قرآنی آیات کا مفہوم ہے کہ : ’’جو لوگ اﷲ کے نازل کردہ
قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ،،،ظالم ہیں ،،،،فاسق ہیں ‘‘۔
یہ پیغام پاکستان کی عدلیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے ہمیں آزادی ملے ستر برس کا
طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔کیا ہماری عدلیہ اسلام کے عادلانہ نظام کے مطابق ہے؟؟
ہمارے اسلام پسند حلقوں نے اس نظام کو بدلنے کیلئے کتنی کوششیں کی ہیں؟ایک
پرانی کہاوت ہے کہ اﷲ گنجے کو ناخن نہ دے نہیں تو وہ کھجا کھجا کے اپنا سر
پھاڑ لیتا ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی نا اہلی ،حکمران
جماعت مسلم لیگ ن کے اندر ہی سے شاہد خاقان عباسی کا بطور وزیر اعظم انتخاب
اور ان کی سنتالیس رکنی کابینہ حلف اٹھانے کے بعد ملکی سیاست اور اقتدار کی
غلام گردشوں کی کچھ شکل و صورت واضح ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی کچھ ابہام بھی
پیدا ہو رہے ہیں سیاسی جماعتوں میں موجود تناؤ میں پہلے سے اضافہ ہوا
ہے۔ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان کھینچا تانی بھی بڑھی ہے
اور عوام میں پایا جانے والا اضطراب و ہیجان بھی کم نہیں ہو رہا۔ اسی
ہنگامہ خیزی کے دوران سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک کشمکش
بھی چل رہی ہے اور زیادہ دور تک دیکھنے والوں کی ساری نظریں اس کشا کش پر
ہیں کہ فیصلہ کن چیزیں یہیں سے آئیں گی۔اگر ملک کی سیاسی جماعتوں یا کسی
مؤثر سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کھینچا تانی والے رہتے
ہیں تو ملک کے سیاسی نظام کو بڑا خطرہ لاحق رہے گا اور اگر بات مصالحت پر
ختم ہوتی ہے تو اس کی شرائط بڑی اہم ہوں گی ۔حالیہ حالات کا ذمہ دار ن لیگ
کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیاجا رہا ہے۔ وہ دبے لفظوں میں پہلے اس کا
اظہار کرتی رہی ہے جبکہ اس کے کچھ سیاسی نا بالغ اس کا کھل کر بھی اظہار
کرتے چکے ہیں ۔خود نواز شریف مختلف جلسوں میں یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ انہیں
تین بار وزیر اعظم منتخب کیا گیا مگر انہیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی،جے
آئی ٹی میں پیشی کے بعد ان کا کہنا تھا کہ کٹھ پتلیوں کو نچانے والا یہ
کھیل بند کیا جائے لیکن موصوف یہ کہتے ہوئے بھول گئے کہ سابقہ تمام جمہوری
حکومتیں گرانے میں وہ خود کٹھ پتلی کا کردار بڑے احسن طریقے سے انجام دیتے
رہے۔پھر نا اہلی کے فیصلے کے بعد خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہم نے
پارلیمنٹ کو بالادست بنایا یمن اور قطر کے معاملے میں پارلیمنٹ کی رائے کو
اہمیت دی،اس کی سزا تو ہمیں ملنی ہی تھی ان کا اشارہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی
جانب تھا اور اس میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ اس معاملے میں ملکی اسٹیبلشمنٹ
کو استعمال کیا گیا ،یہ بات ذرا پہلے سینیٹر نہال ہاشمی زیادہ کھل کر کہہ
چکے تھے کہ جو آج حاضر سروس ہیں وہ کل ریٹائرڈ بھی ہونگے ہم ان کے بچوں اور
اولادوں پر زمین تنگ کر دیں گے۔ا س کے بعد انہیں پارٹی کی بنیادی رکنیت سے
بھی سبکدوش کر دیا گیا اور سینیٹ کا استعفیٰ بھی ان سے لیا گیا لیکن بعد
ازاں چئیرمین سینیٹ نے آسانی سے ان کا استعفیٰ واپس کر دیا۔یہ اسٹیبلشمنٹ
