اس میں کوئی شک نہیں کہ داڑھی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں
کی محبوب ترین سنت رہی ہے۔ اللہ عزوجل کا کوئی نبی ، رسول یا کوئی ولی ایسا
نہیں جس نے داڑھی مبارک نہ رکھی اور اس کی تعظیم و تکریم نہ کی ہو۔ مگر آج
ہمارے معاشرہ کی بد نصیبی کہ جو شخص ڈارھی کے چار بال سنت نبوی ﷺ سمجھتے
ہوئے رکھ لیے تو اسے حقارتاً اور شغلاًمولوی مولوی کہہ کے پکارا جاتا ہے جو
سراسر اس کے تقدس و تکریم کی بے حرمتی اور گستاخی ہے، جو ان کے بولنے کے
لہجہ سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ یہ اسے حقارت، شغل، مذاق اور نفرت کی بنیاد پر
پکارا جا رہا ہے۔کسی داڑھی والے کو مخاطب کرنا یا آواز لگانی ہو تو ’’ اوے
مولوی‘‘ جبکہ اس کے برعکس اگر کسی ایسے شخص کومخاطب کرنا یا آواز لگانی ہو
جس نے ڈارھی نہیں رکھی ہوئی یا کلین شیو ہے تو اسے بڑے پیار سلیقے اور ادب
و احترام کے ساتھ ’’بھائی جان‘‘ کہہ کے پکارا جاتا ہے۔کتنا بڑا تضاد اور
فرق پڑ گیا قول میں صرف داڑھی ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے، داڑھی والے کیلئے
’’اوے مولوی‘‘ اور بغیر داڑھی والا ’’بھائی جان‘‘۔ یعنی مسئلہ ایک انبیاء و
صالحین کی سنت’’ داڑھی‘‘ ہی کا ہے۔
اگر اس کی بھی داڑھی نہ ہوتی تو اسے بھی بھائی جان کہہ کے پکارا جاتا، رکھ
لی تو اوے مولوی ہو گیا، اور پھر مولوی ہی نہیں مولبی پکارا جاتا ہے، تلفظ
ادائیگی میں آخر میں وی کی بجائے بی کی آواز سنائی دیتی ہے ’’ مول بی‘‘ پتہ
نہیں اس کے معنی کیا بنتے ہیں۔ گویا تمسخر، تحقیر و ذلت داڑھی ہی کی ہو رہی
ہے ۔ڈارھی والے انسان نہیں ہوتے کیا؟ اس نے نبی کریم ﷺ اور اللہ کے محبوب
بندوں کی طریقت ہی اپنائی ہے کوئی جرم تو نہیں کیا کہ اسے تقدس انسانی سے
خارج کردیا گیا۔ آج معاشرہ میں سنت نبوی ﷺ کے پامال کرنے والے کو عزت و
تکریم دی جاتی ہے اور سنت نبویﷺ اپنانے والے کی ہنسی، مذاق اور تحقیر کی
جاتی ہے جو حقیقت میں مذاق و حقارت اس بندے پر نہیں سنت نبویﷺ پر ہے کیونکہ
اپنائی ان کی اتباع اور محبت میں گئی اس لئے گستاخی و بے ادبی سنت رسول ﷺ
کی ہو رہی ہے اور اس کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے بغیر داڑھی والوں سے معذرت کے ساتھ کہ اگر سنت
رسول ﷺ کے اپنانے والوں کو تو معاشرہ حقارتاً مول بی کا نام دیتا ہے تو پھر
انہیں بھی تو کوئی نام دیا جانا چاہیے نا جو اس کی پامالی کرتے ہیں اور
جڑوں سے اکھاڑ کر قدموں میں روند ڈالتے ہیں،’’ منکرسنت ‘‘کا ، یا ’’پامالی
سنت کا‘‘ مسمارِ سنت ، یا بے ادب ، گستاخ یا تقلیدی (اہل مغرب کا)؟ انہیں
بھی تو کچھ خطاب اور کچھ پکارا جانا چاہیے نا ؟ انہیں نہایت ادب سے بھائی
جان کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ وہ سنت رسول ﷺ کا منکر اور پامالی و
مسماری ہے اور یہ ان کی عزت کا سبب ہے۔ آج کا معاشرہ اتنا بے شعور اور احمق
کیوں بن گیا کہ سنت رسول ﷺکے پامالی کو تو عزت دیتا ہے اور اس کے اپنانے
