آخر کار پنجاب حکومت حسب سابق عوام کو ذلیل وخوار کرنے کے
بعد ڈاکٹروں کے تمام مطالبات مان چکی ہے اور ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ کی دو
انگلیوں کے ساتھ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے فتح کے جشن سے اپنے کام کا آغاز
کردیا ہے گذرے ہوئے ان 15ایام میں سینکڑوں مریض ان بے رحم افراد کے رحم
وکرم پر رہے جنکی بے بسی اور لاچارگی پر حکومت کو رحم آیا نہ ہی ڈاکٹروں نے
ترس کھایاہسپتالوں میں مریض آتے رہے ٹرپتے رہے اور چیخ وپکار کرتے رہے مگر
کسی نے انکی ایک نہ سنی اور ان میں سے بہت سے افراد اپنے پیاروں سے الگ
ہوگئے گھر کے ایک فرد کے چلے جانے سے اہل خانہ پر جو بیتتی ہے وہی بہتر
جانتے ہیں اور خدا نخواستہ اگر گھر کا سربراہ ہی چلا جائے تو پھر وہ خاندان
تنکوں کی طرح بکھر جاتا ہے تقریبا 15دن تک ڈاکٹر سڑکوں پر رہے مختلف مقامات
پر جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالتے رہے حکومت نے ان سے مذاکرات نہیں کیے بلکہ
انہیں بھگانے کے لیے لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور ان پر پانی بھی پھینکا گیا
مسلسل ہڑتال کی وجہ سے چند ڈاکٹروں کو نکال کرانکی جگہ نئے ڈاکٹر بھی
تعینات کیے گئے مگر حکومت اس معاملہ کو سنبھال نہ سکی بلکہ اپنے کہے ہوئے
الفاظ سے بھی پسپائی اختیار کرلی اور سینکڑوں مریضوں کی تباہی ،درجنوں
خاندانوں کی بربادی کرنے کے بعد آخر کا رحکومت نے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات
تسلیم کرلیے اس دوران جو مریض مر گئے کیا انہوں نے اور انکے خاندان کے
لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دیے تھے کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں تھے
اور کیا انہیں اپنے ہی پیسوں سے دیے گئے ٹیکس سے اپنا علاج معالجہ کروانے
کی اجازت نہیں ہے اور کیا ہم سب کسی تیسری دنیا کے بہت ہی پسماندہ ملک میں
رہ رہے ہیں جہاں خاندانی بادشاہت قائم ہے اور عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے
زیادہ نہیں ہے اگر ایسا ہے تو پھر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت ہی اچھا ہے بلکہ
اس کو مزید اچھا کرنے کی ضرورت ہے ٹیکسوں کی مزید بھر مار ہونی چاہیے اور
اس سلسلہ میں سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے ،بولنے پر بھی پیسے کاٹ
لینے چاہیے ،آنکھیں کھلی رکھنے کا ڈبل جرمانہ ہونا چاہیے ،زندہ رہنے کے لیے
زندگی بھر حکمرانوں کی غلامی کرنی چاہیے اور مرنے کے بعد اپنے جسم کے تمام
اعضاء حکمرانوں کے حق ملکیت سمجھے جائیں جنہیں وہ فروخت کرکے اپنے بال بچوں
کے لیے سرے محل اور لندن فلیٹس جیسی جھونپڑیاں خرید سکیں بے شک ہمارے
سیاستدانوں اور حکمرانوں کی سوچ یہی ہے کہ وہ جب برسراقتدار آئیں تو سب سے
پہلے انہیں ہی مزا چکھائیں جنہوں نے انہیں اپنا ووٹ دیا ہے اسی لیے تو جب
بھی کسی حکمران پر برا وقت آتا ہے تو وہ ملک کو نازک صورتحال کی طرف دھکیل
دیتا ہے کیونکہ اس وقت وہ خود نازک صورتحال سے دوچار ہوچکا ہوتا ہے ان
حکمرانوں میں نہ تو کوئی قوت فیصلہ ہے اور نہ ہی یہ عوام کو کوئی سہولت
دینا چاہتے ہیں پورے 15دن مریض ہسپتالوں کے اندر اور باہر تڑپتے رہے کسی نے
نہیں پوچھا اگر ان حکمرانوں اور انکے کار خاص میں شامل افراد کے کان پر جوں
تک بھی رینگ جاتی تو یہ اسکا علاج کروانے بھی لندن یا دبئی بھاگ جاتے اور
