خواجہ سرا سیاست میں

ہم سیاسی محاذ آرائیوں میں اصناف تواناکے مردانہ وار اور صنفِ نازک کے زنانہ وارکارنامے ہی ملاحظہ کرتے تھے، لیکن اب انتخابات میں بنوِ آدم کی تیسری صنف کی ’’درمیانہ وار‘‘ معرکہ آرائیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت اور ملک کے دوبارہ جمہوری ڈگر پر چلنے کے بعد خواجہ سراؤں میں بھی سیاسی شعور اُجاگرہوا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے ان کے ایک ہم جنس صنم فقیر نے سکھر سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔آج تک تو ہم سیاسی محاذ آرائیوں میں اصناف تواناکے مردانہ وار اور صنفِ نازک کے زنانہ وارکارنامے ہی ملاحظہ کرتے تھے، لیکن اب ان انتخابات میں بنوِ آدم کی تیسری صنف کی ’’درمیانہ وار‘‘ معرکہ آرائیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ طاقتور سیاسی اتحادوں، جدّی پشتی اور بااثر سیاسی خانوادوں کے درمیان صنم فقیر جیسے ’’شی میل‘‘ کو کتنی عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے، یہ تو انتخابات کے نتائج سے ہی معلوم ہوسکے گا، لیکن ان انتخابات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے، انتخابی مہمات کے دوران عوام نت نئی تفریحات سے ضرور محظوظ ہوں گے، جب کہ ہمیں اُمید ہے کہ خواجہ سراؤں کے انتخابی کیمپ اور جلسے جلوسوں میں حاضرین کی تعداد دیگر امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی، البتہ ان کا ووٹ بینک پھر بھی کم ہوگاکیوںکہ مختلف انتخابات کے نتائج سے ثابت ہوا ہےکہ زیادہ تر بیلٹ بکس نادیدہ (Ghost)رائے دہندگان کے ووٹوں سے ہی بھرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات تو ہمتِ مرداں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سال یا چھ مہینے میں ایک سیاسی جماعت بنالیتے ہیں یا فلورکراسنگ کی سہولتوںسے استفادہ کرتے ہوئے ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت میں چھلانگ لگادیتے ہیں اور حکومت موافق سیاست یا فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرکے این آر او جیسے آرڈیننسز سے مستفیض ہوتے ہیں، جن کا اجراء ’’سیاسی نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ملکی سیاست میں ہماری صنفِ نازک، اصنافِ توانا سےکسی طور سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔ وہ حقوقِ نسواں اور عورتوں پر مظالم کا نعرہ لگاکر ’’زنانہ وار‘‘ سیاست کے میدانِ کارزار میں اتر آتی ہیں اور منتخب ہونے کے بعد اسمبلی کے فلور پر سیاسی معرکہ آرائیاں کرتی رہتی ہیں۔
ماضی کی فلم ایکٹریس مسرت شاہین نے اسٹیٹ ایکٹریس کے مدارج پر پہنچنے کے لیے ’’مساوات پارٹی‘‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور نان اسٹیٹ ایکٹر، مولانا فضل الرحمن کے مقابل آگئیں، لیکن فلم کے مقابلے میں سیاسی میدان میں عوامی پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاسی اسٹیج پر پناہ لی اور 1999ء میں اپنی جماعت کو پاکستان عوامی تحریک میں ضم کردیا۔ اپریل 2010ء میں لندن سے پاکستان منتقل ہونے والے خواجہ سرا یا شی میل الماس بوبی نے اپنے ہم جنسوںکو صنفی مظالم سے نجات دلانے، سماجی و معاشی گرداب سے نکالنے اورمعاشرے میں ایک باعزت مقام دلوانے کے لیے شی میل پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی تھی، لیکن شاید وہ صنفِ درمیانہ کو شی میل پارٹی کے پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے بعد انہیں سیاسی آلودگیوں سے دور رکھ کر ان کی یکجہتی کو حصولِ زر کا ذریعہ بنانا چاہتی تھیں، اسی لیے ان کی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ 250سے زائد سیاسی پارٹیوں میں شامل نہیں ہے، لیکن حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف ’’جہاد‘‘کی حمایت میں انہوں نے’’ہمتِ درمیانہ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی عملی سیاست کا آغاز تحریک منہاج القرآن کے لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کرکے کیا اور جب ٹی وی چینلز پر ڈی چوک کے دھرنے کے دوران ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ کی صدائیں سنائی دیں تو ایسا لگا جیسے الماس بوبی اپنے پیشہ ورانہ انداز میں ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ کے نعرے لگا رہی ہیں، لیکن چند ہی لمحے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز ہے، جو سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے حکم پر دھرنے کے شرکاء کو اپنے روایتی انداز میں ہاتھ نچاتے ہوئے مبارک باد دے رہے تھے۔

