دنیا بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے ، ہر روز
دنیا کے مارکیٹوں نت نئی چیزیں آرہی ہیں ۔ دنیا کی ترقی کی تیزی میں ایک
اہم کردار انٹر نیٹ کا ہے ، انٹر نیٹ کی ابتداء سن 1960میں ہوا تھا ، آج
2017میں یہ دنیا کے کھونے کھونے تک پہل گیا ہے ، دنیا کا تقرباََ ہر شخص اس
کو استعمال کر رہاہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ عہد حاضر کی جدید ایجادات ہیں۔
ان کے فوائد بے شمار ہیں، ان کے ذریعے سے دنیا واقعی گلوبل ولیج (عالمی
گاؤں) بن گئی ہے اور انٹرنیٹ نے شائقین اور محققین کو لائبریاں کھنگالنے سے
بڑی حد تک بے نیاز کر دیا، لیکن انٹر نیٹ کہ جہاں کئی فوائد ہے واہی اس کے
سینکڑوں نقصانات بھی ، انٹر نیٹ میں جہاں کئی دینی واصلاحی ویب سائٹس ہے
وہی پھر کئی گمرا کن سائٹس بھی موجود ہے بلکہ یوں کہوں تو غلط نہیں ہونگا
کہ گمرا کن ویب سائٹس کے تعداد دینی و اصلاحی ویب سائٹس کے مقابلے میں کئی
گنا زیادہ ہے۔ کسی بھی چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں مثبت اور منفی۔ با لفاظ
دیگر ہر انسانی ایجاد کی افادیت کے ساتھ نقصان بھی جڑی ہوئی ہے۔ جس طرح
کانٹوں کے بغیر پھول کا تصور محال ہے ٹھیک اسی طرح موبائل فون اور انٹر نیٹ
جہاں فاصلے گھٹا کر انسانی تہذیب کو نئے دور میں داخل کر چکے ہیں۔ وہیں ان
کے نقصانات سے چشم پوشی بھی دانائی نہیں۔ یہا ں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ
موبائل فون اور انٹرنیٹ دو وہ ایجادات ہیں جو استعمال کرنے والے کی محتاج
ہیں۔ یعنی یہ بذات خود آپ کوگمراہی کے دلدل میں نہیں دھکیل سکتے جب تک ان
کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔
انٹرنیٹ جن تین طریقوں سے انسانیت کو گمراہی میں دھکیل رہا ہے وہ یہ ہے،
انٹر نیٹ کے زریعہ انسان کو انسانی اوصاف سے عاری و بیزار کیا جا رہا ہے،
ایک طرف انٹر نیٹ پر بے حیائی اور عریانیت کی ویب سائٹوں کی کثرت ہے اور ان
ہی فحش سائٹوں کی اتنی بھر مار ہے کہ آپ نہ چاہیں تب بھی کہیں نہ کہیں سے
کوئی نہ کوئی ویب سائٹ کھل ہی جاتی ہے، اس مسئلہ پر ساری دنیا میں انسانیت
فکر مند ہے،اور اس کے خلاف کوششیں ہو رہی ہیں،،،تو دوسرے طرف یہ کہ انٹرنیٹ
پر غیر اسلامی دنیا اپنی اجارہ داری قائم کر چکی ہے، اسی کا سکہچل رہاہے،
اس لیے وہ جو چاہے جیسا چاہے کرتی ہے اور ان غیر مسلموں نے اس طرح اپنا جال
پھیلا رکھا ہے کہ ترقی پسند،روشن خیال،ماڈرن مسلمان ان کے دام فریب میں
پھنس تے چلے جا رہے ہیں،اور ان کے نظریات وخیالات کے ہم نوا ہو رہے ہیں۔
تیسری اوراہم چیز جو ہم سب مسلمانوں کے لیے باعث فکر ہے وہ یہ کہ اسلام کے
نام پر دشمنان اسلام نے بہت ساری ویب سائٹس بنا رکھی ہیں، آپ کسی بھی سرچ
انجن پراسلامک ویب لکھ کرسرچ کرتے ہو تو نتیجہ سامنے آئے گا کہ اسلام کے
