’ایڈیپس ریکس‘ ڈرامے میں تقدیر اور کردار کی بحث بہت
گہری اور شدیدہے۔ یہ المیہ، تقدیر کی وجہ سے ہوا یا کہ ایڈیپس (کردار) اپنی
اور دوسروں کی المناک ہلاکت اور زندگی کا باعث بنتا ہے۔یا کہ اس کے ساتھ
سارا کھیل قسمت یا تقدیر نے زبردستی کھیلا ہے اور وہ بیچارہ ’مجبورِ محض
‘ہے۔ یہاں دو نظریات کی بات کی بھی گنجائش بنتی ہے :ایک نظریہ قدریہ اور
دوسرا نظریہ جبریہ۔نظریہ قدریہ اس بات پر منتج ہوتا ہے کہ انسان کو زندگی
میں بہت کچھ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اس کے ساتھ سب کچھ اس کے اپنے
اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ اقبال ؔکا فرمانا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال کا فلسفہ ،عمل کا فلسفہ ہے اور وہ ’طے شدہ قسمت‘ کا نظریہ ماننے سے
مکمل طور پر انکار کرتا ہے ۔اس کے مطابق تقدیر کے پابند تو جمادات و نباتات
ہے ۔ انسان، اشرف المخلوقات ہو کربھی تقدیر کا پابند کیوں ہو۔وہ تو تقدیر
کا شکوہ کرنے کو بھی عبث قرار دیتا ہے:
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
انسان خود اس بات کا ذمہ وار ہے جو اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ کوئی شخص محنت نہیں
کرتا تو اسے زندگی میں کامیابی نہیں ملتی۔کوئی شخص جرم کرے گا تو اسے سزا
بھی ملے گی۔جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ادلے کا بدلہ۔ قرآن اس سلسلے میں اپنا
نکتہ نظر یوں پیش کرتا ہے ’’ لیس للانسان الا ما سعیٰ ‘‘ یعنی انسان کے لئے
وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرے۔
زندگی میں ہر قسم کے معاملات کا مشاہدہ ہوتا ہے اور تمام قسم کے نظریات
اپنی اپنی جگہ درست محسوس ہوتے ہیں۔لیکن ہم اپنی بحث کو ڈرامے ایڈیپس ریکس
کی طرف موڑتے ہیں۔اور دیکھتے ہیں کہ اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے پلاٹ کی
بُنت میں تقدیر کو بنیادی اہمیت دی ہے یا کہ کردار کو۔
ہم اس معاملے میں اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ اہم واقعات تقدیر کی وجہ
سے ہوئے یا کردار کی وجہ سے۔اس سلسلے میں یہ بات ہے کہ ڈرامے کا آغاز ہی
قسمت کی بالادستی سے ہو رہا ہے۔ ایڈیپس کے والدین تقدیر کی پکڑ اور لعنت
میں ہیں۔ان کی لعنت ان کے بچے تک پھیل چکی ہے جو اپنی پیدائش کے وقت کسی
جرم یا گناہ میں مبتلا نہ تھا اور باقی بچوں کی طرح وہ بھی معصوم اور بے
گناہ ہی پیدا ہوا تھا لیکن اس پر جو لعنت تھی جو کہ تقدیر کی طرف سے تھی اس
کے زندہ رہنے کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔
چنانچہ اس ننھی سی بے گناہ جان کو ختم کرنے کی تدبیر کی گئی اور اسے اپنے
طور پر مکمل کر لیا گیا۔ لیکن تقدیر نے آگے بڑھ کر اسے بچا لیا کیوں کہ وہ
اس پر اپنی لعنت یا حکم پورا کرنا چاہتی تھی۔اب ’کتھیرن ‘کی پہاڑیوں میں
’کارنتھ‘ شہر کا گڈریا کسی کردار کی پلاننگ سے نہیں آیا تھا،اسے وہاں
بھیجنے والی تقدیر ہی تھی ۔ اگر وہ وہاں نہ آتا تو وہ بچہ یعنی ایڈیپس وہیں
بلک بلک اور سسک سسک کے ختم ہو جاتا ۔ اور اس کی بعد میں آنے والی بد قسمتی
کبھی بھی پوری نہ ہو پاتی۔لہٰذا ٹریجڈی کی ابتدا تقدیر کے ہاتھوں میں نظر
آتی ہے۔
جب ایڈیپس ،کورنتھ(Corinth) کے بادشاہ ’پالی باس‘ ( Polybus)اور ملکہ’
میروپ‘ e) ( Merop کے بیٹے کے طور پر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا تو
کسی شرابی کے منہ سے یہ سچ نکلوانے میں کسی کردار کی کوئی سازش یا منصوبہ
سازی نہیں کہ وہ اپنے کورنتھ کے ماں باپ کا بیٹا نہیں ہے۔ اب یہ وہ بات تھی
جو اس ساری ٹریجڈی کا پیش خیمہ بنی۔ وہ شرابی اتنی بات نہ کہتا تو اس کا
کیا جاتا تھا۔ یا اسے سوائے تقدیر کے کس نے اکسایا تھا کہ وہ ایڈیپس سے کہے
کہ وہ اپنے نام نہاد والدین کا بیٹا نہیں ہے۔اس بات کے سننے سے لے کر اپنی
آنکھیں نکالنے تک ایڈیپس کو ساری زندگی، سکون کا سانس نصیب نہیں ہوا ۔ اس
کا سکون چھین لینے والی بات اس کا تذبذب تھی کہ اس کے والدین ہیں کون ۔ ایک
بار پھر پلاٹ کو آگے بڑھانے والی طاقت تقدیر کے پاس دیکھائی دیتی ہے۔
اور جب وہ قسمت کا مارا بھاگم بھاگ ’ڈیفی‘ پہنچا اور اس بات کا استفسار کیا
کہ اس کے والدین کون ہیں تو اسے جواب کیا ملا :
تم اپنے باپ کو قتل کرو گے اور اپنی ماں سے شادی کرو گے۔
Oedipus:.....................
