ملا جیونؒ ایک بزرگ گزرے ہیں، ایک مرتبہ ان سے بادشاہ کو
کچھ کام پڑا، بادشاہ نے اپنے سپاہی کو بھیجا کہ جاؤ ملا صاحب سے فتویٰ پوچھ
کرآؤ، ملا جیونؒ درس حدیث دے رہے تھے، درس کے دوران وہ آیا اور دروازے پہ
کھڑا ہو گیا، یہ درس دیتے رہے، ایک گھنٹہ اسے کھڑا رہنا پڑا، ایک گھنٹے کے
بعد اسکو موقع ملا، سوال پوچھا، انہوں نے جواب بتا دیا، اس کو اندر اندر
غصہ تھا کہ انہوں نے مجھے ایک گھنٹہ کھڑا رکھا، اس نے بادشاہ کو جا کر کہا
کہ وہ تو آپ کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اور اس کے اتنے شاگرد
کے اتنے شاگرد ہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ یہ آپ کے خلاف بہت بڑی ایک فورم
(Form) تیار کر رہاہے، ابھی سے بندوبست کرلیں، دیکھئے! میں وردی کے ساتھ
گیا، اور اس نے مجھے ایسے ڈیل کیا کہ جیسے میں اس کا چپڑاسی بھی نہیں ہوں،
اس نے ادھر ادھر کی لگائی بجھائی کی، بادشاہ نے کہا کہ ملا جیون کو گرفتار
کرکے لاؤ۔جب اس نے حکم جاری کیا تو ملا جیونؒ کا ایک شاگرد بادشاہ کا بیٹا
ہی تھا، ان کے پاس پڑھتاتھا، اس نے جب ابو کی بات سنی تو وہ بھاگا، اور آ
کرکہا کہ حضرت میرے والد نے آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا، پولیس آپ کے
پاس آنے والی ہے، ملا جیونؒ نے فرمایا کہ اچھا پھر ایسا کرو کہ پانی لاؤ،
ہم بھی وضو کرتے ہیں اور مصلیٰ پہ دو رکعت نماز پڑھتے ہیں،
اب اس نے وضو تو کرایا، بچہ سمجھ دار تھا، جب حضرت مصلیٰ پر گئے تو وہ باپ
کی طرف بھاگا، کہنے لگا ابو ملا جیونؒ نے وضو کر لیا، مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے
اور دعا کے لیے ان کے ہاتھ اٹھنے والے ہیں، اگر اٹھ گئے تو پتہ نہیں پھر آپ
کا مستقبل کیا بنے گا، بادشاہ کے سر پر تاج نہیں تھا، ننگے پاؤں بھاگتا آیا
اورملا جیونؒ کے پاس آ کر پاؤں پکڑ لیے، حضرت آپ ہاتھ مت اٹھائیے، اگر آپ
نے اٹھا دئیے تو خدائے پاک انتقام لے لے گا اور میری نسلوں کا حشر تباہ ہو
جائے گا۔ |