سال تو یاد نہیں مگر جناب ضیاء شاہد کو مل کر واپس
آرہا تھا ان سے ملاقات ہو گئی۔میں نے روک کر کہا آپ ادیب جاودانی تو نہیں
کہنے لگے جی ہاں اور ان کے ساتھ ارشد ضیاء تھے۔ میں اندنوں سعودی عرب میں
خبریں کا بیورو چیف تھا ایڈیٹر انچیف سے ملنے لاہور آیا تھا ۔پھر میں ان سے
مل نہیں سکا اس روز خبر ملی کے وہ چاند اپنی کرنوں سمیت اب اس دنیا میں
نہیں رہا۔ہم کتنے مصروف ہو جاتے ہیں اپنے ہاتھوں سے ستاروں کو ٹوٹتے دیکھتے
ہیں ملتیے نہیں کہیں انا کہیں خودی کہیں کسل مندی ہمیں روکتی ہے دلیر ہوتے
ہیں وہ اشخاص جو ان بندھنوں کو توڑ کر بزرگوں سے ملتے ہیں ۔کہتے ہیں بزرگوں
کے پاس بیٹھنے سے انسانی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ایک ڈر سا ہوتا ہے کچھ
سیاسی مصلحتیں کچھ مجبوریا میں اس بار گجرانوالہ گیا جی چاہتا تھا کہ
دستگیر خان صاحب سے ملوں پھر سوچا انہوں نے اٹھائیس جولائی کو مجھے سپریم
کورٹ میں نعرہ زن ہوتے دیکھا ہو گا اور نہیں تو خرم دسگیر نے بتایا ہو گا
سوچا سوال کر بیٹھے تو کیا جواب دوں گا۔یہ چیزیں ہمیں الگ کر کے رکھ دیتی
ہیں۔مون ڈائجسٹ پاکستان کا وہ معتبر ڈائجسٹ ہے جس سے ہم جیسے سیاسی کارکن
راہنمائی پاتے ہیں۔ان کے خاص نمبر میں سمجھتا ہوں ہماری قومی لائیبریری میں
ہونے چاہئیں۔جناب علی محمد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ہشیار پوری گجر بڑے
ہشیار ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی ہوشیار پوریوں سے تھا میں ان سے پہلی اور
آخری بار خبریں کے دفتر کی سیڑھیوں پر ملا مگر کبھی بھی وہ میری یادداشتوں
سے دور نہیں رہے پھر ان کا تذکرہ ان کے داماد ارشد ضیاء سے ہوا کرتا وہ
میرے کالم پڑھا کرتے تھے اور ارشد نے مجھے بتایا اور کہتے دیکھو یار یہ ہے
تو انجینئر مگر لکھتا خوب ہے۔لکھیں کیوں ناں ہمیں اﷲ نے میدان صحافت کے
پارس پتھروں کے درمیان رہنے کا موقع ملا ہے ۔جن لوگوں کے استاذہ ضیاء شاہد
مجیب شامی الطاف حسین قریشی اور مجید نظامی ہوں وہ آڑھی ترچھی لکیریں تو
کھینچ ہی لیتے ہیں۔گندمی رنگ کوئی چھ فٹ کے قریب ادیب جاودانی اس دنیا سے
اس دنیا میں چلے گئے جو جاوداں ہے ۔پتہ نہیں جب ادیب بنے ہوں گے تو جاودانی
تخلص کر لیا ہو گا۔مون لائیٹ اسکول سسٹم شروع کیا ہوشیار پور سے ہجرت کر کے
فیصل آباد پہنچے اور وہاں سے لاہور پرائیوٹ اسکولوں کا دفاع کرتے رہے۔سچی
بات ہے یہ اسکول ہیں تو مہنگے لیکن اگر یہ نہ ہوتے اک دونہ دونہ کرتے عمر
گزر جاتی اور کسی کو یہ پتہ نہ چلتا کے پاکستان ہے کیا۔مجھے پرائیویٹ
اسکولوں کے لئے ان کی جدوجہد پر سلام پیش کرنا ہو گا۔ نوائے وقت میں ان کے
کالم پڑھنے لائق ہوتے تھے۔میں نے محسوس کیا وہ اسلام اور دو قومی نظریئے کی
ترویج کے لئے لکھا کرتے تھے۔اس نئے دور میں وہ تحریک پاکستان کے جذبوں کو
زندہ رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ان کی اپنی گجر برادری کے لئے خدمات بھی
تا دیر یاد رکھی جائیں گی۔مجھے کسی معتبر شخص نے بتایا کہ وہ ضرورت مند اور
مستحق بچوں سے فیس نہیں لیا کرتے تھے اور پرائیوٹ اسکولوں کے مالکا ن کو