والے پر طنز اور مذاق کرتا ہے؟ اغیار کی سنت اپنانے والے ، مغرب کی تقلید و
نقل کرنے والے کو بھائی جان کہتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی سنت اپنانے والے کو
شغلاً اور حقارتاً مول بی ؟کیا نبی کریم ﷺ کی سنت شغل کی جگہ ہے؟ نبی کریم
ﷺ کے عشق کے دعویدار معاشرہ کا عشق کہاں گیا؟محبت اوران کی غلامی کا دم
بھرنے والوں ، ان کے نام پر مر مٹنے والوں کاجذبہ اور غلامی رسول میں موت
بھی قبول ہے کا نعرہ لگانے کا شوق و عشق کہاں مر مٹاکہ آج وہ نبی کریم ﷺ کی
سنت کی توہین پر اتر آئے ؟
حدیث شریف میں ہے کہ جس نے نبی کریم ﷺ کی ایک سنت کو زندہ کیا اللہ تعالیٰ
اسے 100شہیدوں کے برابر رتبہ عطا فرماتا ہے۔گویا آج اس پرفتن اور خزاں
رسیدہ دور میں جن لوگوں نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو زندہ کیا ہوا اور اللہ کے
نزدیک 100شہیدوں کے برابر منزلت رکھتا ہے اس پر آج کا معاشرہ طنز کھستاہے ،
حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سنت کے پامالی اور مغرب کے تقلیدی
سے عزت و اکرام سے پیش آتا ہے گویا ہم میں محمد ﷺ کی روح اطہرباقی نہیں رہی
وہ اہل مغرب نکال لے گئے ۔ہم مغرب کو کیا دوش دیں انہیں تو سنت رسول ﷺ
ناگوار ہے ہی،مگر آج خود مسلمان اسے برا کہنے لگے۔ داڑھی تھوڑی سی بڑھی
نہیں تو لوگ سوچنا اور کہنا شروع کر دیتے کہ بری لگ رہی ہے کٹوا دیں۔گویا
آج معاشرہ کو سنت رسول ﷺ بھی بری لگنے لگی ہے۔
ہم نے نعرہ لگایا ’’ غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے ‘‘ اور اہل مغرب کا
نعرہ تھا
یہ فاقہ کش موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد ان کے بدن سے نکال دو
تو گویا اہل مغرب اپنے نعرے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمارے
مجسموں سے محمد ﷺ کی روح اور غیرت کو نکال پھینکا۔ ہمارے نعرے محض کھوکھلے
اور دیکھاوے کے رہ گئے اور ہم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کے برعکس مغرب کے
تقلیدی کو عزت دے کر اس بات کا عملی ثبوت بھی دے دیا کہ اب نہ ہم میں محمد
ﷺ کی روح باقی رہی اور نہ ہی غیرت اور نہ عقل و شعور۔سب سے پہلے تو مسلمان
پر اس کی پامالی جائز نہیں تھی لیکن اگر کر ڈالی اور جنہوں نے اپنا لی تو
کم از کم انہیں بحیثیت انسان نہیں تو سنت رسول ﷺ سمجھتے ہوئے تو تعظیم کا
حق بنتا تھا۔
داڑھی مبارک بلاشبہ اللہ رب العزت کا نور،تمام انبیائے کرام علیہ الصلوٰۃ و
السلام ، صحابہ، تابعین ، تابع تابعین ، صالحین ،اولیاء ،صوفیاء اور اللہ
والوں کی محبوب ترین سنت ہے اور رہی ہے اور جو لوگ اس کی پامالی کرتے ہیں
اور اللہ کریم کے نور کو اپنے چہروں سے بجھاتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کے
سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ لوگ اللہ عزوجل کے نور کو بار بار بجھاتے وہ پھر
ظاہر ہو جاتی، پھر بجھاتے پھر ظاہر ہو جاتی کہ شاید کبھی تو کوئی عقل مند ،
