فراز جن کا اصل نام سید احمد شاہ تھا ۲۵ اگست کو جب ان کو
قبر میں اتارا جا رہا تھا تو میں نے ایچ ۸ کے قبرستان میں لحد میں اتارتے
ہوئے کہا کہ فراز نے تین عمرے کئے اور ان میں سے دو میں نے کرائے۔پاس ہی
سجاد کھڑے نظر آئے جو پشاور میں رہتے ہیں کہنے لگے وہ ایک میں نے کرایا تھا
پہلی بار غالبا نوے کی دہائی کا کوئی سال تھا جدہ میں ایک بہت بڑا مشاعرہ
ہوا جس کے منتظم حیدری صاحب تھے اب تو دوستوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے۔اس
مشاعرے میں جدہ کے سیکڑوں افارد نے شرکت کی صدارت کے فرائیض جناب امداد
نظامی نے انجام دئے اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ فراز کے ہوتے ہوئے
ناظم تقریب نے ایک ایسا جملہ کہہ دیا جسے سن کر پورا حال قہقہقں سے گونج
اٹھا۔سٹیج پر احمد فراز کے علاوہ بڑے قد آوار شخصیات براجماں تھیں جن میں
جناب پیرزادہ قاسم شہزاد احمد امداد نظامی شبنم رومانی خاطر غزنوی محسن
احسان اور بے شمار نامور شعراء تھے سعود قاسمی شدت جذبات میں فرمانے لگے ہم
نے بہتیری کوشش کی کہ آپ کے سامنے پاکستان کے نامور شعراء لائیں ہم سے جو
دال دلیہ ہو سکا وہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں یہ سننا تھا کہ پورا حال
قہقہوں سے گونج اٹھا سعود قاسمی مرحوم ڈٹ گئے اور یہ بحث جناب اطہر ہاشمی
کے ہاتھ لگ گئی وہ اردو نیوز کے ایڈیٹر تھے پھر ایک بحث چل نکلی۔قاسمی صاحب
کا کہنا تھا صاحب نہ تو آپ کو دال کی قیمت معلوم ہے اور نہ ہی دلئے کی
قدر۔خیر یہ ہماری ان سے پہلی ملاقات تھی۔مشاعرہ ختم ہونے کے بعد عزیزیہ
اسکول کے بس میں بیٹھ کر واپس رمادا کلو ۲ کی طرف جانے لگے تو ایک اور
لطیفہ ہو گیا۔مسلم لیگ کے صدر قاری شکیل بڑے بھولے بھائی تھے مرحوم نے کہا
واہ سرفراز صاحب آپ نے تو میلہ لوٹ لیا۔اس پر ایک اور قہقہہ لگا میں نے
تصیح کی اور کہا کہ سر! فراز صاحب آپ کی تعریف کی جا رہی ہے تھوڑے سے ہلے
ہوئے ہیں مسلم لیگ کے صدر ہیں ۔کہنے لگے ان کا ہلے ہوئے ثابت کرنے کے لئے
مسلم لیگ کا نام ہی کافی تھا۔
احمد فراز دوستوں کے دوست تھے ہمارے حلقہ ء احباب میں وہ سردار شیر بہادر
خان کے حوالے سے آئے تھے ۔ان کی شاعری کا میں کیا بتا سکوں گا البتہ مشاعرے
میں وہ صدارت نہ بھی کرتے ہوں لوگ انہی کو سننا چاہتے تھے۔ایک مشاعرہ قونصل
جنرل آف پاکستان رضوان صدیقی نے اپنی رہائیش گاہ پر کرایا جس کی نظامت میں
نے کی۔جناب ظفر اقبال نے صدارت کی۔میں نے انہیں بلانیں سے پہلے کہا کہ
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم فراز کے عہد میں ہیں۔جب فراز پڑھ رہے تو ظفر
اقبال صاحب نے میرے کان میں کہا یہ کیا شاعر ہے سارے بے وزن شعر پڑھتا ہے
اس دن مجھے احساس ہوا کہ شاعر اپنے سوا کسی کو شاعر نہیں سمجھتے۔حلقہ ء
یاران وطن ہماری ایک تنظیم تھی جس میں ملک محی الدین،چودھری شہباز حسین،نور
محمد جرال،شیر بہادر خان،ملک سرفراز اور میں شامل تھے ہم نے جدہ میں کمال
کی تقریبات کا اہتمام کیا جس کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔یہ ایک تجربہ تھا ہم
نے پاکستان کے نامی گرامی شعراء سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا
بعد میں یہ سات لوگ سات چمکتے ستارے ثابت ہوئے چودھری شہباز حسین وفاقی
وزیر بنے،سردار شیر بہادر ضلع ناظم ایبٹ آباد جو اگلے الیکشن میں قومی
