور وہ
سانپ نکلتا دیکھ نا سکیں قارئین کرام! میں اور آپ انہیں عوام میں سے ہیں
انہیں تماشہ گیر میں سے ہیں جو اپنی منزل چھوڑ کر راہ چلتے تماشہ دیکھنے
رُک جاتے ہیں جس کا فائدہ صرف اور صرف مداری کو ہوتا ہے اس لئے کوشش کریں
کہ اپنے شعور کا صحیح استعمال ہو کسی کی نا اہلی کے لئے ریلیاں نکالنا کہاں
کا دستور ہے، کسی کو اقتدار کا لالچ ہو اور اس میں عوام کا کوئی بھی مفاد
نا ہو وہاں راتیں گزارنے کا کوئی مقصد نہیں ہے ، کوئی تین مہینے بعد آئے
اور عوام سے ووٹ، سپورٹ کے ساتھ نوٹ بھی مانگے تو سمجھ لیں کہ معاملہ گڑ بڑ
ہے اس کا استقبال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جو باہر بیٹھ کر پاکستان کی
باتیں کریں ان کی باتیں سُننے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے جو اقتدار
میں رہ کر بھی عوامی مسائل کا حل نا نکال سکیں ان کو اقتدار سے نکال دینا
چاہئے اس لئے صرف وہاں جمع ہوں جہاں اپنے یا اپنے کسی بھائی کے فائدے کا
کوئی کام ہو جہاں عوام کی بات ہو، جہاں عوام کی فلاح کے منصوبے بننے ہوں
وگرنہ اپنے کام میں مگن رہیں یہ مداری خود بخود غائب ہو جائیں گے اور کسی
بھی طرح سے ان سیاسی گبھر سنگھوں سے ڈرنے کی ضرور ت نہیں کیونکہ یہ ڈائیلاگ
بھی ڈاکو گبھر سنگھ کا ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا اس طرح کسی سیاسی گبھر
سنگھ کو یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ:
ارے او سامبا! کتنے آدمی تھے؟ |