غوروفکر میں کامیابی کا راز

تحریر : مدیحہ مدثر ،کراچی
کیا آپ نے کبھی کائنات پر نظر ڈالی ہے۔ ایک اتنا بڑا نظام کیسے اتنے منظم اندازسے چل رہا ہے۔ الحمدﷲ ہم مسلمان ہیں ۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ اﷲ ہی اس پورے نظام کو چلارہا ہے لیکن صرف یہ سوچ لینے سے کام پورا نہیں ہوجاتا ۔اﷲ نے ہمارے لیے پوری کائنات سجادی اور ہمارے پاس اتنا وقت بھی نہیں کے اس کو دیکھیں اور اس کے بارے میں سوچیں۔ جب ہم سوچیں گے توہی ہم اﷲ کی تمام نعمتوں کے شکرگزار بنیں گے اور ساتھ ہی سیکھیں گے کہ اﷲ نے ہمیں کیا حکم دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انھوں نے عرض کیا ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اورآپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘ فرمایا’’میں جانتا ہوں،جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرۃ آیت نمبر30)

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا خاص مقصد تھا کہ اتنی بڑی کائنات بنادی گئی اور انسانوں کو پیدا کیا گیا۔ ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ حالانکہ اﷲ کی عبادت کرنے والوں کی تو کمی نہیں ۔انسانوں سے زیادہ عبادت گزار فرشتے موجود تھے۔ انسان نا ان کی جیسی عبادت کر سکتے ہیں اور نا ہی ان کی طرح فرمابرداری سے بڑھ کی فرمانبرداری۔ مگر انسان کو پیداکرنے کا مقصد ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں تمام تر نافرمانیاں ہونے کے باوجود خالص اﷲ کی عبادت کروانا تھا۔ جبھی کئی مقام پر ارشاد ہوا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے کہ بتاؤ میرے بندے نہ ایسا کیا، کیا وہ ایسا کر رہے تھے۔ پھر اس کو جزا کیسی ملنی چاہیے۔ وغیرہ

پھر اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں بھیجا اور ساتھ ہی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھی بھیجے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا ایک کے بعد دوسرے پیغمبر مبعوث ہوئے بالآخر یہ سلسلہ نبی مکرم جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک جاری رہااور پھر آپ کو پیغمبر آخرالزماں کا لقب دے کر یہ سلسلہ مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ پھر ساتھ ہی ارشاد فرمادیا کہ ’’ اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔ (ال عمران آیت نمبر 110)

اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا کام پیغمبروں کاہے۔ اب چونکہ کوئی پیغمبر نہیں آئیں گے تو لہٰذا اب ہر دور کا مسلم ہی اس کام کو کرے گا۔ یعنی صرف عبادت مقصد نہیں ہمیں تو ایک خاص کام دے کر دنیا میں بھیجا گیا اور خلیفہ بنایا گیا اور وہ کام اقامت دین ہے۔ اﷲ کی سرزمین پر اﷲ کا نظام قائم کرنا۔ دین کی دعوت پوری دنیا میں پھیلانا ہمارا کام ہے۔حق کو فریب سے الگ کرنا سچ کو جھوٹ سے پاک کرن ہمارا کام تھا۔

اب یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اپنی ذمے داری پوری کر رہے ہیں۔ پوری تو دور ہمیں تو ذمہ داری کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔ کیا اسلام کے بنیادی اصول نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ بس یہ چار فرائض پر عمل کرنا مکمل اسلام ہے؟ جبکہ جہاد بھی بنیادی اصول کی فہرست میں شامل ہے لیکن ہم دین کو اپنے حساب سے لے کرچلنا جانتے ہیں۔ آخرت میں نجات اسی صورت ملے گی ۔ جب تک مکمل اسلام ہمارے دلوں میں نہیں اترے گا تب تک ہم سچے مومن نہیں بن سکتے۔ فرمان ربانی ہے ’’اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (البقرۃ آیت نمبر 208)

اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ فرمانِ الٰہی کو ماننے والے مومن بندو کی فہرست میں شمار ہونا ہے یا نہیں ۔سوچیں غوروفکر کریں۔ بہتری اس میں ہے کہ ہم اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کو اپنالیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.