باشعور انسان عبرت حاصل کر لے کہ اگر یہ بار بار ظاہر ہونے سے باز نہیں آتی
تو میں ہی ہار مان لوں اور اس کو بار بار بجھانے سے باز آجاؤں۔ اور ہارنا
بیشک انسان نے ہی ہے انسان فطرت کو کبھی نہیں ہرا سکتا۔
یُرِیْدُوْنَ اِنْ یُّطْفِؤُا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَ یَابْیَ
اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (
التوبۃ 9: 32)
لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور ( داڑھی مبارک ) کو اپنے چہروں سے
بجھا دیں اور اللہ رب العزت نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا (بار بار)
ظاہر کرنا ، اگرچہ منکروں ، جھٹلانے والوں کو برا ہی کیوں نہ لگے۔
دوسرا یہ کہ لوگوں کا یہ عمل ( داڑھی منڈوانا) انسانی فطرت کے خلاف ہے
کیونکہ چہرے کے بال ( یعنی داڑھی ) انسانی فطرت میں شامل ہے اور فطرت کے
خلاف کرنا گناہ ہے۔پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار عظیم
چیزوں (انجیر، زیتون، طور سینا اور شہر مکہ) کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں
نے انسان کو بہت اچھی اور نہایت خوبصورت شکل میں پیدا کیا ہے۔
وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِo وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ o وَ ھٰذَا الْبَلَدِ
الْاَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo
انجیر کی قسم، زیتون کی قسم، اور طور سینا کی قسم اور اس امن والے شہر مکہ
کی قسم کہ بیشک ہم نے انسان کو بہت اچھی ( نہایت عمدہ اور خوبصورت ) شکل
میں تخلیق فرمایا۔
اب بظاہر ہے کہ انسان کی اس خوبصورت شکل میں اس کے چہرے کے بال بھی شامل
ہیں لہٰذا چہرے کے بال جڑوں سے کاٹنا اور ان کی پامالی کرنا اللہ رب العزت
کی اس عظیم قسم کو توڑنے اور اس کی کچھ قدر وقیمت نہ جاننے کے مترادف ہے۔
پھر دیکھیں کہ داڑھی منڈوانا کفار، مشرکین، یہود ونصاریٰ و ہنود کا شعار ہے
اور غیر مسلم ہونے کی علامت ہے۔ جبکہ مسلمان داڑھی کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔
لہٰذا جو لوگ داڑھی منڈواتے ہیں وہ گویا کفار، مشرکین، یہود نصاریٰ کے اس
عمل کو اور عورتوں جیسی شکل بنانا پسند کرتے ہیں، مسلمانوں کی پہچان،
مسلمانوں کے عمل اور مسلمانوں کی ادا سے نفرت کرتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کا
دین ، ایمان، اللہ و رسول ﷺ سے کوئی واسطہ کوئی تعلق باقی رہ جاتا ہے؟ ایسے
لوگوں کا حشر انہی کے ساتھ ہو گا جن کی ادا، جن کے عمل کو یہ لوگ پسند کرتے
تھے آخرت میں جو سلوک اُن کے ساتھ ہو گا وہی اِن کے ساتھ بھی روا رکھا جائے
گا۔ حدیث مبارکہ ہے۔
اَلْمَرَءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ
’’ آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ دنیا میں محبت رکھتے تھے‘‘
بخاری و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے ’’جو آدمی جس قوم کے ساتھ
