میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد این اے 120 سے
خالی ہونیوالی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہے ہیں ن لیگ
نے آئرن لیڈی بیگم کلثوم نواز ،پی ٹی آئی نے یاسمین راشد،پی پی پی نے فیصل
میر ،جماعت اسلامی نے ضیاء الدین انصاری،ملی مسلم لیگ نے شیخ یعقوب ،تحریک
لبیک پاکستان نے شیخ اظہرحسین رضوی کو میدان میں اتارا ہے اس کے علاوہ 44کے
قریب امیدوار الیکشن لڑنے کیلئے خود کو تیار کر چکے ہیں حکومتی اتحادی
جماعتیں جے یو آئی ودیگر نے ن لیگ کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے
اس حلقے میں جے یو آئی کے پاس بھی پی پی پی کے تقریباًبرابر ہی ووٹ بنک
موجود ہے،عوامی تحریک ،ق لیگ نے پی ٹی آئی کی حمایت کررکھی ہے جو کہیں کہیں
نظر آتی ہے۔الیکشن کمیشن نے جعلی ووٹ روکنے کیلئے بائیومیٹرک سسٹم لگانے کا
بھی اعلان کیا ہے جو کہ قابل ستائش فیصلہ ہے مزید یہ کہ انتخابات فوج کی
نگرانی میں کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تاکہ کسی کو اعتراض نہ رہے ۔ اصل
مقابلہ تو ن لیگ اور پی ٹی آئی کا ہوگا باقی امیدوار تو خانہ پری کیلئے
اتارے گئے ہیں جو ایک دوسرے کے حق میں آخری وقت میں بیٹھ سکتے ہیں۔اس حلقے
سے ن لیگ کو شکست دینا ایک معنی رکھتا ہے کیونکہ ن لیگ کے پا س یہاں
نظریاتی لوگوں کی بھرمار ہے جو پروپیگنڈہ کرنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں ،ن
لیگ کے دیوانوں کی فہرست بنائی جائے تو اس حلقے کا نمبر نمایاں ہوگا ویسے
بھی بیگم کلثوم نواز کے والدین(پہلوانوں) کایہ علاقہ ہے ۔اس خاندان کاحلقے
میں کافی اثرورسوخ ہے،بلال یٰسین ایم پی اے یٰسین پہلوان مرحوم کے فرزند
ہیں جو کلثوم نواز کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں،ن لیگ لاہور کے جنرل
سیکرٹری اور ایم پی اے خواجہ عمران نذیر، ڈپٹی سیکرٹری ن لیگ لاہور ملک
محمودالحسن،سابق کوارڈینیٹر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان تنویر بٹ ،نذیر خان
سواتی جیسے ن لیگ کے نظریاتی کارکن اسی حلقہ کے باسی ہیں ،الغرض ن لیگ کے
نزدیک یہ حلقہ ان کا ہولڈ یافتہ حلقہ ہے ،ن لیگ کا خیال ہے کہ کوئی بھی
جماعت یہاں سے ن لیگ کو ہرا نہیں سکتی دوسری طرف حقیقت بھی یہ ہے
کہ,1985,1988,1990,2008,2013 سے آج تک ن لیگ اس حلقہ سے جیتتی آرہی ہے ۔
نواز شریف کی جی ٹی روڑ ریلی کا اختتام بھی اسی حلقہ کے بھاٹی چوک پر کیا
گیا جس کا سیاسی مقصد دوسری جماعتوں پر اپنا پریشر بڑھانا ہے ۔اس ریلی کے
اثرات بھی ضمنی الیکشن پر مرتب ہوں گے ۔اس حلقہ سے ن لیگ کے ایک سنئیر
رہنماء نے کہا کہ پانامہ کیس پر نا اہلی کے باوجود لوگ ن لیگ کو ہی ووٹ
ڈالیں گے کیونکہ یہاں نواز شریف کے عاشق آباد ہیں ،ایک اور شہری نے کہا کہ
اس حلقہ سے ن لیگ ہی جیتے گی استفسار کیا گیا کہ پھرتوکرپشن جیت جائے گی اس
نے کہا نوازشریف کی جیت چاہیے کرپشن سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں۔
مندرجہ بالا تجزیہ کے بعد اگر پی ٹی آئی کی امیدوارڈاکٹر یاسمین راشد ایک
محنتی لیڈر ہے انہوں نے گھر گھر کمپین کا آغاز کر کردیا ہے اب ن لیگ کو
جیتنے کیلئے بھی گھر گھر کمپین کرنا ہوگی مگر ان کی سیاسی پوزیشن پر غور
کیا جائے تو بیگم کلثوم نواز کے مقابلہ میں ان کی پوزیشن بہت کمزور دکھائی
دیتی ہے ،یاسمین راشد 2013 کے الیکشن میں بھی52354 ووٹ حاصل کرنے کے
