آج تک پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میں بیلٹ
(Ballot)کے ساتھ بلٹ (Bullet) کا اہم کردار رہا ہے۔ زیادہ تر ووٹ بینک
بندوق کے بل پر بھرے گئے، لیکن الیکشن 2008ء کے بعد اس میں جوتے (Boot) کا
کردار بھی شامل ہوگیا ہے اور اب2013ء کی انتخابی مہمات کی ابتدا بھی جوتے
سے ہوئی ہے۔ یہ بات زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ پاکستانی سیاست پر جوتے کا
بہت گہرا اثر رہا ہے۔ موجودہ پیر صاحب پگاڑا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کے
والد پیر سید علی مردان شاہ کو ہمیشہ ملک میں بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی تھی،
لیکن ملکی سیاست میں جوتا باری کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوا اور
اب پاکستان میں جوتا باری اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کرکے دوسری ہیٹ ٹرک کی طرف
گامزن ہے۔ ہم ہر معاملے میں دوسری اقوام کی نقالی کرتے ہیں، جب کہ ہماری
قومی ثقافت بھارت کی ثقافتی یلغار کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، لیکن یہ تاریخی
اعزاز بھی صرف ہمیں ہی حاصل ہے کہ سیاست میں پاپوشی ثقافت یا بوٹ کلچر کی
ابتدا ہمارے ہی ملک سے ہوئی ہے اور بیرونی ممالک کا طویل سفر طے کرنے اور
بہت سی غیر ملکی شخصیات کو خراج پاپوش پیش کرنے کے بعد جلاوطن قائدین کے
ہمراہ واپس آگئی ہے۔
سابق حکومت کی اپنی مدت اقتدار پوری کرکے رخصت ہونے، الیکشن کمیشن کی طرف
سے الیکشن شیڈول کے اعلان اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے ساتھ ہی انتخابی
سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے اور بہت سے خودساختہ جلاوطن سیاستدان نئے عزائم
کے ساتھ وطن واپس آگئے ہیں جن کی آمدکے ساتھ ہی ان کے استقبال کے لیے
’’بوٹ پاشی‘‘ کی رسمیات کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ ملک میں زمینی حقائق کی
اصطلاح ایجادکرنے، نت نئے سیاسی تجربات کرنے اورمحیر العقول طریقے سے مسند
اقتدار پر فائز ہوکر آٹھ سال تک قوم کی مرضی کے خلاف حکومت کرنے والے جنرل
پرویز مشرف ملک پر دوبارہ حکمرانی کا خواب سجائے وطن واپس آگئے، لیکن اس
سے قبل کہ وہ اپنی ’’سیاسی مہم جوئی‘‘ کا آغاز کرتے، ان کی واپسی کے تیسرے
روز ہی سندھ ہائی کورٹ میں ایک وکیل نے جوتے کے وار سے ان کا والہانہ
استقبال کیا، جب کہ ایک قانون دان نے ان کے رخساروں کا پاپوشی بوسہ لینے کی
کوشش کی، لیکن سکیورٹی اہلکاروں کے جم غفیر کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں
ناکام رہے۔ مشرقی روایات کے مطابق معزز مہمانوں کی آمد کے موقع پر گلاب کی
خوش نما پتیاں نچھاورکرکے گل پاشی کی جاتی ہے، لیکن پھول ہر جگہ باآسانی
دستیاب نہیں ہوتے، جب کہ جوتے ہر پیر میں مختلف نمبروں کے موجود ہوتے ہیں
اس لیے بوقت ضرورت ان سے بوٹ پاشی کا کام لیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سابق صدر
بوٹ پاشی سے فیض یاب ہونے والے پانچویں ملکی قائد ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے
کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی ان کی پارٹی کے
اکابرین نے انہیں جوتوں کی مہلک ضربات سے محفوظ رکھنے کے لیے حکمت عملی
مرتب کرلی تھی اور اسی حکمت عملی کی وجہ سے ان کا چہرہ اور دہن پاپوشی
ضربات سے محفوظ رہے۔
بوٹ پاشی کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوا۔ صوبائی وزیر زہیر اکرم
ندیم مرحوم جو بلدیاتی ایوان کے رکن بھی تھے، جب بلدیاتی کونسل کے اجلاس