مغربی معاشرے میں مرد و خواتین کے بعد اولاد آدم کی تیسری صنف کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن مشرق میں انہیں خواجہ سرا یا کھُسرا جیسے تضحیک آمیز القاب سے نوازاجاتا ہے، جب کہ آج بھی بچّے انہیں دیکھ کر ایک جلوس کی صورت میں ان کے ہمراہ ہوجاتے ہیں اور ’’بلّی کے چھیچھڑے‘‘ جیسے نعروں سے ان کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مرد اور خواتین دونوں ہی حکمراں رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے خواجہ سراؤں کو زمین پر چلنے پھرنے والی چار پاؤں والی مخلوق سے زیادہ اہمیت نہیں دی، حالانکہ اولادِآدم ہونے کے ناتے ان کا شمار بھی اشرف المخلوقات میں ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی دعوے دار اورخواتین کی تنظیمیں صنفی مساوات کے تحت خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دلوانے کے مطالبات کرتی ہیں، اصنافِ توانا کے صنفِ نازک پر گھریلو تشدد کے خلاف جلسے جلوس کرتی ہیں، لیکن ان دونوں اصناف کے مظالم کا شکار تیسری صنف کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ اسمبلیوں میں فی میل کے لیے مخصوص نشستوں میں اضافے کی تجاویزدی جاتی ہیں، لیکن شی میل کو بسوں کی نشست تک کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماضی میں خواجہ سراؤں کے جہاں تمام شہری حقوق غصب رہے، وہاں انہیں حق رائے دہی سے بھی محروم رکھا گیا، جس کے سبب یہ ملکی سیاست سے الگ تھلگ رہے۔ 2010ء میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اپنے فیصلے میں انہیں بھی قومی دھارے میں شامل کرکے ان کے شہری حقوق متعین کردیے ہیں جب کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد شناختی کارڈ میں ان کے لیے الگ خانے کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے بعد یہ ملکی ووٹ بینک کا حصہ بھی بن جائیں گے۔ ہماری رائے ہے کہ جس طرح اقلیتوں کو آئینی طور پر دُہرے ووٹ کا حق حاصل تھا، اسی طرح صنفی اقلیت کو بھی تین اصناف کا حامل ہونے کے ناتے تہرے ووٹ کا حق دیا جانا چاہیے، جب کہ خواتین کی طرح قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں ان کے لیے بھی مخصوص نشستوں کا کوٹامختص ہونا چاہئے۔

ماضی میں خواجہ سرا ہماری معاشرتی ثقافت کا نمایاں حصہ تھے، جنہیں شادی بیاہ کے گھروں میں لوک فن کاروں کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا تھا یا وہ خود ہی سن گن لیتے ہوئے اپنے جملہ آلاتِ موسیقی کے ہمراہ پہنچ جاتے تھے اورڈھولک کی تھاپ، تالیوں کی تال اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں رقص و سرود کے بے ہنگم مظاہرے کرکے اپنا رزق کماتے تھے، لیکن صدی اور ہزارئیے کی تبدیلی کے بعد ٹی وی چینلز کی بھرمار نے ہر گھر میں منی سنیما گھر بنادئیے ہیں، جس کے بعد ہماری تہذیب و ثقافت میں سے خواجہ سراؤں کے کردارکو یکسر خارج کردیا گیا اور آج کل وہ بس اسٹاپ، چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پرتالیاں بجا بجاکر بھیک مانگا کرتے ہیں، جب کہ بہت سے خواجہ سرا اپنا ناتا کاغذ قلم سے جوڑ کرحصولِ علم کے لیے کوشاں ہیں اور ان میں سے کئی میٹرک، انٹر سے لے کر اقتصادیات اور بین الاقومی امور میں ڈبل ایم اے کی ڈگریوں کے حامل ہیں۔ ہمارے بہت سے سیاسی رہنماؤں اور مذہبی شخصیات کے مقابلے میں خواجہ سرا نہ صرف آئین کی شق 62-63 کی مطلوبہ شرائط بلکہ ٹیکنوکریٹس کے معیار پر بھی پورا اترتے ہیں۔ یہ صنف بنیادی طور سے منکسرالمزاج، منافقت، حرص و ہوس کی آلودگیوںسے پاک، ایماندار اور پُرامن ذہن کی مالک واقع ہوئی ہے۔ ہماری تو خواہش تھی کہ نگراں وزیراعظم کے طور پر انہی کے کسی نمائندے کو موقع دیا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوا، اب ہماری رائے ہے کہ انہیں انتخاب لڑنے اور پارلیمنٹ میں آنے کا موقع ملنا چاہئے۔ ان کے ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے بعد ہمیں امید ہے کہ خوف و ہراس کے شکار عوام کے ذہنوں میں جنم لینے والی ’’امن کی آشا‘‘ زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہوسکے گی، کیوں کہ یہ مزاجاً اتنے پُرامن ہوتے ہیں کہ لوگ کسی کو بزدلی کا طعنہ دینے کے لیے انہی کی جنس سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے یہ بہت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔کراچی سمیت ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی تمام وارداتوں میں طالبان اور لشکر جھنگوی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ عام خیال ہے کہ مذکورہ دہشت گرد گروپ عورتوں اور بچّوں کو نشانہ نہیں بناتے اس لیے وہ اس صنف کا بھی احترام کریں گے۔ ہمارا تو حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ ان گروپوں سے گفت و شنید کے لیے خواجہ سراؤں کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنایا جائے تو ملک میں امن و امان کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن شاید اس درمیانہ صنف سے الیکشن کمیشن کو تحفظات ہوسکتے ہیں، کیوں کہ جب یہ خود ریاکاری سے پاک ہوتے ہیں تو کسی کام میں بھی جعل سازی پسند نہیں کرتے۔ یہ کسی بھی رکن قومی و صوبائی اسمبلی کی ڈگری پر ای سی یعنی الیکشن کمیشن سے اپنے مخصوص انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے باز پُرس کرسکتے ہیں جب کہ الیکشن کمیشن کو بھی رقص کے انداز میں جواب دینا لازمی ہوگا، مثلاً
ایک ڈگری دیکھی…ہاں جی
ای سی سے پوچھا… ہاں جی
یہ ڈگری کیسی … ہاں جی
ای سی یہ بولا … ہاں جی
یہ ڈگری بالکل اصلی میری اماں
سنہری گوٹے میں


 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.