شوہروں سے یہ شکایت کرتی خواتین

تحریر : عبداﷲ قریشی
آج کے دور میں جہاں میڈیا آزاد اور معلومات کا حصول انتہائی آسان ہوگیا وہیں ٹیلیویژن، فلموں اور ڈراموں نے ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے شروع کردیے ہیں۔ عموما شوہر حضرات سے سننے کو ملتا ہے کہ ان کی بیگمات کو دیگر شکایات کے ساتھ ساتھ سر فہرست یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ ’’آپ تو رومینٹک ہی نہیں ہیں‘‘۔

ہر انسان کا یا یہ یوں کہا جائے ہر جاندار کا رومینٹک یا رومانی ہونا اس کی فطرت کا انتہائی اہم حصہ ہوتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے جس کے تحت قدرت نے جانداروں کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور اس ہی وجہ سے کسی بھی معاشرے یہ خطے میں انسانوں کا رومینٹک یا رومانی ہونا اس کی فطرت کے عین مطابق ہوتاہے۔ یورپین ممالک میں تو اس بات کا اظہار انتہائی آزادی کے ساتھ اور بہت کھل کر کیا جاتا ہے لیکن مشرقی معاشرے میں اس پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔دیگر معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی مرد صرف اور صرف اپنی ضروریات کا ہی غلام رہے گیا ہے جبکہ وہ اپنے اندر کے رمانس کو چھپاتا اور اس کا اظہار نہیں کرتا۔ حالانکہ جب قدرت نے مردوں کی فطرت میں رومانس رکھ دیا ہے تو اس انکار یا اسے رد کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق جو مرد زیادہ رومینٹک یا رومانی ہوتے ہیں ان کی ترجیحات اور ضروریات ان مردو کی نسبت جو ذرا کم رومینٹک ہوتے ہیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مرد جب زیادہ رومینٹک ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جھوٹی باتوں، جھوٹی اداؤں یا جھوٹے احساسات کا اظہار بڑے بے ہنگم انداز میں کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ عادت جب پختہ ہو جاتی ہو تو وہ اس بات کا اظہار ہر خوبصورت نظر آنے والی صنف نازک پر کرنا شروع کردیتا ہے ،جس سے رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے برے اثرات رونما ہوتے جاتے ہیں۔تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو مرد ذرا کم رومینٹک یا رومانی ہوتے ہیں وہ اپنے رشتوں کو اعتدال اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اسی حوالے سے کچھ روز قبل سعودی عرب کے جریدے ’’سدا ‘‘ کی ایک خبر پر نظر وں سے گزری تھی۔ ’’سعودی عرب میں شوہر نے زیادہ رومینٹک ہونے پر بیوی کو طلاق دے دی‘‘۔

خبر اپنی جگہ تاہم میرا خیال ہے کہ ہماری روایات ان معاملات میں ان سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ مختلف معاشروں کے لوگوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہوسکتی ہیں تاہم سب اہم بات یہ ہے کہ آپ کا ہمسفر کیسا ہے یہ آپ کو دیکھنا ہے۔ اس میں خامی ڈھونڈ کر اسے رد کرنے کے بجائے اس میں خوبیاں ڈھونڈ کر اپنانے کی کوشش کی جائے۔رومانس زندگی کا ایک جزو ہے تاہم مکمل زندگی کا تعلق رمانس نہیں ہے۔ بیگمات کو اپنے شوہر کی خوبیوں پر ہی نظر رکھتے ہوئے دیگر غیر ضروری باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔

جیسے ایک گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی اس طرح ازدواجی زندگی کا بیلنس بھی میاں بیوی کے درمیان مکمل اعتماد اور ہم آہنگی کے ساتھ برابر رکھا جاسکتا ہے۔ ایک بیوی کی ترجیحات اس کا شوہر ہے تو اسی طرح شوہر کی ترجیحات بھی بیوی کی خواہشات کا احترام کرنا ہے۔ شوہر کو اپنے اندر کا رومانس دبا کر رکھنے کے بجائے اس کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے۔ اﷲ نے ایک صلاحیت اور ایک فطرت دی ہے تو اس پر شکر ادا کرتے ہوئے ہمیشہ بن سنور کر رہیں۔ خوبصورتی کو اﷲ تعالیٰ پسند کرتا ہے ۔ آپ بن سنور کر رہنے میں اﷲ کی رضا بھی ہے اور گھروالی کی رضا بھی اس میں پنہاں ہیں۔

رومانس کوئی برائی نہیں ہے اور نہ اس کے ذریعے کوئی شوہر اپنی بیوی سے کم تر ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف اس سے رشتے جڑے رہتے ہیں بلکہ دلی تسکین اور شادی کے حقیقی مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد بھی صرف یہ سمجھانا ہے کہ اپنے ساتھی سے بطور بیوی یا شوہر اس کی فطرت کے برخلاف کچھ ڈیمانڈ یا تقاضہ کرنا آپ کی ازدواجی زندگی میں پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ محبت اور اعتماد اور سکون کے ساتھ اپنے ساتھی کی عادت کو بدلنے کی کوشش کریں اور خاطر خواہ نتیجہ نہ ملنے کی صورت میں کوشش جاری رکھیں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.