اپنے کسی اہم معاملہ ، کسی خاص کام یا کسی حساس امر کے
بارے میں اہل عقل و ذی رائے لوگوں سے مشورہ لینا ، اُن کی رائے معلوم کرنا
اور اُن سے رہنمائی حاصل کرنا انسانی تاریخ کی بہت قدیم روایت ہے اور اس کا
دستور بہت پرانا چلا آرہا ہے ۔ اسلام کی آمد سے پہلے بھی اس پر عمل چلا آتا
رہا تھا اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اس پر عمل در آمد تاہنور جاری و ساری
ہے ۔ نیز قرآنِ مجید میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیاری حبیب ؐ کو صحابہ کرام
سے مشورہ لینے کا حکم فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ عز اسمہ ہے:
’’ترجمہ:آپؐ ان سے اہم کاموں میں مشاورت کیجئے!۔‘‘ [آلِ عمران: ۱۵۹]اسی طرح
ایک دوسری جگہ سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ترجمہ: اور جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور وہ نماز کے پابند ہیں
اور ان کا ہر (اہم) کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔‘‘ ’شوریٰ: ۳۸]
اسی طرح احادیث نبویہؐ میں بھی جابجا مشورہ کی اہمیت و افادیت ذکر کی گئی
ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے کبھی رسول اﷲ ؐ کے
مقابلہ میں کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اصحاب سے کثرت سے مشورہ کرتا
ہو۔(مسند احمد)اسی طرح حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کسی آدمی کو رسول
اﷲؐ کے مقابلہ میں لوگوں سے زیادہ مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا۔(شرح
السنۃ)حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲؐ نے غزوۂ بدر کے دن لوگوں
سے مشورہ فرمایا ۔ (مسند احمد) حضرت عبد اﷲ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ حضرت
ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی طرف یہ لکھ کر بھیجا کہ رسول اﷲ ؐ جنگ کے
معاملہ میں مشاورت فرماتے تھے ، تو آپؓ پر بھی ایسا کرنا ضروری ہے۔(المعجم
الکبیر للطبرانی) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے ارشاد فرمایا
: ’’جب تمہارے بڑے اور حکمران تم میں بہترین لوگوں میں سے ہوں اور تمہارے
مال دار تم میں سب سے زیادہ سخی ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان
مشورہ سے طے ہوں تو زمین کی پشت ( یعنی زندگی) تمہارے لئے اُس کے پیٹ (یعنی
موت) سے بہتر ہے ۔ اور جب تمہارے بڑے اور حکمران تم میں سے بدترین لوگوں
میں سے ہوں اور تمہارے مال دار تم میں سب سے زیادہ بخیل (کنجوس) ہوں اور
تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کا پیٹ (یعنی موت) تمہارے لئے
اُس کی پشت (یعنی زندگی) سے بہتر ہے۔ (ترمذی ، بزار)
مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ سے مرسلاً رسول اﷲ ؐ کا یہ ارشاد مروی ہے
کہ مشورہ کرنے کے بعد مشورہ کرنے والا ہرگز ہلاک نہیں ہوگا۔ (مصنف ابن ابی
شیبہ)اور ایک دوسری روایت میں حضرت سعید بن مسیب ہی سے ایک مرسل حدیث میں
یہ الفاظ مروی ہیں کہ : ’’ کوئی آدمی بھی مشورہ سے مستغنی و بے نیاز نہیں
رہ سکتا ۔ (شعب الایمان للبیہقیؒ)
حضرت سمرۃ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ارشاد فرمایا کہ
: ’’لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں :
۱-پہلا آدمی وہ پاک دامن عقل مند مسلمان ہے جو اپنے معاملات میں مشورہ کرتا
ہے ، جب اُس کے سامنے کوئی معاملہ آتا ہے اور اُس کو اشتباہ ہوتا ہے ، پھر
جب اُس معاملہ کے ہونے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ (مشورہ کے بعد قائم ہونے
والی) اپنی رائے کے ذریعہ سے اُس معاملہ سے (سرخ رُو ہوکر) نکل جاتا ہے ۔
۲- دوسرا آدمی وہ ہے جو کہ پاک دامن مسلمان ہے ، لیکن وہ ذی رائے (اور عقل
مند و سمجھ دار) نہیں ہے ، لیکن جب کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو وہ ذی رائے
اور اہل مشورہ لوگوں کے پاس جاتا ہے ، پھر اُن سے مشورہ کرتا ہے اور اُن سے
رائے لیتا ہے ، پھر رائے دینے والوں کے مشورہ کے مطابق اُس کام کو اختیار