As, that I should lie with my own mother, breed
Children from whom all men would turn their eyes;
And that I should be my father's murderer.
(Scene 2nd, lines:265-267)
اب سوال گندم ، جواب چنا۔ پوچھا کچھ تھا ، جواب کچھ ملا۔اب یہ جواب لینے کی
ایڈیپس نے کون سی کوشش کی تھی، کچھ بھی نہیں۔ لیکن یہ جواب اس کی آگے کھڑی
بد قسمتی کا نقیب ثابت ہوا۔
وہ بچارا اس بدقسمتی سے بچنے کے لئے اپنی تدبیر کرتا ہے لیکن وہ تدبیر،
تقدیر کا آلہ کار بن جاتی ہے۔وہ’ کورنتھ‘ واپس جانے کی بجائے، کسی نا معلوم
دنیا کا رخ کرتا ہے۔ اور اس جگہ پہنچتا ہے جہاں تین سڑکیں ملتی ہیں، اور جس
کا نام فوکس(Phokis) ہے۔اب وہ وہاں کسی کو مارنے کے ارادے سے نہیں آ رہا
۔لیکن آگے سے پھر تقدیر اپنی پوری منصوبہ سازی کے ساتھ نبرد آزما ہوتی ہے
اور اس کے حقیقی باپ (Laius) کو چند ساتھیوں سمیت وہاں لے آتی ہے اور وہ
المناک واقعہ کروا دیتی ہے جس سے بچنے کے لئے ہی وہ کورنتھ جانے کی بجائے
ادھر آ رہا تھا۔ یہاں ایک معمولی سے جھگڑے کے بعد ایڈیپس کے ہاتھوں کچھ لوگ
مروا دیئے جاتے ہیں جن میں سے ایک ایڈیپس کا اپنا باپ (Laius) بھی ہے۔
وہ وہاں اس مقصد کے لئے بالکل نہیں آیا تھا ۔ دونوں ،باپ بیٹے ، کا آمنا
سامنا کسی اور ڈائریکٹر نے کروایا جو کہ بظاہر نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن اس
کا کہنا ہر کردار کو ماننا پڑتا ہے۔ اگر یہ مڈ بھیڑ نہ ہوتی تو باقی کی
تمام بربادی وجود میں نہ آتی۔ اور اس حادثے کو عملی شکل دلوانے والی قوت ہر
لحاظ سے تقدیر کے ہاتھ میں ہے۔
اب اگر یہ بات بھی کردار کے کھاتے میں ڈال دی جائے اس بنا پر کہ قتل کرنا
ایک ارادی فعل ہے اور بغیر ارادے کے نہیں ہوتا ، اگرچہ اس موقع کی بنیاد پر
یہ منطق انتہائی کمزور ہے۔ بہت سی باتیں لمحاتی اشتعال انگیزی کی بنا پر ہو
جاتی ہیں۔ ایڈیپس کوئی تجربہ کار یا پیشہ ور قاتل تھوڑی تھا ، وہ تو اس قدر
مہذب انسان ہے کہ تھیبز( Thebes) کے لوگ اسے اپنا بادشاہ بنانے کے بعد ایک
لمحے کے لئے بھی اس کے متعلق نہیں سوچتے کہ وہ کہاں سے آیا ہے، کون ہے ، کس
کا لختِ جگر ہے وغیرہ اور انتہا یہ کہ ملکہ(Iocaste) جیسی زیرک خاتون بھی
اس سے شادی میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ طے ہے
کہ اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے چاہے کیسے بھی ہوا ہے۔اس کے کردار کو مکمل نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اب جب وہ تھیبز کے گیٹ پے آتا ہے تو وہاں وہ ’سفنکس‘(Sphinx) یعنی آدم
خور بلا جسے ڈرامے میں’ جہنم کی بلی‘ بھی کہا گیا ہے، اسے وہاں کس نے
بٹھایا ہوا تھا۔اسے وہاں براجمان کرانے میں دنیا کے کسی انسان کا ہاتھ نہ
تھا، وہ سیدھی سیدھی دیوتا ؤں یا تقدیر کی پلاننگ ہے ، دوسرا یہ کہ اس کے
