یہ تحریر ایک عزیز کی طرف سے
موصول ہوئی۔ اس تحریر کے نتیجے میں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ فریضہ حج کو ٹال
کر کسی دوسری ضرورت کو ادا کردینا ہی نیکی ہے۔ لیکن اس تحریر سے سبق لینے
کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ضروری اور غیر ضروری اخراجات میں فرق محسوس کرتے
ہوئے دوسروں کی مدد کی ہر ممکن کوشش کرسکیں۔ ہر فرض عبادت کی اہمیت اپنی
جگہ برقرار رکھتے ہوئے ہمیں خلق خدا کے لیے بھی کچھ کام کرنا چاہیے کہ اللہ
اپنے حقوق تو معاف کردے گا مگر اپنی مخلوق کے حقوق کبھی معاف نہیں کرے گا۔
میدان عرفات میں ہزاروں لاکھوں مسلمان تھے، سب کی آنکھیں ادب سے جھکی تھیں
اور ماتھوں پر عقیدت کے قطرے چمک رہے تھے، انہوں نے سر اٹھایا، لوگوں کے اس
ہجوم کو دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ سے عرض کیا “یا پروردگار ان عقیدت
مندوں میں وہ کون خوش نصیب ہوگا جسے تو حج مبارکہ کی سعادت بخشے گا“۔
پوچھنے والے صاحب حال، صاحب الہام تھے۔ انہیں جواب ملا “مقبول ترین حج کی
سعادت علی ہجویری کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوسکتی“۔ بزرگ اٹھے اور علی
ہجویری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، ہجویر کے چند حاجی وہاں موجود تھے، ان
سے پوچھا، معلوم ہوا علی نام کا کوئی شخص اس سال حج پر نہیں آیا۔ حیرت سوا
ہوئی لہٰذا مناسک کے بعد ہجویر چلے گئے، شہر میں علی کی تلاش شروع کی، بڑے
دنوں کی جدوجہد کے بعد معلوم ہوا کہ مضافات میں علی نام کا ایک موچی رہتا
ہے جو بڑا ہی متقی، پرہیزگار اور نمازی ہے۔ آپ اس کے پاس چلے گئے اور اس کا
ہاتھ چوم کر پوچھا “اے اللہ کے مقرب بندے تمہیں حج مبروکہ کیسے نصیب ہوا۔“۔
علی کا رنگ فق ہوگیا، اس نے ان کا ہاتھ پکڑا، انہیں اندر لے گیا اور سوال
کا پس منظر جاننے کی خواہش کی، بزرگ نے ساری واردات بیان کردی، سن کر علی
نے رونا شروع کردیا، جب طبعیت سنبھلی تو گویا ہوا “حضرت میں ذات کا موچی،
پرانے بدبودار جوتے گانٹھنا میرا پیشہ، میں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر حج کے لئے
زادہ راہ جمع کیا، سفر کا وقت آیا تو ایک روز بیوی نے فرمائش کی، ہمسایوں
میں گوشت بھونا جارہا ہے۔ میں بھی گوشت کھانا چاہتی ہوں، مجھے لاکر دو میں
نے رقم گنی اس سے گوشت کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ ناچار میں نے اپنے ہمسائے
کا دروازہ کھٹکٹایا اور اس سے تھوڑے سے گوشت کی درخواست کی، ہمسایہ بہت
بھلا مانس تھا، وہ شرمندہ سا ہوا اور سر جھکا کا بولا “میرے بھائی ہمارا
گوشت آپ لوگوں پر حلال نہیں“۔ میں نے اس سے عرض کیا “بھائی تم بھی مسلمان،
میں بھی مسلمان پھر حلال حرام کا کیا معاملہ“۔ اس کی شرمندگی بڑھ گئی، وہ
بھاری آواز میں بولا “حضرت میں پیشے کے لحاظ سے مزدور ہوں، پچھلے دو ہفتوں
سے بے روزگار تھا، گھر میں فاقے تھے، آج صبح بھوکے بچوں کے چہرے دیکھے نہ
گئے تو باہر نکل گیا، شہر سے باہر ایک گدھا مرا پڑا تھا، اسے دیکھا تو یاد
آیا اللہ نے بھوکے پر حرام حلال کردیا تھا، میں نے اس کا گوشت کاٹا، گھر
آیا اور بچوں کو کھلا دیا تو میرے بھائی یہ گوشت شائد ہم پر حلال تھا لیکن
آپ کے لئے تو قطعی حرام“۔ علی نے جھرجھری لی اور آنکھیں پونچھ کر بولا
“حضرت یہ سن کر میں نے چیخ ماری اور خود سے کہا تم پر تف ہو تمہارا ہمسایہ
مردار کھانے پر مجبور ہے اور تم حج پر جارہے ہو، میں نے اسی وقت حج کی رقم
اس کو پیش کردی، جائے نماز بچھا کر اللہ سے اپنی غفلت پر توبہ کی اور اس سے