میں شرکت کے لیے ایوان میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھی کونسلر خواجہ شرف
الاسلام مرحوم نے ان کا استقبال بوسہ دہن کی بجائے پاپوشی بوسہ سے کیا۔اس
کے بعد اپریل2008ء کے دوسرے ہفتے میں جمہوری سفر کے آغاز پر سندھ اسمبلی
میں پارلیمانی سیشن کے افتتاحی اجلاس کے ساتھ ہی اسمبلی بلڈنگ کے احاطے سے
جوتا باری کا آغاز ہوا، جس میں اقتدار نچلی سطح تک منتقلی کا نعرہ لگانے
والوں نے برسرِاقتدار جماعت کے کارکنوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے
تعلق رکھنے والے عوام کو بھی پروگرام میں شرکت کا اعزاز بخشا۔ جس میںحفظ
مراتب کا خاص خیال رکھا گیا اور اس کے بوٹ برساؤ پروگرام سے ہفتہ کے پہلے
دو روز تک سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سندھ اسمبلی کے ہال
اور احاطے میں فیض یاب ہوتے رہے جس کے بعد تیسرے دن وکلاء کی طرف سے لاہور
کے مزنگ روڈ پر سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر شیر افگن نیازی کو ان کے دورِ
وزارت کی اچھی بُری خدمات کے اعتراف میں دل کھول کر خراج پاپوش پیش کیا
گیا۔ آج کے دور میں جہاں عوام کوسُتر پوشی کے لیے پرانے ملبوسات دستیاب
ہیں، وہیں پاؤں میں پہننے کے لیے اعلیٰ قسم کے سیکنڈ ہینڈ جوتے بھی
انتہائی سستے نرخوں پر مل جاتے ہیں، جنہیں پہن کر وہ بھی پاپوشی اسٹیٹس کے
حامل ہورہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں عام آدمی کو بھی جوتا
باری کی تقریبات میں شرکت کا اعزازبخشا گیاہے۔ ہمیں امید ہے کہ آنے والی
حکومتیں بھی اِس دور میں شروع کیے جانے والے سلسلے کو جاری رکھیں گی اور ہر
جانے والے حکمران کو پاپوشی اعزازات سے یونہی نوازا جاتا رہے گا۔
عالمی سطح پر اس کی ابتدا امریکی صدرجارج بش سے ہوئی، جو چند روز بعد اپنی
مدت صدارت پوری کرکے سابق ہونے والے تھے۔ عراق میں سرکاری پریس کانفرنس کے
دوران ایک عراقی صحافی کی طرف سے انہیں الوداعی ہدیۂ پاپوش پیش کیا گیا،
یہ اور بات ہے کہ مذکورہ جوتوں کی جوڑی چند روز بعد رخصت ہونے والے امریکی
صدر کے رخسار چھونے میں ناکام رہی، کیوں کہ اس دوران وہ کسی کرکٹر کے انداز
میں اپنی جانب آنے والے پہلے جوتے کا میک اور ماڈل دیکھنے کی کوشش کررہے
تھے، جب کہ دوسرا جوتا قریب آتا دیکھ کر وہ اس کی لمبائی چوڑائی ملاحظہ
کرنے لگے، لیکن ان کے رخساروں کے قرب نے جوتوں کی اس جوڑی کی قیمت اس قدر
بڑھادی کہ عالمی مارکیٹ میں ایک کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی، جب کہ مذکورہ زخمی
صحافی عالمی ہیروکے روپ میں سامنے آیا۔ واضح رہے کہ ہمارے سابق وزیر اعلیٰ
ارباب غلام رحیم کو پاپوشی اعزازات اور داد و تحسین سے نوازنے والے جوتوںکی
نیلامی چند لاکھ روپوں تک ہی محدود رہی تھی، جب کہ جنرل پرویز مشرف پر
پھینکے جانے والے جوتے کی قیمت کا ابھی تعین ہونا باقی ہے۔ اس پاپوشی تجربے
کے بعد عالمی رہنماؤں کو ہدیۂ پاپوش پیش کرنے کی ذمہ داریاں صحافی برادری
نے سنبھال لیں، کیوں کہ وہ سرکاری تقریبات یا پریس بریفنگ کی کوریج کے لیے
مذکورہ شخصیات کے قریب ہی موجود ہوتے ہیں۔
بوٹ برساؤ کے سلسلے کا اگلا پروگرام امریکا میں وائٹ ہاؤس کے سامنے منعقد
ہوا۔ امریکا کی اینٹی وار سوسائٹیز کی جانب سے ’’بوٹ ریلی‘‘ نکالی گئی، جس
میں صدرجارج بش کے اعزاز میں بوٹ برساؤ پروگرام پیش کیا گیا۔ صدر محترم
اپنی الوداعی مصروفیات کی وجہ سے اس توصیفی و ستائشی تقریب میں خود تو شریک
ہونے سے قاصر رہے، لیکن ان کی عدم موجودگی میں شرکائے تقریب نے ’’علامتی
بش‘‘ کی خدمت میں ہدیۂ پاپوش اور جوتوں کی برسات کا پروگرام پیش کیا اور