باوجودہار چکی ہیں ۔پی ٹی آئی کو اس حلقہ سے ن لیگ کو شکست دینے کیلئے سر
دھڑ کی بازی لگانا ہوگی ،دن رات محنت کرنا ہوگی عمران خان اور مرکزی قیادت
کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے اس حلقے میں ڈیرے ڈال کر سخت محنت کرنا
ہوگی ،میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر،طارق ثناء باجوہ سابق ناظم داتا گنج
بخش ٹاؤن و سابق رہنماء ن لیگ،زبیر خان نیازی سابق امیدوار پی ٹی آئی ایم
پی اے پی پی 140،بھلی بٹ گروپ،آجاسم شریف سابق رہنماء ن لیگ ،چوہدری افضل
گجر،چوہدری اختر گجر ودیگرP.T.I کے جنونی لوگ بھی اسی حلقہ میں رہائش پذیر
ہیں اسی طرح پی ٹی آئی کی بہت اہم شخصیات اس حلقہ میں موجود ہیں جن کی ذمہ
داری اب اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ سب اہم لوگ عوام سے رابطہ کریں ۔ن لیگ کا
مقابلہ کرنے کیلئے پی ٹی آئی کا ہرکارکن اس ضمنی الیکشن کو اپنا ذاتی
الیکشن سمجھے تو نتیجہ خیز کامیابی ملے گی۔
ہمارے نزدیک ن لیگ کے مد مقابلہ تمام سیاسی جماعتیں فاش غلطی کر رہی ہیں جس
کا فائدہ ن لیگ ہمارے نزدیک ن لیگ کے مد مقابلہ تمام سیاسی جماعتیں فاش
غلطی کر رہی ہیں جس کا فائدہ ن لیگ کو ہوگا ،ہر جماعت نے اپنے امیدوار کھڑے
کر دئیے ہیں جو ووٹ تقسیم ہوگا ،جبکہ ن لیگ کا ووٹ بنک محفوظ رہے گا ، عاشق
رسول ﷺ ملک ممتاز قادری شہیدؒ کو پھانسی دینے کے بعد غیرت مند مسلمانوں نے
نظام بدلنے کی بجائے یہ غلطی کی تھی کہ دیگر کرپٹ لیڈران میں سے کم کرپٹ
جماعت میں چلے گئے یا دیگر پارٹیوں میں شامل ہوکر ن لیگ کو ہمیشہ ہمیشہ
کیلئے سیاسی موت کی نیند سلا دینا چاہتے ہیں ،اس ایشو کا بھرپورفائدہ
اٹھانے کیلئے بریلوی مکتبہ ٔ فکر کی سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجودتحریک
لبیک پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت بنائی گئی ہے، اس غیر معروف ،مسلک
بریلوی میں انتہائی متعصب اور فرقہ پرست پلیٹ فارم نے بھی اپنا امیدوار بھی
کھڑا کردیا ،اہلحدیث مکتبہ ٔ فکر نے بھی ایک اور سیاسی جماعت کا اپنے میں
اضافہ ملی مسلم لیگ کے نام سے کردیااور اپنا امیدوار میدان میں اتار دیایہ
دونوں نئی جماعتیں اسلام کے نام پر اپنے حمایتی لوگوں کو اپنا ممبر بنا رہی
ہیں جماعۃ الدعوۃ کی ملی مسلم لیگ کا نظم تو پہلے سے ہی موجود ہ ہے البتہ
مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک پاکستان کو اپنی رکنیت سازی کی اشد
ضرورت ہے ۔دیکھتے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان کے امیر مولانا خادم حسین رضوی
کو ان کے شادگردوں اور مریدوں کے علاوہ عام عوام قبول کرتی ہے یا
نہیں؟(جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے آج تک فرقہ پرستوں اور اسلام کے نام پر
جمہوریت کی کشتی میں بیٹھ کرسیاست کرنے والوں کو قبول نہیں کیامتعدد وجوہات
میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ ہے کہ عوام کو علم ہے موجودہ نظام اسلامی نہیں
ہے ،کئی جگہ پر عوام مطالبہ کرتے دکھائی دئیے گئے کہ ایک عالم دین پر اہم
ترین، اولین فرض صرف اسلامی نظام سیاست متعارف کرواکر اسے قائم کروانا ہے
اگر یہ مقدس عظیم ترین کام علماء کرام نہیں کریں گے تو کون کریگا؟اس لئے
موجودہ نظام کے تحت جب چندعلماء کرام یا مذہبی جماعتوں کے لوگ کامیاب
ہوجاتے ہیں تو وہ قابل ذکر کوئی کام نہیں کر پاتے مزید کہ یہ نظام انھیں