مشابہت رکھے گا، اس کے کسی عمل کو پسند کرے گا ، تو وہ آخرت میں اسی قوم کے
ساتھ اٹھایا جائے گا۔‘‘
آپ ذرا اپنا محاسبہ کریں اور سوچیں کہ آپ کی ظاہری مشابہت کس گروہ کے ساتھ
ملتی ہے۔ ڈارھی والے دیندار ، اللہ والوں کے ساتھ یا اہل مغرب و ہنود کے
ساتھ؟ آپ کو حشرمیں کس گروہ کے ساتھ اٹھنا ہے ذرا سوچیں! حضور سید عالم ﷺ
نے جو فرمایا دیا وہ حق ہے وہ کبھی غلط ثابت نہیں ہو سکتا۔اگر آپ کی ظاہری
مشابہت اللہ والوں کے ساتھ ملتی ہے تو یقین رکھیں کہ آپ کو حشر میں ان کے
ساتھ ہی اٹھنا ہے اور آپ کی ظاہری مشابہت ، آپ کا واضح قطع اہل مغرب ، یہود
و ہنود جیسا ہے تو بلاشبہ آپ بھی ان کے ساتھ اٹھنے کو تیار رہیں۔ پھر حشر
میں جو حشر ان کا ہو گا وہی آپ کا۔
ایک اور دکھ بھری بات یہ ہے جو اکثر ہمارے معاشرے میں دیکھنے اور سننے کو
ملی ہے کہ ہماری زیادہ پڑھی لکھی نوجوان لڑکیاں بھی اہل مغرب سے مشابہت کی
حب رکھتی ہیں۔ ان کو پتہ چل جائے کہ ان کا ہونے شوہرنے اپنے چہرے کو انبیاء
و صالحین کی سنت سے زیب دے رکھی ہے یعنی ڈارھی رکھی ہوئی ہے تو وہ رشتہ سے
انکار کر دیتی ہیں۔کیا عقیدت ہے ہمارے معاشرہ کی اپنے اسلاف کے ساتھ؟
کلین شیو ، داڑھی منڈوانے کے تصور و عمل کو ہزاروں صدیاں بیت گئیں۔اسلام سے
پہلے یہ تصور و عمل یہود و نصاری ٰ میں موجود تھا۔اسلام کو تو ظہور پذیر
ہوئے ابھی صرف چودہ سوسال کا عرصہ بیتا ہے مگر اسلام کا تصور اور نبی کریم
ﷺ کی سنت اتنے عرصہ میں پرانی ہو گئی ہے جبکہ یہود ونصاریٰ کا عمل ہزاروں
صدیاں بیت جانے کے باوجود اب بھی نیا، جدید اور ماڈرن تصور کیا جاتا ہے وہ
ابھی تک پرانا نہیں ہوا۔ یہود و نصاریٰ کا یہ عمل ہماری نوجوان نسل کیا،
کثیر افرادِ امت حتیٰ کہ بوڑھوں کا بھی پسندیدہ ہے ۔ یقین نہ آئے تو گنتی
کر لیں تمامی افرادِ امت کی اور دیکھ لیں اسلام کے تصور اور نبی کریم ﷺ،
انبیاء ورسل و اولیاء کی سنت والے کتنے ہیں اور یہود و نصاریٰ کے عمل والے
کتنے؟شرم آنی چاہیے مسلمان کہلانے، اسلام پر مر مٹنے اور غلامی رسول ﷺ میں
موت بھی قبول ہے کے نعرے لگانے والوں کو۔تم رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں ان کی
ایک سنت تو ڈارھی کی قبول نہیں کر رہے اور نعرہ ہے غلامی رسول میں موت بھی
قبول ہے۔واہ ! کیا کہنا تیری عقیدت کا؟
ایک سوال ہے کہ کیا سنت کے خلاف طریق گناہ اور رب کا ناپسندیدہ عمل نہیں
ہے؟اگر گناہ اور رب کا ناپسندیدہ عمل ہے تو کیا یہ بھی سنت اور رب کا
ناپسندیدہ عمل نہیں ہے؟ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف کریں اور
مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں ان کا انجام دنیا و آخرت میں کیا ہوگا اس بارے
اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
وَمَنْ یَّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ
یَتَّبِعُ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلیّٰ وَ
نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآءَ تُ مَصِیْرًاo (النساء)