کیلئے واضح پیغام تھا اس سے پہلے مشاہد اﷲ ،پرویز رشید ،طارق فاطمی اور راؤ
تحسین کی بھی قربانی دی جا چکی ہے ۔مسلم لیگی حلقے اپنی نجی گفتگو میں اور
قابل اعتماد دوستوں کے درمیان یہ بات تسلسل سے کر رہے ہیں کہ میاں محمد
نواز شریف عدلیہ کے عتاب کا شکار نہیں ہوئے ہیں کیونکہ بڑے کیسز پر انہیں
ریلیف دیا گیا ہے ان کے مطابق فوج ان سے ناراض ہے اور ان کے تحفظات ن لیگ
سے پرانے ہیں ۔ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف عملی سیاست دان ہیں
وہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور کئی بار اس طاقت کی وجہ سے
فائدے میں رہے ہیں اور مختلف مواقع پر ان کے لگائے گئے زخم بھی سہہ چکے ہیں
لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ جب وہ سیاست سے باہر ہوتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ سے
نا صرف رابطے میں ہوتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے اقتدار میں آنے کیلئے سر توڑ
کوششیں کرتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں انہیں یہ خبط سوار ہو
جاتا ہے کہ وہ عوام کے مقبول لیڈر ہیں، انہیں اس مقام تک اسٹیبلشمنٹ نے
نہیں ،عوام نے پہنچایا ہے ۔وہ ملک کے سب سے مقتدر ادارے پارلیمنٹ کے قائد
ایوان ہیں اور باقی سب ان کے ماتحت ہیں چونکہ اس سوچ کیلئے ہوم ورک پہلے سے
موجود نہیں ہوتااس لئے جب وہ اس باغیانہ سوچ کے ساتھ کوئی قدم اٹھاتے ہیں
تو اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے دانت تیز کر لیتی ہے۔چونکہ نواز شریف ،ان کا خاندان
اور قریبی لوگوں کی انسانی کمزوریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بے ضابطگیاں اور
قانون کی خلاف ورزیاں یہ لوگ استحقاق سمجھ کر کرتے ہیں اس لئے یہ ریکارڈ
اسٹیبلشمنٹ اکٹھا کر لیتی ہے اور پھر اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے
۔جس پر نواز شریف اور ان کی جماعت مشتعل تو بہت ہوتی ہے مگر نہ تو اپنی
اصلاح کر سکتی ہے اور نہ عوام میں اپنی حقیقی جڑیں مضبوط کر سکتی ہے چنانچہ
اس کمزوری سے خدشات کے باعث آخر کار اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت بھی تیار ہو جاتی
ہے چونکہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی یہ جماعت ہر طرح سے موزوں ہے اس لئے معاملہ
پھر طے ہو جاتا ہے لیکن چونکہ خرابیاں دور نہیں ہوتیں اور اسٹیبلشمنٹ پر
حقیقی کنٹرول نہیں ہوتا اس لئے یہ معاملہ کچھ دیر بعد دوبارہ سر اٹھا لیتا
ہے ان کے مطابق نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی یہی کہانی ہے جو بار بار
دوہرائی جا رہی ہے۔اس سوچ کو مد نظر رکھ کر اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو
آسانی سے مستقبل میں کیا ہونے والا ہے سمجھ آ جاتا ہے۔ شریف خاندان کو
مقدمات سے جان چھڑوانی ہے ۔اس وقت بظاہر مسلم لیگ ن محاذ آرائی کی جانب
جاتی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ صرف دکھلاوہ اور وقتی ضرورت ہے ۔اصل محرک کی
بجائے مہروں کو ٹارگٹ کرنے سے تو مقاصد نہیں ملتے اس لئے مسلم لیگ ن اور
نواز شریف بہت سوچ سمجھ کر فیصلے لے رہے ہیں اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی
پورے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کوئی کمزور کھیل کھیلنے کو تیار نہیں
۔
|