سوال کا جواب کسی بھی اور انسان کو نہیں آرہا جو اس کی تکلیف میں مبتلا ہیں
لیکن ایڈیپس کو اس سوال کا جواب جھٹ سے آ جاتا ہے وہ خود محسوس کرتا ہے کہ
اس کے ذہن میں یہ جواب جیسے کسی اور ہستی نے ڈال دیا ہو۔اگر ایڈیپس کو بھی
اس کا جواب نہ آتا ، وہ بھی مارا جاتا یا کم از کم وہ یہاں کے لوگوں کا
ہیرو نہ بنتا اور نہ ہی ملکہ سے شادی ہوتی اور کم از کم دنیا کا یہ سب سے
زیادہ شرمناک عمل اس سے نہ ہو پاتا۔ اب اس سارے منظر نامے کے پیچھے اگر
تقدیر نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔
یہ سب کچھ ہو چکنے کے قریباً پندرہ سے بیس سال بعد بھی اگر پہلے جیسی
خاموشی اور خوش حالی کا تسلسل رہتا اور یہ ساری تباہی ، بربادی جو اس وقت
ہو رہی ہے نہ ہوتی، تو پھر بھی کسی کو’ ڈیلفی‘ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ
پڑتی۔ اور نہ ہی یہ سارا معاملہ شروع ہوتا ۔ اب ریاست میں طاعون ، تباہی
اور ہلاکت خیزی لانے میں ایڈیپس سمیت کسی بھی کردار کا کوئی رول نہیں۔اگر
یہ ساری بربادی تقدیر کے قلمرو سے شروع نہیں ہوتی تو اس میں انسان یا
ایڈیپس کا کردار تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ ہوا ہی تقدیر کے ایما
پر ہے تو اسے کیوں نہ قسمت یا تقدیر کا ڈرامہ کہا جائے۔
اب باقی کے اتفاقاتِ حالات بھی اسی تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ عین اسی
وقت ’کورنتھ ‘سے وہی گڈریا پیغام رساں بن کے آتا ہے جس نے ایڈیپس کو تھیبز
کے گڈریئے سے لے کر کورنتھ کے بادشاہ پالی باس کو دیا تھا۔ کیسا اتفاق ہے
کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں میں وہ گڈریا ایک بار بھی نہیں آیا حالا نکہ اسے
پہلے سے ہی پتا تھا کہ ایڈیپس یہاں کا بادشاہ بنا ہوا ہے۔ پھر اتنے سال گذر
جانے کے باوجود تھینز کا وہ گڈریا جس نے ایڈیپس کو کورنتھ کے گڈریئے کے
حوالے کیا تھا وہ بھی زندہ ہے اور فوراً موقع پر بھی پہنچ جاتا ہے۔اور
پندرہ ، بیس سال کی بات اسے بھی بہت اچھی طرح یاد ہے۔اب اگر وہ مر چکا ہوتا
یا وہ کہیں جا چکا ہوتا یا اس کو بیماری نے جہاں بے شمار لوگ اور بھی تو
مرے ہیں مار دیا ہوتا تو یہ ساری تفتیش اپنے اس گھناؤنے انجام کو نہ پہنچ
پاتی۔
اب ان ساری باتوں میں کسی کے کردار کا کوئی کردار نہیں سب کچھ تقدیر کی
پلاننگ نظر آتی ہے۔ وہ جیسے چاہتی تھی ویسے کر دکھایا ۔ انسان کوشش کر کے
بھی مجبورِ محض کی تصویر بنا رہ گیا۔ اس کے دائرہ اختیار میں کوئی چیز نہ آ
سکی سوائے کوشش اور بے سود جدو جہد کے۔ ہوا پھر بھی وہی جو تقدیر نے چاہا۔
اولاد عطا کرنا بھی سراسر قسمت کا اختیار ہے اگر ان کے ہاں اولاد ہی نہ
ہوتی تب بھی ٹریجڈی کی شدت میں کچھ کچھ کمی کا امکان تھا لیکن اتنا زیادہ
نہیں۔
اب یہ بات کرداروں کے رول کے متعلق عام کہی جاتی ہے کہ ملکہ کو اس نوجوان