عرض، یا میرے پروردگار علی صرف نیت کرسکتا بس تو اس کی نیت ہی قبول کرلے“۔
یہ واقعہ مدت پہلے میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا، اسے پڑھ کر احساس ہوا،
اللہ کی سلطنت میں اس کے بندے قیام و سجود اور مناسک و زکر سے کہیں افضل
ہیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، کسی یتیم کی پرورش، کسی بیمار کا علاج
اور کسی بے آسرا کو آسرا دے دینا سو سال کی عبادت، سو سال کی ریاضت سے عظیم
ہے۔ حج تمام آزاد اور صاحب حیثیت مسلمانوں پر فرض ہے لیکن اگر صاحب حیثیت
اور آزاد مسلمان کا ہمسایہ روز بھوکا سوتا ہو، اس کے آگے پیچھے یتیم بچے
بھیک مانگتے ہوں اور بیوہ عورتیں سر چھپانے کا ٹھکانہ تلاش کرتی ہوں تو اس
کے اس حج کی کیا حیثیت ہوگی، اللہ اس کی عبادت کیوں قبول کرے گا! اللہ ہم
پر رحم کرے سوچنے کی بات ہے کہ اگر کسی صاحب حیثیت شخص کے قرب و جوار میں
لوگ بیماریوں سے مر رہے ہوں، لوگ غربت کے باعث اپنے گردے اور اعضا بیچ رہے
ہوں، اپنے بچوں کا سودا کر رہے ہوں تو اللہ اس شخص کا حج قبول کرے گا؟ اس
کا جواب صرف علما کرام ہی دے سکتے ہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں اس سال
ایک لاکھ اکیاسی ہزار سے زائد پاکستانیوں نے حج کی درخواست دی، ان تمام
لوگوں نے مجموعی طور پر بیس پچیس ارب روپے جمع کروائے۔ یہ سب لوگ عازمین حج
ہیں اللہ ان کے حج قبول فرمائے لیکن افسوس شائد ان میں علی جیسا کوئی شخص
نہ ہو، جو ذات کا موچی ہو، جس نے اپنا زاد راہ ہمسائے کے حوالے کیا ہو اور
جو حاضری کے بغیر حج مبروکہ کی سعادت پا گیا ہو۔
ڈاکٹر مقبول جعفری میرے ایک مہربان ہیں، کراچی کے ایک بڑے اسپتال کے شعبہ
حادثات میں خدمت انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔ ڈاکٹر
صاحب کے پاس رات تین بچے دو میاں بیوی آئے، ان کے ساتھ چھوٹی سی بچی تھی،
بچی کو ہیضے کی شکایت تھی، ڈاکٹر صاحب نے کہا “بچی کو فوراً داخل کرنا پڑے
گا۔ یہ سن کر والدین نے رونا شروع کر دیا ڈاکٹر نے وجہ پوچھی تو باپ بولا
“ڈاکٹر صاحب میرے دو بچے ہیں، دونوں صبح سے دست اور الٹیوں کا شکار تھے۔
میرے پاس ڈاکٹر اور دوا کے لئے پیسے نہیں تھے لہٰذا دونوں بچے گھر پر ہی
پڑے رہے۔ ابھی آدھ گھنٹہ پہلے میرا بچہ فوت ہوگیا اور بیٹی نے تڑپنا شروع
کر دیا، ہم دونوں میاں بیوی نے بیٹے کی نعش کمرے میں چھوڑی، گھر کو تالا
لگایا ور بیٹی کو لے کر آپ کے پاس آگئے، اب آپ کہتے ہیں بچی کو داخل کرنا
پڑے گا۔ آپ خود بتائیے جن والدین نے اور اس کے دونوں معصوم بچوں نے چار دن
سے کھانا نہ کھایا ہو، جن کے گھر میں معصوم بچے کی نعش پڑی ہو اور جن کی
جیب میں کفن اور گور و کفن کے لئے پیسے نہ ہوں وہ بچی کے داخلے کی فیس کہاں
سے دیں گے، وہ بچی کو دوائیں کہاں سے لاکردیں گے۔ آپ کی مہربانی، آپ ہمیں
واپس جانے دیں، ہم دونوں بچوں کو ایک ہی قبر میں دفن کردیں گے“ ڈاکٹر صاحب
نے یہ واقعہ سنا کر مجھ سے پوچھا “کیا بچے کی اس نعش کے بعد اللہ تعالیٰ
کراچی کے عازمین کا حج قبول کرے گا“ میرے پاس ان کے اس سوال کا کوئی جواب
نہیں تھا، میں نے یہ واقعہ اپنے ایک دوست کو سنایا جو حج کی فیس جمع کرانے
جا رہا تھا، اس نے اسی وقت دو ڈرافت بنوائے ایک حج کے لئے جمع کرا دیا
دوسرا بچوں کے ہسپتال میں دے آیا اور پھر میرے گلے لگ کر گویا ہوا “کاش میں
بھی ذات کا موچی ہوتا، کاش میرا نام بھی علی ہوتا“۔
یہ تحریر پڑھ کر اگر آپ کا دل بھی بھر آئے اور آپ کے آنسو نکل آئیں تو
سوچیے گا ضرور اور اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیے گا۔ |