کرتا ہے ۔
۳-اور تیسرا آدمی وہ ہے جو کہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ، نہ تو کسی خیر خواہ
سے مشورہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی خیر خواہ کا کہنا مانتا ہے ۔ (مصنف ابن ابی
شیبہ)
اسی طرح حضرت حرملہ بن عمران تجیبی ؒ اپنے بعض مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ :
’’حضرت عمرو بن العاصؓ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں :
ایک تو پورا آدمی ہے ، اور دوسرا آدھا آدمی ہے اور تیسرا کچھ بھی نہیں ہے ۔
پس پورا آدمی تو وہ ہے جو جس کو اﷲ تعالیٰ نے مکمل دین اور مکمل عقل عطاء
فرمائی ہو ، پھر جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کو اہل رائے اور
اہل عقل سے مشورہ کیے بغیر نہیں کرتا ، پھر اگر مشورہ دینے والے اہل عقل کی
رائے اُس کے موافق ہوتی ہے تو وہ اﷲ تعالیٰ کا شکر اداء کرتا ہے اور اُس
رائے پر عمل کرلیتا ہے ، ایسا آدمی ہمیشہ درُستگی اور ( اسباب کی) آسانی کو
حاصل کرلیتا ہے۔ اور آدھا آدمی وہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے مکمل دین اور مکمل
عقل عطاء فرمائی ہو ، لیکن جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اُس (کام کے
متعلق ) کسی سے مشورہ نہیں کرتا ، اور (یہ) کہتا ہے کہ ایسا کون آدمی ہے جس
کی میں اطاعت کروں اور اپنی رائے کو اُس کی رائے کے سامنے چھوڑ دوں؟ تو یہ
آدمی کبھی درُستگی کو پاتا ہے اور کبھی خطاء کو ۔ اور تیسرا آدمی جو کچھ
بھی نہیں ہے ، وہ ہے کہ جس کے پاس دین بھی کامل نہیں اور عقل بھی کامل نہیں
اور وہ درپیش معاملہ میں کسی سے مشورہ بھی نہیں کرتا تو ایسا آدمی ہمیشہ
خطاء اور غلطی ہی میں مبتلاء رہتا ہے۔
حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس سلسلہ میں اپنا عمل یہ بتایا کہ میں جب کسی کام
کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو اُس وقت تک وہ کام نہیں کرتا جب تک کہ اپنے
بعض خادموں سے مشورہ نہیں کرلیتا اور اُن سے رائے نہیں لے لیتا ۔ اور میں
اپنی رائے کو لوگوں کی عقلوں پر پیش کرنے اور اُن کی رائے سن لینے میں اپنی
کوئی حقارت محسوس نہیں کرتا۔‘‘ (الجامع فی الحدیث)
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اﷲؐ! اگر ہمارے درمیان کوئی
ایسا واقعہ پیش آجائے کہ جس کے بارے میں شریعت کا کوئی مثبت و منفی پہلو
ہمارے سامنے نہ ہو تو آپؐ ہمیں ایسے موقع پر کیا حکم ارشاد فرماتے ہیں؟ آپؐ
نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ تم فقہاء اور عابدین سے اس سلسلہ میں مشورہ کرلیا
کرو! اور تنہا اپنی رائے سے اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہ کیا کرو!۔ ‘‘
(المعجم الاوسط للطبرانی)
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ جس شخص میں یہ پانچ خصلتیں اور عادتیں ہوں اُس
سے مشورہ کرنا چاہیے :
۱- ایک یہ کہ مشورہ دینے والا کامل عقل مند اور متعلقہ معاملہ میں تجربہ
رکھتا ہو۔
۲- دوسرے یہ کہ مشورہ دینے والا شخص متقی اور پرہیز گار ہو۔
۳-تیسرے یہ کہ مشورہ دینے والا مشورہ لینے والے کا ہم درد اور خیر خواہ ہو۔
۴- چوتھے یہ کہ مشورہ دیتے وقت مشورہ دینے والا رنض و غم اور ذہنی اُلجھن
کا شکار نہ ہو اس لئے کہ ایسی صورت میں اُس کی رائے میں درُستگی اور سلامتی
باقی نہیں رہتی ۔
۵-پانچویں یہ کہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو کہ جس میں مشورہ دینے والے کی اپنی
ذاتی غرض اور نفسانی خواہش شامل ہو۔(المدخل لابن الحاج)
الغرض اپنے تمام معاملات ، اور اپنے تمام امور میں اہل عقل و ذی رائے اور
اﷲ تعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ لوگوں سے مشورہ لینا اور اُن کی رائے معلوم
کرنا نہ صرف یہ کہ ایک انتہائی مفید اور نیک عمل ہے ، بلکہ یہ سنت رسولؐ
بھی ہے جس کے صحیح اور ٹھیک طرح سے اداء کرنے کے بعد انسان کو کسی قسم کی
خجالت و شرمندگی اور حسرت و پشیمانی نہیں اٹھانی پڑتی۔
|