سے ہر گز شادی نہیں کرنی چاہیئے تھی جو عمر میں اس کے پہلے بیٹے جتنا لگ
رہا تھا اور نہ ہی ایڈیپس کو ایسی خاتون کو اپنی بیوی بنانا چاہیئے تھا جو
عمر میں اس کی ماں جتنی لگ رہی تھی۔لیکن یہاں یہ بات پھر سے تقدیر کے کھاتے
میں پڑتی ہے کیوں کہ ایڈیپس کورنتھ کے بادشاہ اور ملکہ کو ہی آج تک اپنے
حقیقی والدین سمجھ کے جی رہا تھا اس لئے وہ آج بھی کورنتھ نہیں جانا چاہتا
تھا کہ اس کی ماں ابھی زندہ ہے۔ دوسرا ملکہ کو بھی ایسا ہی پختہ یقین تھا
کہ اس کا اپنا بیٹا تو مدت ہوئی مر چکا ہے۔ اس لئے ان غلط فہمیوں کی
موجودگی میں ان سے ایک دوسرے سے شادی کرنے کی غلطی سر زد ہو گئی۔ دوسرا
جہاں تقدیر نے ایسی انہونی باتیں کروا چھوڑی ہیں وہاں شادی اس کے آگے کوئی
مشکل کام نہ تھا اور پھر اس شادی کے پیچھے بھی دونوں کی مجبوری یا موقع کی
فراہمی ہے ان کی ذاتی یا اپنی کوشش کا شائبہ بھی نہیں ہے۔
اگر انہوں نے اپنی اصلیت جان کر شادی کی ہوتی یا شادی کرنے کی شدید رغبت کا
اظہار کیا ہوتا تو ان کا جرم و قصور زیادہ ہوتا ۔ جبکہ یہ شادی اس وجہ سے
ہوئی کہ یہاں کا بادشاہ قتل ہو گیا اور ایڈیپس اچانک ایک نجات دہندہ بن کر
جلوہ گر ہو ا۔یہ اک ہیجانی کیفیت تھی جسے پیدا کرنے والی قوت تقدیر ہی کی
تھی اور یہ شادی بھی اسی تقدیر نے کروائی تھی۔
تقدیر پر الزام تو خود ایڈیپس نے بھی لگایا ہے کہ جب وہ اپنی آنکھیں نکال
کر سٹیج پر واپس آتا ہے تو کریگس اس سے پوچھتا ہے کہ تم نے اپنے آپ کو
اندھا کیوں کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ ہاتھ تو اسی کا تھا لیکن اس گھڑی
کا کنٹرول اپالو دیوتا کے ہاتھ میں تھا ۔ دوسرے الفاظ میں اس کو اندھا کر
دینے والی قوت بھی اصل میں تقدیر ہی کی تھی۔
Oedipus: Apollo, Apollo. Dear
Children, the god was Apollo.
He brought my sick, sick fate upon me.
But the blinding hand was my own !
(Exodus, line no:110-113)
اوپر کی ساری بحث ہمیں اس نتیجے کی طرف دھکیلتی ہے کہ اس ڈرامے میں تقدیر
کا رول، کردار کے رول سے کہیں زیادہ وسیع اور مضبوط ہے۔ اسے بجا طور پر
تقدیر کی ٹریجڈی کہا جا سکتا ہے۔یونان کے لوگ دیوتائی مذہب کے ماننے والے
تھے۔ ان کے ڈرامے بھی مذہبی تہوار پر پیش کئے جاتے تھے، اور مذہب کی سب سے
بڑی قوت ،تقدیر ہی کہی جاتی ہے۔ زندگی، حادثات سے عبارت ہے۔ ان حادثات کی
مکمل سمجھ مشکل سے آتی ہے یا نہیں آتی۔دل کی تسلی کے لئے کسی نہ کسی طاقت
کے آگے سر نگوں ہونا ہی پڑتا ہے۔ اور وہ قوت، انسان کا مذہب ہوتا ہے ۔ اس
معاشرے میں ،ان ڈراموں کا مقصد لوگوں کے مذہبی نظریات کو پختہ کرنا بھی تھا
۔ اکثر وبیشتر ڈراموں کے پلاٹ جہاں انسانی کرداروں کو کچھ کرتے ہوئے ظاہر
کرتے ہیں، وہاں ان کو بڑی حد تک قسمت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بھی بنا
دیتے ہیں۔ ایڈیپس ریکس بھی ایسے ڈراموں میں سے ایک ہے۔
|