اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدہ رزق پر مکمّل بھروسہ رکھنا چاہیئے

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’زمین پر چلنے والے جتنے بھی جاندار ہیں سب کا رزق اللہ کے ذمّہ ہے وہ جانتا ہے کہ کون کس جگہ ٹھہرے گا اور کس جگہ سپرد خاک ہوگا‘‘ اور فرمایا کہ ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ بہتر رزق دینے والے ہیں‘‘(القرآن)۔

امّت مسلمہ کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں جو ارشاد فرمائے ہیں مثلاً مخلوقات کو روزی دینے،انکی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے ، دعائیں قبول کرنے یا کوئی اور وعدہ کیا گیا ہے تو یہ کوئی عام انسانوں جیسا کلام نہیں جیسے ہم کسی سے کوئی وعدہ کرتے ہیں اور اسے پورا کرنے کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ ہمارے وعدہ کے بارہ میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ جو پورا ہو جائے اسے وعدہ ہی نہیں کہتے۔

مگر اللہ تبارک و تعالی ٰ کے وعدوں کے بارہ میں یہ بات نہیں ، قرآن پاک میں ا نسانوں یا دیگر مخلوقات کو روزی دینے کا جو وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا اور پکا ہے اسکے خلاف ہرگز نہیں ہو سکتا اور جس ذات نے یہ وعدہ کیا ہے اسے اپنا وعدہ پورا کرنے کی زیادہ فکر ہے۔

مگر اسکے باوجود عام طور پر لوگوں کے ذہن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے روز ی دینے کے بارہ میں ایک عام سا تصور ہے ہاں جی! روزی دینے والا تو اللہ ہی ہے اسی نے دینی ہے مگر آپ کاروباری لوگوں یا ملازمت پیشہ لوگوں کو دیکھ لیں کہ سب کچھ چلتا ہے مثلاً کاروبار میں ناپ تول میں کمی بیشی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، سودا فروخت کرتے وقت کوئی اور مال دکھانا اور دیتے وقت کوئی اور،غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے مال فروخت کرنا وغیرہ ،اسی طرح رشوت لینا تو عام سی بات ہے جسے عرف میں ’’چائے پانی ‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ایمانداری سے کاروبار کرنے والے اور ملازمت کرنے والے لوگ بھی ہیں مگر یہ ایک عام مثال بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح لوٹ مار،ڈاکہ زنی اور مال ہتھیانے کیلئے قتل و غارت گری کرنا وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدہ رزق پر یقین کامل ہو کیا وہ یہ سب کام کر سکتا ہے اور کیا اس کے ذہن میں ایک منٹ کیلئے بھی یہ بات آتی ہے کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں؟اور جس ذات نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کا رزق کھا کر میں اس مقام پر پہنچا ہوں کیا وہ میری ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں؟ مگر یہ خیال کم ہی ذہن میںآتا ہے اور عام طور لوگ حصول رزق کو ہی اپنا مقصد حیات بنالیتے ہیں۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدہ رزق پر مکمّل بھروسہ رکھنا چاہئیے اور حصول رزق کیلئے جائز ذریعے کام میں لانے چاہیءں، قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’جو اللہ پر بھروسہ رکھے تو اللہ اس کیلئے کافی ہے‘‘ لہٰذا جب بھی مومن مسلمان شخص اللہ تبارک و تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اسکی جملہ ضروریات کیلئے کافی ہو جاتا ہے۔

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320890 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More