ایمان کی تعریف ہے کے ارکان ایمان کا:
1. زبان سے اقرار
2. دل سے یقین
3. جسم سے عمل
4. جو اللہ کی فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے
(اسکی دلیل بخاری مسلم میں موجود ہے)
امام اوزاعی فرمائے ہیں، مفہوم: جو شخص یہ نہیں مانتا کہ ایمان زیادہ اور
کم ہوتا ہے وہ بدعتی ہے
(امام لالکائ شرح اصول اعتقاد اہل السنتہ والجماعتہ صفحہ 56،57)
ایمان کے چھ ارکان ہیں۔ یعنی سب سے پہلے اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان،
اللہ کی نازل کردہ کتابوں و صحیفوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان،
آخرت کے دن پر ایمان اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ
وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ
الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ
ترجمہ: ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً
اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر
اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو،
(سورۃ بقرۃ:2 آیت: 177)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل میں ایمان کے بارے میں
پوچھنے پر فرمایا:
قَالَ " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ
وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ " .
قَالَ صَدَقْتَ .
اور (پھر) اُس شخص نے (دوسرا سوال پیش کرتے ہوئے) کہا مجھے اِیمان کے بارے
میں بتایے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جواباً اِرشاد فرمایا
(اِیمان یہ ہے ) کہ تُم اللہ پر، اور(اللہ کے) فرشتوں پر، اور(اللہ کی)
کتابوں پر، اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھو اور تقدیر کا (اللہ کی طرف سے )
خیر والی اور شر والی ہونے پر اِیمان رکھو، اُس شخص نے کہا آپ نے سچ
فرمایا،
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 8)
جیسے کہ یہ باتیں بچپن سے بچوں کو بھی سکھائ جاتی ہیں مگر افسوس اس بات پر
ہے کہ اسکے دلائل قرآن و السنتہ سے مزین نہیں سکھائے جاتے۔ آج کے بچے پہلے
والے بچے نہیں ہیں۔ آج کے بچے بہت تیزی سے دنیائ عیش و آرام اور ٹیکنولجی
کی طرف گامزن ہیں۔ اسلیے میری دانست میں دینی اعتبار سے بھی ان کے والدین
کو تیزی سے حرکت کرتے ہوئے ان کو دینی آگاہی زیادہ سے زیادہ دینی چاہیے۔ جس
طرح دنیاوی اعتبار سے وہ نیی سے نیی جدت آختیار کر رہا ہے آپ جوابا اس بچے
کو دین کے مسائل دلائل سے مزین سکھائیں۔
قارئین کرام، یقین مانیں، اگر آج آپ نے اپنے بچوں پر دینی اعتبار سے محنت
کی تو کل آپ اس محنت کا پھل ضرور کھائیں گے، جب سخت فتنوں کے دور میں آپ کا
بچہ دینی اعتبار سے علم اور تقوی سے مزین ہو گا۔ ان شاء اللہ
|