اِن دنوں بعض حضرات کی طرف سے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی
روح کے بر خلاف کہا جارہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما
السلام کے تاریخی واقعہ کی یاد میں اﷲ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم ﷺ کی
اتباع میں کی جانے والی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے بجائے پورے گھر
کی جانب سے صرف ایک قربانی کردی جائے۔ یہ حضرات اپنے قول کی دلیل پیش کرتے
ہیں کہ بعض صحابۂ کرام اپنے گھر کی طرف سے ایک قربانی کیا کرتے تھے۔
حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شریعت
اسلامیہ میں قربانی کے ایام میں زیادہ سے زیادہ خون بہانا مطلوب ہے۔ ا س
موضوع پر چند نقاط پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہوں:
پہلی بات عرض ہے کہ بعض صحابۂ کرام کا گھر کی طرف سے قربانی کرنے کا تعلق
نفلی قربانی یا قربانی کے ثواب میں دوسروں کو شریک کرنے سے ہے کیونکہ قرآن
وحدیث سے قربانی کا واجب ہونا ہی معلوم ہوتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
قربانی کرنے کا حکم دیا ہے اور حکم عمومی طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز
نبی اکرم ﷺ سے کسی ایک سال بھی قربانی نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ قربانی کی
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کو حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ وہ عید
گاہ کے قریب بھی نہ جائیں۔ اس نوعیت کی وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔
قربانی کے وجوب کے متعلق قرآن وحدیث کے تفصیلی دلائل کے لیے میرے مضمون (قربانی
واجب ہے) کا مطالعہ کریں۔ احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ حضور اکرم ﷺ امت کے
اُن احباب کی طرف سے بھی ایک قربانی کیا کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے
تھے۔ ظاہر ہے کہ اس سے قربانی کے ثواب میں دوسروں کو شریک کرنا ہی مراد ہے۔
اسی طرح جن احادیث میں گھر کی طرف سے ایک قربانی کا ذکر آیاہے اُس سے
قربانی کے ثواب میں دوسروں کو شریک کرنا ہی مراد ہے، ورنہ لازم آئے گا کہ
حضور اکرم ﷺ کی اتباع میں صرف ایک قربانی پوری امت کی طرف سے کرکے قربانی
کے سلسلہ کو ختم ہی کردیا جائے، جس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
دوسری بات عرض ہے کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ ان ایا م میں
بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیا جائے کیونکہ تمام فقہاء وعلماء کرام قرآن
وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص
اہتمام کرنے پر متفق ہیں اور قربانی کے ایام میں کوئی نیک عمل اﷲ تعالیٰ کے
نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے جیسا کہ
پوری کائنات میں سب سے افضل حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ نیز حضور اکرم
ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم ﷺ
کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف
اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کی طرف سے بھی قربانی کیا
کرتے تھے۔ باوجود یکہ آپ کے گھر میں کبھی کبھی پکانے کی اشیاء موجود نہ
ہونے کی وجہ سے دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلتا تھا۔ آپ ﷺ نے کبھی ایک دن
میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے
اپنے پیٹ پر دو پتھر بھی باندھے۔ حضور اکرم ﷺ پوری زندگی میں ایک بار بھی
صاحب استطاعت نہیں بنے یعنی پوری زندگی میں آپ ﷺ پر ایک مرتبہ بھی زکوٰۃ
فرض نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود حضور اکرم ﷺ ہر سال اہتمام کے ساتھ
قربانی کیا کرتے تھے ، نیز آپ ﷺنے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے
ایام میں ایک دو نہیں، دس بیس نہیں سو اونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے ۶۳
اونٹ نبی اکرم ﷺ نے بذات ِخود نحر (ذبح) کئے اور باقی ۳۷ اونٹ حضرت علی رضی
اﷲ عنہ نے نحر (ذبح) کئے۔حج اور عید الاضحی کے موقع پر قربانی حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے کی عظیم قربانی کی یاد میں اﷲ کے حکم سے حضرت محمد مصطفی ﷺ
کی اتباع میں کی جاتی ہے۔ اور دونوں کے احکام ایک ہی ہیں، یعنی جانور کی
عمر وغیرہ اور حصوں میں شرکت کی تعداد کے اعتبار سے حج اور عید الاضحی کی
قربانی کے احکام یکساں ہیں۔ غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔
تیسری بات عرض ہے کہ جانوروں کی قربانی سے اﷲ کا تقرب حاصل ہونا صرف مذہب
اسلام ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی موجود ہے، اسی طرح حضور
اکرم ﷺ سے قبل دیگر انبیاء کرام کی تعلیمات میں بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عظیم واقعہ مشہور ومعروف ہے۔ جب قربانی سے اﷲ
کا تقرب حاصل ہوتا ہے تو اس میں بڑھ چڑھ کر ہی حصہ لینا چاہئے۔
چوتھی بات عرض ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں عمومی طور پر صحابۂ کرام کے
معاشی حالات بہتر نہیں تھے، نیز صحابۂ کرام کو اپنے مال کا اچھا خاصہ حصہ
جہاد اور لوگوں کی مدد کے لیے بھی لگانا ہوتا تھا۔ اس کے باوجود حضور اکرمﷺ
صحابۂ کرام کو قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تعلیم دیتے تھے، حالانکہ
آپ ﷺ اپنی امت پر شفقت کا معاملہ کیا کرتے تھے۔معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی
اتباع میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی ہی ترغیب دینی چاہئے۔
پانچویں بات عرض ہے کہ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ صاحب استطاعت پر
قربانی کے وجوب کے قول کو اختیار کیا جائے۔ چنانچہ صحابہ اور بڑے بڑے
تابعین کی صحبت میں قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنے والے حضرت امام ابوحنیفہؒ
اور اسی طرح علماء احناف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس
کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل
ہیں، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ
ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ "جواہر
الاکلیل شرح مختصر خلیل" میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تحریر ہے کہ
اگر کسی شہر کے سارے لوگ قربانی ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے گا
کیونکہ قربانی اسلامی شعار ہے۔
آخری بات عرض ہے کہ قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ
وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے ، یہ
عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ
ہوگی۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت
زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اور
صحابہ کرام جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا
ایک واقعہ بھی نہیں ملتا ۔اسلام نے زکوۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ
غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے
اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح
کرنے کے لئے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم
الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی ۔مگر
اﷲ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا، اِس عظیم الشان کارنامہ
پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ
نہیں ہوسکتی۔ نیز ۱۴۰۰ سال قبل نبی اکرم ﷺ نے اس امر کو واضح کردیا۔ حضرت
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عید
کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں
اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)
اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ ایک گھر کی طرف سے ایک قربانی کی گنجائش
ہے تو زیادہ سے زیادہ اس کا جواز ہی ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اس کی ترغیب نہیں
دی جاسکتی ہے۔ ترغیب اور تعلیم یہی دی جائے گی کہ قربانی کے ایام میں زیادہ
سے زیادہ قربانی کی جائے کیونکہ ان ایام میں اﷲ تعالیٰ کو قربانی کا خون
بہانے سے بڑھ کر کوئی محبوب اور پسندیدہ عمل نہیں ہے، جیسا کہ سارے نبیوں
کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے قول وعمل سے پوری امت کو پیغام دیاہے ۔دوسری
بات عرض ہے کہ گھر کا مطلب زیادہ سے زیادہ شخص، اس کی بیوی اور اس کے غیر
شادی شدہ بچے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے شادی ہونے کے بعد الگ گھر
تسلیم کیا جاتا ہے خواہ ہندوستان وپاکستان کے کلچر کے مطابق سارے بھائی
شادی ہونے کے باوجود ایک ہی گھر میں کیوں نہ رہ رہے ہوں۔
آخر میں عرض ہے کہ جب دلائل شرعیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قربانی واجب ہے
تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چاہئے۔ اگر ایک گھر میں ایک سے زیادہ
صاحب استطاعت ہیں تو ہر صاحب استطاعت کو قربانی کرنی چاہئے۔ ہاں چند حضرات
(جو صاحب استطاعت نہیں ہیں) ایک قربانی کرکے ثواب کی نیت کرسکتے ہیں۔ اسی
لیے وہ صحابۂ کرام جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی تھی، ایک قربانی کرلیا کرتے
تھے اور گھر کے سارے افراد کو ثواب میں شریک کرلیا کرتے تھے، جیساکہ نبی
اکرم ﷺ اپنی اور گھر والوں کی طرف سے قربانی کرنے کے بعد امت مسلمہ کے ان
احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے یعنی انہیں
ثواب میں شریک کرلیا کرتے تھے۔ |