نام پر ہزاروں ویب سائٹس انٹرنیٹ پر موجود ہیں، مزید برآں ان پر موجود مواد
یا ان کے پروگراموں کی ترتیب سے یہ اندازہ لگانا ایک عام مسلمان بلکہ پڑھے
لکھے لوگوں کے لئے بھی مشکل ہے کہ واقعۃًیہ ویب سائٹیں کسی مسلمان،مسلمان
جماعت یا مسلمان ادارہ نے بنائی ہیں یا کسی غیر مسلم تحریک کی کارستانی ہے۔
اسلام کے نام پر غیر اسلامی تعلیم دینے والوں میں جہاں یہود ونصاری پیش پیش
ہیں،وہیں کچھ آئستین کے سانپ بھی ان کے قدم بہ قدم ہیں،اپنے نام کے
ساتھ’’اسلام‘‘کا نام بھی چسپاں کر رہی ہے، یہ صورت حال ہر ذی شعور،غیرت مند،
اور عاشق رسول( ﷺ) مسلمان کے لیے کرہیبت ناک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیاجب اس طرح اپنا جال وسیع کر رہی
ہے، اسلام کے خلاف ایسی سازشیں رچی جارہی ہیں، تو ایسی صورت میں ہم
مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟کیا ہم بھی دیگر لوگوں کی طرح خاموشی اختیار
کرلیں، اور اس پر خاموش ولاتعلق رہیں، یا اس کو علماء دین کی ذمہ داری کے
خانہ میں ڈال کر خود کو اس سے بری الذمہ سمجھیں؟ اگر ہم ایسا کریں گے تو اس
بات کو اپنے ذہین پیوست کرنا ہوگا کہ ہماری آنے والی نسل ہماری اس غفلت کی
وجہ سے غیروں کی آلہ کار بن جائے گی، ان کے دام فریب میں آ کر اپنا ایمان و
عقیدہ کھو دے گی۔
ہمیں چایئے کہ ہم اپنی نسلوں کو بچائے اس وبال سے ہمیں اپنے بچوں اور
ماتحتوں کو، جب تک کہ ان میں شعور نہ ہو کی صحیح و غلط کیا ہے اور انہیں
اسلام کے عقائد و احکام اور تعلیمات معلوم نہ ہو جائیں، انہیں انٹرنیٹ کی
دنیا سے دور رکھیں، اور جب انٹرنیٹ ناگزیر ہو جائے تو اس بات کی ضرور
نگرانی رکھیں کہ وہ اپنے کام کی چیز ہی پڑھیں، اور دیکھیں،فضولیات میں اپنا
وقت ضائع نہ کریں۔ ہر صاحب عقل و دانش پر لازم ہے کہ اس طرح کی غلط ویب
سائٹس دیکھنے میں اپنا مال،اور وقت قطعاً ضائع نہ کریں، خود بھی بچیں اور
اپنے دوست احباب کو بھی بچائیں۔ اور اگر آپ انٹرنیٹ کیفے کے مالک ہیں تو آپ
پر دوسروں کو گمراہی و ضلالت سے بچانے کی اہم ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے،
اپنے کیفے میں یہ اعلان آویزاں کر دیں کہ یہاں بیہودہ اور فحش ویب سائٹس کا
کھولنا ممنوع ہے، پھر توآپ کے یہاں انٹرنیٹ کے صارفین بھی اس کو ملحوظ رکھ
کر آئیں گے، اس طرح آپ کا یہ اقدام جہاں دینی حمیت کا غماز ہوگا، وہیں
انٹرنیٹ کو اسلامی رنگ دینے کی ایک عظیم تحریک میں آ پ شریک کار ہونگے، جس
کے ذریعہ سے ایک بڑی دنیا نفع اٹھائے گی، اور آپ دارین میں سعادت وثواب کے
مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی منفعت سے بھی مالامال ہوں گے، دنیا میں بہت
سے ایسے انٹرنیٹ کلب موجود ہیں جن کے مالکوں نے اس قسم کی پابندی عائد کر
رکھی ہے، اس کے باوجود ان کا کاروبارنفع بخش طور پر چل رہا ہے۔
ہماری اجتماعی ذمہ داری:
اسی کے ساتھ اجتماعی سطح پر بھی مسلمانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے، غورو فکر
کرنے اور منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے، انٹرنیٹ پر بکھری ہوئی بیشمار معلومات
میں سے کونسی مفید ہے اور کونسی نقصاندہ؟ اس کا فیصلہ ہر اک کے بس کی بات
نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر مسلمان ان معلومات کو بھی اپنے دل ودماغ پر نقش
کرلیتے ہیں جو آگے چل کر ان کیلئے خطرناک وساوس اور مہلک بیماریوں کا باعث
بنتی ہیں۔انٹرنیٹ کے یہ چند نقصانات آج ہمیں اپنے آس پاس صاف نظر آتے
ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے کئی نیک نوجوان انٹرنیٹ کی لت میں پڑکر بیکار،
بے عمل، اور بدکار بن چکے ہیں، بلکہ کئی دینی ادارے بھی انٹرنیٹ کے آزادانہ
استعمال سے فحاشی اور بے حیائی کے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ اس طرح انٹرنیٹ
کی نحوست سے ایک ایسا طبقہ وجود میں آچکاہے جو ظاہری طورپر دیندار ہے، لیکن
ان کا''دین'' انٹرنیٹ کے حوالوں، بیکار بحث کرنے اور دوسروں کو جاہل سمجھنے
تک ہی محدود ہے۔اس سلسلے میں فوری طورپر اقدامات ہم سب کیلئے ازحد ضروری
ہے،دین کی خدمت کرنے والے اداروں اور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
انٹرنیٹ کے استعمال کو محفوظ ترین بنانے میں پہل کریں، اور اس کی خباثتوں
اور غلاظتوں کے بارے میں اپنے افراد، احباب، اراکین اور مسلمانوں کے شعور
کو بیدار کرنے کی کوشش کریں، اور انہیں سمجھائیں کہ یورپ کا یہ خوبصورت
سانپ بیحد زہریلا ہے،اس سلسلہ میں ہمیں بہت سارے شعبوں میں کام کرنا ہوگا،
ایک تو یہ کہ اسلامی ویب سائٹیں باخبر علماء کرام کی نگرانی میں بنائی
جائیں، ان کی سر پرستی حاصل کی جائے، جو بھی مواد ویب سائٹ میں اپ لوڈ کیا
جائے وہ کسی نہ کسی مستند معتبر عالم دین کی نظر سے ضرور گزرا ہوا ہو، اس
کے بعد ان ویب سائٹوں کو عام کیا جائے، ان کی تشہیر کی جائے تا کہ مصدقہ
اسلامی ویب سائٹس کی موجودگی کا علم صارفین کو ہو ا ور وہ اس سے فائدہ
اٹھائیں۔اس سلسلہ کا ایک اہم کام یہ ہے کہ دانشورحضرات ،اہل شعور ، اور
علماء کرام کی ایک ایسی جماعت ملکی یا ریاستی سطح پر تشکیل دی جائے،جو
انٹرنیٹ پر اسلام کے نام پر موجود ویب سائٹوں کا بغور جائزہ لے،اور پوری
تحقیق اور مطالعہ کے بعد اس کے جعلی و اصلی ہونے کے بارے میں اپنی رپورٹ
تیار کرے، پھر وہ رپورٹ پورے ملک کے رسالوں اور اخبارں میں شائع کی جائے،
یاکتابی شکل میں طبع کراکر اسکو عام کیا جائے، جس پرسب کے پتے درج ہوں،
تاکہ رہنمائی کے اس جدید طریقے سے مسلمان فائدہ اٹھا ئیں، اورعصرحاضر کے
نئے فتنوں سے محفوظ رہ سکیں، اﷲ رب العزت ہم سب کو تمام برائی سے محفوظ
فرمائے اور ہمیں اسلام کی ہر طریقہ پر خدمت کرنے والا بنائے ہرفتنہ کا بحسن
و خوبی مقابلہ کرنے کی قدرت عطاء فرمائے۔(آمین) |