اور جو لوگ رسول اللہ ﷺ کو دکھ پہنچائیں، ان کی سنت کے خلاف کریں بعد اس کے
کہ ان پر حق ظاہر ہو چکااور مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں ہم انہیں (دنیا
میں) ان کے حال پر چھوڑدیں گے اور پھر انہیں دوزخ میں داخل کریں گے بیشک وہ
کیا ہی بری جگہ ہے ہمیشہ رہنے کی۔
کیا نبی کریم ﷺ کی سنت کو پامال کر کے قدم تلے روند ڈالنا ان کو دکھ اور
تکلیف پہنچانا نہیں ہے؟کیا رسول اللہ ﷺ تمہارا سنت ویراں چہرا دیکھ کر خوش
ہوں گے یا ناراض؟رسول اللہ ﷺ تمہارے چہرے پر سنت دیکھ کر خوش ہوں گے یا
مغرب کی تقلید؟ آیت مبارکہ کے الفاظ میں غور کریں اللہ کریم فرما رہے ہیں
کہ ’’ وَ یَتَّبِعُ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا
تَوَلیّٰ ‘‘ جو مسلمانوں کی راہ سے جدا چلیں ، مسلمانوں کے طریق سے ہٹ
جائیں ہم دنیا میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں گے۔ ‘‘ تو کیا آج اللہ کریم
کی طرف سے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑا ہوا سب کو نظر نہیں آ رہا؟ نہ ہماری
دعاؤں میں قبولیت ہے، نہ ہماری کوئی سنی جاتی ہے، نہ ہماری کوئی غیب سے مدد
کی جاتی ہے، نہ ہماری دنیا میں کوئی عزت ہے نہ کوئی وقار۔ ہم مسلمانوں کے
طریق سے ہٹ کر اپنا یہ انجام آج دنیا میں بخوبی دیکھ رہے ہیں اور اس اگلا
جو انجام ہونا ہے وہ اسی آیت مبارکہ میں بیان کر دیا گیا ہے ’’ وَ نُصْلِہٖ
جَھَنَّمَ وَ سَآءَ تُ مَصِیْرًا ‘‘ ہم انہیں جہنم میں اتاریں گے جو بہت
بری جگہ ہے رہنے کی۔
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وَجُوْھَھُمْ
وَاَدْبَارَھُمْo ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اللّٰہَ
وَکَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَھُمْo
’’ تو کیسا ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے ان کے منہ اور ان کی
پیٹھیں مارتے ہوئے اس لیے کہ یہ ایسے بات کے تابع ہوئے جس میں اللہ کی
نارضگی ہے اور اس کی خوشی انہیں گوارا نہ ہوئی تو اس نے ان کے سارے اعمال
اکارت کر دئیے۔‘‘
پھر یہ کہ آئے روز داڑھی منڈوانے اور بے بجا رقم خرچ کرنے میں فضول خرچی کا
ایک عنصر شامل ہے اور فضول خرچ کو اللہ کریم نے شیطان کا بھائی قرار دیا
ہے۔
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَ کَانَ
الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاo
’’ بیشک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا نافرمان،
ناشکرا کفران کرنے والا ہے۔‘‘
ایک تو بار بار داڑھی منڈوانے میں رقم خرچ کرنا فضول خرچی میں آیااور دوسرا
یہ کہ جو کام مسلمانوں پر حرام ہے، جو مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے تو
ظاہر ہے کہ اس حاصل ہونے والی آمدن بھی جائز نہیں ہو گی وہ بھی حرام کے
زمرے میں آئے گی۔ ایسی آمدن سے وابستہ افراد کیلئے دعوت فکر ہے۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات |