بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ارکان اسلام میں سے پانچواں رکن حج قولی، بدنی، قلبی، مالی عبادات کا ایسا
مجموعہ ہیجو اﷲ تعالیٰ اطاعت و بندگی اور وحدت امت کا عظیم مظہر ہے،جس میں
ہر عازم حج جذبہ عشق و محبت سے مغلوب نظر آتے ہوئے ہر رکن حج کو دیوانگی
اور وارفتگی سے ادا کررہا ہوتا ہے،یہ رکن اسلام مالی، بدنی اور روحانی ہر
تین پہلوؤں کومشتمل ہے۔ جب کہ بیت اﷲ شریف کا مخصوص ایام میں مخصوص اعمال
کے ساتھ ارادۃ سفر کرنا حج کہلاتا ہے، اور اﷲ کریم نے تمام مسلمانوں کے
دلوں میں بیت اﷲ اور حرمین شریفین کی محبت کو اس انداز سے ڈال دی ہے کہ جو
حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں اور جو ارادہ رکھتے ہیں،ان میں سے ہر
دوسرا شرف باریابی کے لیے مضطرب اور بے چین ہی رہتا ہے کیونکہ حضرت سیدنا
ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کیبعد مانگی ہوئی دعا کا اثر ہے،اے
ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی فرمانبردار
امت پیدا فرما اور ہمیں ہماری عبادت (مناسکِ حج) کے طریقے سکھلا اور ہماری
توبہ قبول فرما، یقینا تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان
ہے۔(البقرۃ)اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ حکم
دیا''اور لوگوں مین حج کی منادی کر دے، وہ تیرے پاس آئیں گے، پیدل اور
دُبلیدُبلے اونٹوں پر، جو دور دراز کے راستوں سے چلے آئیں گے''۔(سورۃ
الحج۔21)جب کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کے بعد سن 9 ہجری میں حج کو اسلام کا
پانچواں رکن قرار دے کر ہر ذی استطاعت عاقل،بالغ،مسلمان مرد اور عورت پر
زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض کردیا گیا،اﷲ کریم کا ارشاد مبارک ہے ''اور
لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جو اس (کعبہ) تک پہنچنے کی استطاعت
رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔'' (سورہ اٰل عمران 97)نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
''استطاعت سے مراد راستے کا انتظام اور سواری کا انتظام ہے۔(المستدرک
للحاکم:442/1)اہتمام حج کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے''اور لوگوں پر اﷲ
کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے
اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ عالم سے بے نیاز ہے۔'' (سورہؑ
اٰل عمران: 97) جب کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم فرمایا کہ جس شخص کو خرچ اخراجات سواری وغیرہ سفربیت اﷲ کے لیے روپیہ
میسر ہو (اور وہ تندرست بھی ہو) پھر اس نے حج نہ کیا تو اس کو اختیار ہے
یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔(ترمذی۔ باب ماجائمن التعلیظ فی ترک الحج)
رکن اسلام حج بیت اﷲ پر قرون میں اہتمام کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ نے اپنے عہد خلافت میں
مندرجہ ذیل پیغام شائع کرایا تھاکہ میری ولی خواہش ہے کہ میں کچھ آدمیوں کو
شہروں اور دیہاتوں میں تفتیش کے لیے روانہ کروں جو ان لوگوں کی فہرست تیار
کریں جو استطاعت کے باوجود اجتماع حج میں شرکت نہیں کرتے، ان پر کفار کی
طرح جزیہ مقرر کردیں۔ کیونکہ ان کا دعویٰ اسلام فضول وبیکار ہے وہ مسلمان
نہیں ہیں۔ (نیل الاوطار ج 4 ص 165)
شوال وذی قعدہ اورذی الحجہ کے دس دنوں کو حج کے مہینے کہا جاتا ہے جب کہ
ارکان
حج کی ادائیگی آٹھ ذی الحجہ سے تیرہ ذی الحجہ تک کی جاتی ہے،حج کے چار
ارکان ہیں پہلا رکن صرف حج یا حج و عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا،دوسرا رکن
میدان عرفات میں وقوف،تیسرا رکن طواف زیارت اور چوتھا رکن صفا ومروہ کے
درمیان سعی کرنا ہے جب کہ سات واجبات ہیں اول میقات سے احرام باندھنا،دوم
وقوف عرفہ کے دن غروب آفتاب تک میدان عرفہ میں ٹھہرنا،
سوم مزدلفہ میں فجر تک رات گزارنا‘یہاں تک کہ خوب روشنی ہو جائے۔سوائے
عورتوں اور کمزور لوگوں کے‘انہیں آدھی رات کے بعد جانے کی اجازت ہے،
چہارم جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حلق یاقصر کروانا،
پنجم ایّام تشریق میں منیٰ میں رات گزارنا،
ششم ایّام تشریق میں رمی کرنا،
ہفتم طواف وداع کرنا۔ اور ان دونوں کے علاوہ تمام افعال طواف قدوم، آٹھ اور
نو ذو الحجہ کی درمیانی رات منی میں گزارنا، اضطباع کرنا، رمل کرنا، حجر
اسود کو بوسہ دینا، صفا اور مروہ پہاڑی پر چڑھنا مسنون ہے۔
حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں، اگر
تمام ارکان حج کو مسنون طریقے اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق اور لغویات و
بیہودہ باتوں، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا سے اجتناب کرتے ہوئے ادا کرے تو
اس کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ''جس شخص نے الل? کے لیے حج
کیا، (اس دوران میں) کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام تو وہ گناہوں سے اس
طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا''۔(صحیح
البخاری، الحج، حدیث: 1521)
حج بیت اﷲ کا ہر ہر رکن اور پوری دنیا سے آئے ہوئے مسلمان سفید چاروں میں
ملبوس،لبوں پر لبیک اللھم لبیک کا ترانہ ایک واضح پیغام دے رہا ہے کہ
مسلمان ہر حال میں حکم رب العالمین کا پابند ہے،ایک حج مکمل طور پر
سپردگی،دیوانگی،محبت اور جذبہ اطاعت سے سرشار ہو نے کا نام ہے،سعی صفاو
مروہ ہو یا وقوف عرفہ،مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات گزارنا ہویا منیٰ میں
قیام،شیطانوں کو کنکریاں مارنا ہو یا طواف بیت اﷲ کرنا،ہر ایک رکن سے
اطاعت،یکسانیت اور اسلام کی آفاقیت کا عظیم مظہر ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ
ہم پیغام حج کواپنی معاشرتی،سماجی اور انفرادی زندگی میں عملاً لانے کی
کوشش کریں تاکہ اتفاق و اتحاد،امن و سلامتی اور اطاعت و فرمانبرداری کی فضا
ء قائم ہوسکے۔
|