انہیں پاپوشی اعزازات سے نوازا گیا۔
بوٹ برساؤ تقریبات کے ایک سال مکمل ہونے پر 2009ء میں نئی دہلی میں سکھ
صحافی جرنیل سنگھ نے بھارتی وزیر داخلہ چدم برم پر بوٹ برساؤ پروگرام کا
آغازکیا، لیکن جارج بش کی طرح ان کا چہرہ و دہن بھی جرنیلی بوٹ کی ضربات
سے محروم رہے، تاہم بھارت میں جوتا باری مہم کی ابتدا کرنے پر سکھوں کی
سیاسی تنظیم شرومانی اکالی دل نے بھارتی صحافی کے لیے دو لاکھ روپے کے نقد
انعام کا اعلان کیا، جب کہ مذکورہ صحافی کو لوک سبھا کا انتخاب لڑنے کے لیے
ٹکٹ کی پیشکش بھی کی گئی۔ بھارت میں جوتا باری پروگرام کے چند روز بعد ہی
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے متوقع امیدوار لال کشن
ایڈوانی کو بھی مدھیہ پردیش میں انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے میں جوتا
باری کا سامنا کرنا پڑا اور جوتا بھی لکڑی کا تھا جو اگر اپنے ہدف پر
پڑجاتا تو جسم و دماغ میں برق سی کوند جاتی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جلسے کے
منتظمین نے بوٹ برساؤپروگراموں کے سابقہ تجربات کی روشنی میں جلسے کی
کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں کو ہدایت کردی تھی کہ وہ ایل کے ایڈوانی کی
انتخابی مہمات کی کوریج کے لیے اپنے پیروں کو پاپوشی ہتھیار سے غیر مسلح
کرکے برہنہ پا آیا کریں تاکہ پاپوشی مہم جوئی کا خطرہ لاحق نہ رہے۔ دنیا
بھر میں پاپوشی خلعت و اعزازات بانٹنے کا بیڑا ’’قلمی حریت پسندوں‘‘ نے
اٹھایا ہوا تھا لیکن ایڈوانی کو ان کی جماعت کے ہی ایک کارکن کی جانب
سےخراج پاپوش پیش کیا گیا۔اس کے بعد پاپوشی برسات کا بادل کرناٹک پہنچ گیا
اور ضلع حسن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کے دوران صوبہ
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یادواریا بھی اس برسات کی زد میں آتے آتے
بچے جب کہ اس کے بعد جوتوں کی یہ برسات بھارتی وزیر اعظم سردار من موہن
سنگھ اور اداکار جیتندر پر بھی برسی۔ اپنے قائدین پر بوٹ پاشی میں ناکامی
کے بعد کانپور شہر میں جوتا باری کا باقاعدہ ٹریننگ سینٹر قائم کردیا گیا
ہے، جہاں کپڑے اور لکڑی کا پتلا لٹکا کر اس پر جوتا باری کی مشق کی جاتی
ہے۔ جوتے سے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر اور چینی وزیراعظم بھی مستفید
ہوچکے ہیں، لیکن پاکستان میں جنرل پرویز مشرف پر جوتا باری کے بعد ہمارے
سیاسی قائدین انتخابی جلسوں و جلوسوں میں سیکنڈ ہینڈ غیر ملکی جوتوں اور
کھڑاؤں نما چپلوں کا سامنا کیسے کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جوتوں کی برسات
سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ایتھلیٹکس اور جمناسٹک کے تربیتی مراکز میں
داخلہ لے لیںاور یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ وہ نگراں حکومت پر دباؤ ڈال
کر سیکنڈ ہینڈ غیر ملکی جوتوں کی درآمد پر پابندی لگوا دیں اور ملک میں
چمڑے اور لکڑی کے ٹکڑوں کی بجائے ربڑ اور اسفنج کے خام مال کو استعمال کرکے
پھول جیسے ہلکے اور آرام دہ جوتے تیار کرایا کریں۔
جوتوں کو محاوروں و استعارات میں بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے۔ جوتم پیزاری،
جوتا چل جانا اور جوتیوں میں دال بٹنے کا محاورہ بھی اسی حقیر سی شے سے
منسوب ہے، لیکن جوتوں کی برسات نے ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ کردیا
ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن 2013ء کی سیاسی مہمات میں جوتا باری کیا
کردار ادا کرتی ہے۔ |