چلنے ہی نہیں دیتا،ایک عنصر یہ بھی دیکھا گیا کہ مذہبی جماعتیں اتحاد کرنے
میں ناکام رہی ہیں لیکن جب بھی اتحاد کرکے کام کیا انھیں کامیابی ملی ) ان
دونوں جماعتوں کا کوئی امیدوار جیت نہیں سکتا البتہ ہر امیدوارووٹ خراب
ضرور کرے گا جس کا فائدہ ن لیگ کو ہوگا اور کسی کو نہیں ،اسی طرح پی پی پی
کا اس حلقہ میں اتنا اثرورسوخ نہیں ہے ۔ پی پی پی زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار
ووٹ حاصل کر سکتی ہے ،جماعت اسلامی اس حلقہ سے پی پی پی سے کچھ زیادہ ووٹ
لے گی اس صورت حال میں وہ تمام قائدین جو کرپشن کو شکست دینا چاہتے ہیں ،جن
کا عزم یہ ہے کہ ن لیگ کو ہر حال میں شکست ہو تو انھیں چاہیے کہ وہ سب
مرکزی لیڈرز ایک جگہ مل بیٹھ کر اپنا ایک مشترکہ امیدوار میدان میں اتاریں
اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے قائدین کو چاہیے کہ برق رفتاری سے اس مشن پر کام
کریں ،جس طرح پی ٹی آئی نے وزیرعظم کا امیدوار اپنی جماعت کی بجائے شیخ
رشید کو مقرر کیا اسی طرح اگر پی ٹی آئی تمام جماعتوں کا مشترکہ امیدوار
لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کامیابی مل سکتی ہے سیاسی جماعتوں کو یہ ذہن
میں رکھنا ہوگا کہ ن لیگ کے جن لوگوں نے پارٹی کو خیر باد کہنا ہے وہ این
اے 120 کے ضمنی الیکشن کا انتظار کر رہے ہیں ، یہ ضمنی الیکشن عام الیکشن
پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگااگر یہ کہہ دیا جائے کہ حالیہ ضمنی الیکشن ایک
سیاسی جنگ ہے تو بی جا نہ ہوگا۔ اس جنگ میں پی ٹی آئی کو شکست ہوتی ہے تو
اس سے عمران خان کی سیاست کو دھچکا لگے گا اوراگرن لیگ شکست سے دوچار ہوتی
ہے تو پانامہ فیصلہ کے بعد یہ شکست ن لیگ کا سیاسی مستقبل تاریک کر دے گی
،ن لیگ کی شکست کی صورت میں ن لیگ سے کثیر تعداد میں لوگ دوسری سیاسی
جماعتوں میں چلے جائیں گے ،ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ن لیگ جیت جاتی ہے
تو پھر کسی دوسری پارٹی میں جانے کی ضرورت نہیں اور اگر ن لیگ کو شکست ہوتی
ہے تو سیاسی پارٹی تبدیل کرنا مجبوری ہے ۔جھنگ شہر سے مذہبی جماعتوں کے
مشترکہ امیدوار مولانا مسرو ر نواز جھنگوی نے پی پی 78 میں ن لیگ کو شکست
دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر صرف اور صرف مذہبی جمہوریت پسند قوتیں ہی
اپنا مضبوط مشترکہ امیدوار میدان میں اتار کرالیکشن لڑیں تب بھی کامیابی
ممکن ہے۔ بصورت دیگر تمام جمہوریت پسند قوتوں کے اتحاد کی صورت میں نا اہل
وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو شکست دینے میں بھی
کامیاب ہو جائیں گیں ۔اس کیلئے تمام جماعتوں کو قربانی دینا ہو گی ۔مبصرین
کا کہنا ہے کہ لاہور شہر کے اس اہم الیکشن سے اگر17 ستمبر 2017 ء کو ن لیگ
جیت جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کی تمام جمہوریت پسند سیاسی
جماعتوں کو کرپشن نے شکست دے دی ہے جو ساری جماعتوں کیلئے شرم کا مقام ہوگا۔
تا دم تحریر عمران خان اور مریم نواز نے الیکشن کمپین کا آغاز 26 اگست سے
کیا ،اس موقعہ پرعمران خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو
تسلیم کرتے ہیں وہ ہمیں ووٹ دیں گے اور جو سپریم کورٹ مخالف ہیں وہ ن لیگ
کو ۔جبکہ مریم نواز کا کہنا تھا کہ کوئی بھی نواز شریف کی محبت لوگوں کے دل
سے نہیں نکال سکتاکامیابی ن لیگ کو ہی ملے گی عوام ہمارے ساتھ ہے ٭٭٭ |