بھی یہی درس دیا کرتے تھے کہ اپنی اس نیک کمائی میں سے ان بچوں پر بھی خرچ
کریں جن کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں۔ارشد ضیاء نے مجھے بتایا کہ ان کی ساری
زندگی پاکستانیت اور اردو ادب کے فروغ کے لئے گزری۔ادیب جاودانی کے مون
ڈائجسٹ کے خصوصی نمبر تحریک پاکستان کے طالب علموں کو ضرور پڑھنے چاہئیں ان
میں شخصیات کے وہ انٹرویوز ہیں جو انہوں نے خود کئے۔وہ خود مشرقی پنجاب سے
مہاجر تھے یہ لوگ جس آگ اور خون کے دریا سے نکل کر پاکستان پہنچے ان کی
کہانیاں مون ڈائجسٹ میں محفوظ ہیں۔یقین کیجئے ہم نئی نسل کو ان قربانیوں سے
آگاہ نہیں کر سکے۔ہم مختلف ججوں کی رپورٹوں کی بات تو کرتے ہیں مگر جسٹس
شریف کمیشن کی رپورٹ کی بات نہیں کرتے جس میں انہوں نے مشرقی پنجاب کے
کنوؤں میں مرنے والی ان شہید مسلمان عورتوں کا ذکر ہے کہ کس طرح باپ اور
بھائی اپنے کندھوں پر بٹھا کر ماتھا چوم کر اپنی بہنوں بیٹیوں کو ان کنوؤں
میں پھینکنے پر مجبور ہوئے اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان کی تعداد پچاس
ہزار کے قریب تھی اور اتنی عورتوں کو سکھوں نے اپنے حرم میں لے لیا۔پاکستان
کی تاریخ لکھنے والے آہستہ آہستہ اب اس دنیا سے اٹھتے جا رہے ہیں کل میں
پڑھ رہا تھا ایک بزرگ کا قصہ جو سکھوں کا مقابلہ کر رہے تھے انہوں نے
مسلمان عورتوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور سکھوں کے جتھے کے مقابل نکل کھڑے
ہوئے کہنے لگے اگر کوئی جلوس ادھر آیا اور کہا اﷲ اکبر تو سمجھ لینا ہم جیت
گئے ہیں اور اگر واہ گرو کا نعرہ لگا تو سمجھ لینا ہم مارے گئے ہیں اور اس
وقت تم اپنے آپ کو ختم کر لینا۔وقت مناسب نہیں لیکن مجھے استاد دامن کے ان
اشعار کا ذکر ضرور کرنا ہے تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ادیب جاودانی ضیاء
شاہد مجید نظامی کے شاگرد بھی اسی راستے پر ہیں وہ پنجابی کے اشعار ان
قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں سر ہوئے قلم قلماں کٹیاں
عزت دی ٹہنی نالوں عذرا بانو سلمی کٹیاں فیر اے جا کے موقع بنیا
پاکستان کوئی سوکھا بنیا
ادیب جاودانی کے قلم سے بھی پاکستان پاکستان نکلا اور انہوں نے بھی اپنی
طویل زندگی میں بے شمار پاکستانی چھوڑے جو ان کی راہ پر چلنے کا عزم رکھتے
ہیں۔میں برادر ارشد ضیاء سے اور ان کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا
ہوں اور ساتھ ہی جناب ضیاء شاہد سے جن سے ان کا پیار تھا۔سچی بات ہے سب نے
ہی اس دنیا سے جانا ہے اور ہم بھی اسی راستے کے مسافر ہیں لیکن وہ لوگ بڑے
خوش نصیب ہیں کہ ان کو کوئی رونے والا بھی ہے کوئی ان کے لئے قلم پکڑ کر
آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا ہت لفظوں کے اس کاریگر کی صناعی ہم نے پاکستان کے
کوئقر جریدوں میں دیکھی ان کے اہل خانہ اور ان کے عزیز ارشد ضیاء کے لئے
دعا کہ وہ اس کام کو جاری رکھیں۔اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں جو حکم ملا اس
کی تعمیل ہو گی۔سدا نام اﷲ کا باقی سب کوڑ کباڑ اﷲ پاک ان کی قبر کو جنت کے
باغوں میں سے باغ بنائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
|