اسمبلی میں ہوں گے انشاء اﷲ۔نور جرال صدارتی ایوارڈ یافتہ،ملک محی الدین
اور سرفراز مسعود پوری کو جدہ چھوڑے تو کچھ بنیں۔ احقر کچھ نہیں بن پایا
مگر پاکستان کی بڑی پارٹی کا دو بار مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اور حالیہ رکن
مجلس عاملہ ہوں۔فراز کی ایک اور بات کبھی نہیں بھلائی جا سکتی وہ دوران
مشاعرہ دوستوں کو نواز ا کرتے تھے۔جدہ کے مشاعرے میں میں نیچے زمین پر بیٹھ
کر انہیں سن رہا تھا کہنے لگے بعض لوگ اتنے بڑے ہو کر بھی نیچے بیٹھ کر ہم
اوپر بیٹھنے والوں کو شرماتے ہیں ۔انہوں نے مجھے اوپر آنے کو کہا مگر میں
انکاری ہو گیا۔انہوں نے ایک شعر میری نظر کیا۔اس وقت میں ریاض سے کمپنی سے
الجھ کر جدہ آ گیا تھا کہنے لگے یہ شعر افتخار کے لئے
ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پے تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے
ساتھ
فراز جب کوئی شعر بھول جاتے تو حال سے لوگ لقمے دیا کرتے تھے۔ان کی شہرہ
آفاق غزل کے اشعار مجھے زبانی یاد تھے اور ہیں سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے
دیکھتے ہیں
مجھے سعودی جرمن ہسپتال کی وہ شام کبھی نہیں بھول سکتی جب فراز صاحب کو میں
اس غزل کے شعروں کا پہلا مصرعہ اونچی آواز میں سناتا اور وہ اسے مکمل
کرتے۔ایک شعر کہانیاں ہی سہیں سب مبالغے ہی سہی، اور کسے نصیب اسے بے پیر
ہن دیکھے۔
دوستوں کے دوست تھے ہم لوگ چودھری شہباز حسین کے ہوٹل میں بیٹھے تھے قونصل
جنرل کا فون آیا کہ گھر تشریف لائیں ایک تقریب ہے کہنے لگے ہمارے ایک دوست
تصور حسین کے بیٹے کا عقیقہ ہے آپ سے پھر کبھی مل لیں گے یار تو نہیں چھوڑے
جا سکتے۔ ان کو مکس چائے پینے کی عادت تھی ہوٹلوں کی چائے سے لگاؤ نہ تھا
میں الگ ایک تھرماس میں چائے لے کر جاتا دوستوں نے بات مشہور کر دی کہ فراز
کو پلائی جا رہی ہے۔ایک روز لابی میں بیٹھ کر کہنے لگے ساقیا پلا اور میں
نے پیالی میں چائے انڈیلی۔بعد میں کہنے لگے پتہ چلا تھا میں اتنا بھی لعنتی
نہیں کہ آقاﷺ کے دیس میں آ کر یہ مکروہ کام کروں۔ایک انٹر ویو میں نے اور
روء ف طاہر نے ان کا کیا اس میں انہوں نے ایک بات بتائی جو بیان کرنا ضروری
ہے کہنے لگے ایک بار شراب کے نشے میں ایک ہندو شاعر نے نبی پاکﷺ کے بارے
میں کوئی بات کہہ دی اور میں نے اسے خوب مارا۔میرا سوال تھا واقعی کہنے لگے
یار اپنے نبیﷺ سے بڑھ کر کوئی اور کون ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے میں انہیں عمرے کے لئے لے گیا تو انہوں نے وہاں حرم
کی دیوار پر لگے کالنگ فون سے پاکستان اپنی بیگم سے بات کی میں نے غور سے
سنا کہہ رہے تھے۔بتاؤ تمہارے لئے کون سی دعا مانگوں مجھے تو اتنی گستاخیوں
کے بعد اس نے در پر بلا لیا ہے۔
جمعے کا دن تھا جب ہم نے عمرہ مکمل کیا تو صحن حرم میں لوگ سو رہے تھے میں
نے کہا فراز صاحب دیکھئے کیا منظر ہے فوری شعر کہا
حرم میں نیند آئی سو گئے ہم اسی کے تھے اسی کے ہو گئے ہم
یہ باب الفہد سے نکلتے وقت کہا۔اس شعر کی بابت جب میں ڈیپورٹ ہو کر پاکستان
آیا تو ہالیڈے ان میں چائے پر میں نے ذکر کیا کہنے لگے یہ میرا شعر نہین ہو
سکتا میں نے انہیں یاد دلایا اور کہا کہ میں حلفا کہتا ہوں یہ شعر اس وقت
آپ نے حرم کی دیوار کے پاس ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔کہنے لگے مان