سرکاری خرچ پر موج مستی کرنے کے بعد واپس آجاتے ان گذرے 15دنوں میں درجنوں
خاندانوں پر قیامت گذر گئی مگر کسی کو کوئی احساس نہیں ہے ڈاکٹر اس بات پر
خوش ہیں کہ انہوں نے اپنے مطالبات منوا لیے اور حکومت اس بات پر خوش ہے کہ
انہوں نے ہڑتال ختم کروادی یہ کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کا قانون کہ جو
بات آپ نے تسلیم کرنی تھی اسے 15دنوں تک کیوں لٹکائے رکھا کیا غریب عوام سے
آپ کی دشمنی ہے یا آپ عوام کی توجہ کسی اور طرف سے ہٹانا چاہتے تھے ہمارے
سرکاری ہسپتال تو پہلے ہی ایک عجوبہ بن چکے ہیں جہاں ایک بیڈ پر تین اور
چار مریض بیٹھ اور لیٹ کر اپنا علاج کروارہے ہوتے ہیں ادویات اتنی مہنگی
ہیں کہ غریب انسان اپناعلاج کروانے کے لیے اپنا جسم بیچ دیتا ہے یا بچے مگر
حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی حکمرانوں کے نقش
قدم پر چل رہے ہیں اپنے کمروں میں بیٹھے گپیں ہانکتے رہتے ہیں اگر کسی
سیریس مریض کا تیماردار جاکر انکے دروازے پر دستک دیدے تو انہیں سخت ناگوار
گذرتا ہے رات کو سو کر ڈیوٹی دینے والے دن کو بھی آرام فرماتے رہتے ہیں
ہڑتال ختم ہونے کے بعد وائی ڈی اے کے ڈاکٹر پریس کانفرنس کررہے تھے تو بڑے
فخر سے بتا رہے تھے کہ حکومت نے ہمارے مطالبات مان لیے اس لیے ہم نے عوام
کی خدمت کے لیے اپنی ہڑتال ختم کردی بھائی آپ کو عوام کااتنا ہی دکھ ہے تو
پھر عوام سے اپنا رویہ بھی درست کرلیں مریضوں اور انکے لواحقین کے ساتھ
جوتوہین آمیز رویہ آپ لوگوں نے روا رکھا ہوا ہے اسکو بھی تبدیل کریں اپنے
لہجے میں مٹھاس بھریں آپ کوئی احسان نہیں کررہے اسکے بدلے بھاری بھرکم
تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں یہ سرکاری ہسپتال آپ کی ابتدائی ٹریننگ سے
ماہر امراض ہونے تک آپ جیسے ڈاکٹروں کی تربیت گاہیں ہیں اور خاص کر اس ملک
نے آپ کو ایک پہچان دی اسی کا خیال کرتے ہوئے مریضوں کا خیال رکھیں اپنے
دروازے کھلے رکھیں کہیں یہ نہ محسوس ہو کہ آپ بھی حکمرانوں کی طرح عوام سے
دور رہنے کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں یہ ایسا مرض ہے جس میں مبتلا ہوکر
انسان اکیلا رہ جاتا ہے انسانوں کے ساتھ ایسارویہ رکھیں کہ کل کواگر
خدانخواستہ آپ بھی کسی مشکل میں آئیں توآپ اکیلا پن محسوس نہ کریں یہ ملک
لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اب مزید قربانیاں دینا ہمارے بس میں
نہیں ہے خدارا ہم پر رحم کریں ہم انسان ہوتے ہوئے بھی آپ لوگوں سے اپنے
ساتھ جانوروں جیسا سلوک برداشت کررہے ہیں اور اف تک نہیں کرتے مانا کہ آپ
نے تعلیم پیسہ کمانے کی نیت سے ہی حاصل کی ہے اور وہ آپ کما بھی رہے ہیں
مگر جن کے زریعے کما رہے ہیں انہیں بھی کچھ سکون دیدیں اور حکومت سے بھی
ہماری التجا ہے کہ وہ عوام کا بہت زیادہ نقصان کرنے کے بعد آخرکار احتجاج
اور دھرنہ دینے والوں کے مطالبات مان لیتی ہے یہی کام اگر شروع میں کرلیا
جائے تو سو پیاز اور سو جوتے والے کام سے بچا جاسکتا ہے ابھی ڈاکٹروں کی
طرف سے ایک احتجاج ختم ہوا تو دوسرا شروع ہورہا ہے یہ احتجاج پاکستان عوامی
تحریک کی طرف سے کیا جارہا ہے جس میں انکا مطالبہ ہے کہ جسٹس باقر نجفی
رپورٹ کو شائع کیا جائے اس سلسلہ میں بھی میری حکومت سے درخواست ہے کہ اس
رپورٹ کو جلد منظر عام پر لایا جائے ورنہ احتجاج جاری رہے گا اور آخر کار
حکومت کو وہ رپورٹ شائع کرنا پڑے گی ۔ |