لیتا ہوں۔کاش کوئی ان کی آنے والی کتاب میں شامل کر دے۔جمعے کی نماز پر
جاتے وقت گاڑی میں ایک سوال کیا کہ یہ شعر آپ کا ہے یا خاطر غزنوی کا وہ
ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے کہنے لگے ایک بار یہ مسئلہ عدالت تک گیا
تھا میں نے خاطر کو کہہ دیا تھا یار اگر حلف اٹھوایا گیا تو میں سچ بول دوں
گا۔یعنی یہ غزل انہی کی ہے۔کمال کے بذلہ سن تھے جس محفل میں ہوتے انہی کی
ہوتی۔ایک بار جہانگیر مغل کے گھر مدینہ منورہ میں ناشتے پر تھے۔مجھے شوگر
تھی۔میں نے ایپل جام کی بوتل اٹھائی تو گور کے دیکھا برملا کہا تو نے جو
پھیر لی نظر تو میں نے بھی جام رکھ دیا بڑی ستائیش کی۔
مجھے دفتر سے نکلتے دیر ہو گئی تھی ہوٹل پہچا تو کہنے لگے یار میں احرام
کھولنے لگا تھا۔میں نے کہا اچھا کیا نہیں کھولا ورنہ بکرا دم کی صورت دینا
پڑتا فورا محسن احسان کی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا میں تو بکرا پشاور سے
ساتھ ہی لایا تھا مجھے کیا فکر۔۲۰۰۲ میں جب پاکستان آئیا تو میں نے مزاحمتی
سیاست شروع کی جہاں کوئی مشرف کے خلاف تقریب ہوتی پہنچ جاتا۔ایک بار
صحافیوں کے احتجاج میں انہیں لے گیا بعد میں ہالیڈے ان میں نون لیگیوں کے
جلسے میں لے گیا یہ دور تھا جب انہوں نے تمام اعزازات واپس کئے تھے۔میں آج
ان کی برسی پر لکھ رہا ہوں میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ایک تقریب میں جب میں
انکے اشعار پڑھ رہا تھا تو شبلی فراز(سینیٹر)حیران تھے اور کہنے لگے مجھے
تو کوئی شعر یاد نہیں۔صلبی اولاد ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا فراز کے چاہنے
والوں کی ایک دنیا ہے۔مجھے ان کی ایک ایک غزل جو وہ مشاعروں میں سنایا کرتے
تھے اچھی طرح یاد ہے۔۲۰۰۲ میں مجھے جنرل مشرف کے کارندہ ء خاص جنرل درانی
نے جدہ سے گرفتار کرایا اور اکہتر دن کی جیل کاٹنے کے بعد میں پاکستان آ
گیا۔یہاں آ کر میں نے پاکستان کی سب سے معروف کار کمپنی کی ڈیلر شپ میں
نوکری کر لی۔میرا ان سے رابطہ ہو چکا تھا ایک کہنے لگے یار تمہارے پاس آنا
ہے۔میں نے کسی سے کہہ دیا کمپنی کے مالک کے کان تک خبر پہنچی تو ایک شور مچ
گیا کہ فراز آ رہے ہیں۔میں خاموش تھا وہ جب آئے تو ان کے استقبال کرنے سارے
لوگ دروازے پر تھے یہ ان کی عزت افزائی تھی کہ جو پھول مالکان نے انہیں دئے
تھے انہوں نے مجھے دے دئے۔ان کے ساتھ ان کے دوست کا نام بھول رہا ہوں انہوں
نے پیار کا رشتہ نبھایا۔
پھر ہوا یوں کہ میں ایک اور کار کمپنی میں چلا گیا۔ایک روز فون آیا افتخار
گاڑی لگ گئی ہے یار کچھ کرو میں نے لوگ بھیجے کہنے لگے یار تمہاری اس خاص
رعائت کے بعد بھی میری جیب اجازت نہیں دیتی اور میں تم پر بوجھ بھی نہیں
ڈال سکتا ان کے پاس ۲۰۰۴ میں ۱۹۸۸ ماڈل کی لانسر تھی۔یہ تھے فراز جنہیں میں
جانتا ہوں۔میں ان سے پوچھتا تھا بچے اردو نہیں پڑھتے کہا ان کے سرہنے اردو
کتب رکھ دیا کرو۔اﷲ نے کیابچوں کو تھوڑا بہت شوق ہے۔آج نو سال ہو گئے ہیں
اس چراغ کو بجھے مگر ان کی یاد بہت آتی ہے
ان کا پہلا شعر تھا سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے لائے ہیں میرے لئے
قیدی کا کمبل جیل سے اور وہ مشاعرے میں ہمیشہ آخری شعر یہ پڑھا کرتے تھے
اب اس کے شہر میں ٹھہریں یا کوچ کر جائیں فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
|